زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے طالب رزاقی اجمالی تعارف

ڈاکٹر فاروق شکیل

نام : سید محمد قطب الدین حسین، قلمی نام : طالب رزاقی، پیدائش : یکم جولائی 1921 ء ، وفات : 31 ڈسمبر 1975 ء ، تعلیم : اردو ، فارسی ، عربی تعلیم گھر پر ہوئی ، کتاب : ’’نوائے طالب (شعری مجموعہ)
طالب رزاقی کے والد شاہ محمد یوسف قادری اپنے وقت کے معروف مجتہد عالم ، اردو و فارسی کے شاعر تھے اور مشہور عالم دین مولانا عبدالماجد دریا آبادی کے بھتیجے تھے۔ شعر گوئی کی ابتداء 18 سال کی عمر سے ہوئی ۔ ابتداء میں فانی بدایونی سے کلام پر اصلاح لی۔ ان کے انتقال کے بعد علامہ حیرت بدایونی سے رجوع ہوئے ۔ طالب رزاقی نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزل ان کی محبوب صنف رہی ۔انہوںنے روایتی شاعری کے حسن کو پامال کئے بغیر غزل کو جدید رجحانات سے بھی سنوارا۔ لہجہ ثقالت سے پاک سادگی اور سلاست اوڑھے ہوئے ، کلام میں گہرائی و گیرائی ۔ زبان و بیان پر دسترس، لاجواب ترنم ، ہر بڑے مشاعرے میں اپنے کلام اور ترنم سے سماع باندھتے تھے ۔ طالب رزاقی کے دو فرزندان ڈاکٹر ناقد رزاقی اور تشکیل رزاقی نے اپنے والد کے نام کو روشن رکھا اور اپنے کلام سے اپنے والد کے ورثے کی حفاظت کی ہے۔ حیدرآباد کی ادبی تاریخ میںطالب رزاقی ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
منتخب اشعار :
تجھے اتنا میں بتادوں ائے اسیرِ آشیانہ
کبھی لوٹ کر نہ آیا جو گزرگیا زمانہ
کھل سکے طالب نہ اسرارِ حیات
اہلِ دانش سر پٹک کر رہ گئے
خزاں رسیدہ چمن میں بہار لے آؤں
تم اتنی دیر مرا انتظار کرلینا
بس یہی ہے ظرف میرا بس یہی ہے حوصلہ
بے خودی میں مثلِ پیمانہ چھلک جاتا ہوں میں
خود بدلنے لگے دنیا کو بدلنے والے
دیکھنا وقت کی دیوار پہ لکھا کیا ہے
وہ اٹھ کر انجمن سے جارہے ہیں
مرا دل ہے کہ بیٹھا جارہا ہے
اب بھی ہم چاہیں تو میخانہ سلامت نہ رہے
تو نے ساقی ہمیں اس حال میں سمجھا کیا ہے
پار اُترے جن کی ہمت تھی بلند
ہم لبِ ساحل ٹھٹھک کر رہ گئے
وہ قافلے جو اپنی جسارت کے بل گئے
آگے نکل گئے بہت آگے نکل گئے
برا ہے یا بھلا ہے بندہ پرور
یہ طالب آپ کا ہے بندہ پرور
تم ترس جاؤگے تابانیٔ محفل کیلئے
ہم تو اُٹھ جائیں گے محفل سے ہمارا کیا ہے
غزل
ظلمتِ غم سے مسرت کی خبر ہوتی ہے
رات پیغامبرِ نورِ سحر ہوتی ہے
لڑ کھڑاتے ہیں جہاں بادِ بہاری کے قدم
درحقیقت وہ تری راہ گزر ہوتی ہے
رات بھی آتی ہے میرا ہی اشارہ پاکر
میرے ہی حکم و اجازت سے سحر ہوتی ہے
سوچتا ہوں تو جفا کا کوئی بدلہ ہی نہیں
دیکھتا ہوں تو وفا پیشِ نظر ہوتی ہے
غم مکمل مرے جینے کا سہارا نہ سہی
دل میں موہوم سی ہلچل تو مگر ہوتی ہے
ہاتھ اٹھاتا ہوں تو سر جھکتا ہے خودداری کا
آہ کرتا ہوں تو توہین اثر ہوتی ہے
اک ذرا سوچ کے تعمیر نشیمن کرنا
ایک اک تنکے پہ بجلی کی نظر ہوتی ہے
غم کی آمد سے نہ مایوس ہو اتنا طالب
رات آتی ہے تو امیدِ سحر ہوتی ہے