’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘ جہاں دار افسرؔ

ڈاکٹر فاروق شکیل

 
اجمالی تعارف :
نام : میر محمد جہاں دار علی خان ، قلمی نام : جہاں دار افسر، پیدائش : 15 مئی 1925 ء ، وفات : 13 جون 2006 ء، تعلیم : ابتدائی تعلیم مدرسہ اعزہ ، مدرسہ عالیہ میں بعد کا تعلیمی سلسلہ جاری رہا ، آل سینٹس اور نظام کالج میںبھی تعلیم پائی ۔ کتابیں : ’’کھلی آنکھوں کے خواب ‘‘ (شعری مجموعہ) ، صحافت سے وابستگی : ’’شیر دکن‘‘ ، ’’پیام ‘‘ ، ’’سیاست‘‘ ، ’’ہمارا اقدام ‘‘ ، ’’انگارے‘‘ ۔ جوہر اور خورشید جیسے اخبارات میں خدمات انجام دیں۔ 1960 ء اور 1956 ء میں میونسپل کارپوریشن حیدرآباد کے کونسلر رہے اور مغلپورہ سے منتخب ہوئے ۔  انعامات و اعزازات۔ (1) بندہ نواز ایوارڈ گلبرگہ ، صحافت اور شاعری پر دیا گیا (2) آندھراپردیش اردو اکیڈیمی نے صحافت پر ایوارڈ دیا (3) 1994 ء میں اردو اکیڈیمی نے مجموعی خدمات پر بھی ایوارڈ دیا۔
جہاںدار افسر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے ۔ ان کی شاعری میں کہیں بھی قافیہ پیمائی نظر نہیں آتی۔ ان کی شاعری میں انسانیت کا درد عیاں نظر آتا ہے ۔ انہوں نے کبھی زندگی سے فرار کے احساس کو اپنے اندر نہیں پالا نہ ترسیل و ابلاغ کے المیے سے دوچار رہے ۔ جاگیردارانہ نظام کی زندگی بھر مخالفت کی ، حالانکہ جہاں دار افسر خود اس نظام کا ایک حصہ تھے ۔ یعنی وہ حویلی میں پیدا ہوئے لیکن کرائے کے گھرمیں زندگی گزاری ۔ ان کے کلام میں سچائی اور ز ندگی کی تلخیوں کا گہرا احساس ملتا ہے۔ ان کی حقیقت پسندی اور سچائی نے ان کے کلام میں جاذبیت بھردی ہے ۔ نہایت منفرد اور دلنشین لہجہ ان کے کلام کا وصف خاص ہے ۔ ان کی وراثت کو ان کے لائق فرزند ارجمند تجمل اظہر نے سنبھال کر رکھا ہے  جو خود بھی لاجواب شاعر ہیں۔
منتخب اشعار :
تمنا ، آس ، حسرت، آرزو ، ارمان بکتے ہیں
یہ سب کیا چیز ہیں اس دور میں ایمان بکتے ہیں
یہ ملاؤں کی منڈی ہے دکانیں ہیں دعاؤں کی
عقیدت رہن ہوتی ہے یہاں فیضان بکتے ہیں
جفا کا دور بنام وفا ملا ہے مجھے
کسے بتاوں زمانے سے کیا ملا ہے مجھے
کہیں جو دل کبھی ٹوٹا ہوا ملا ہے مجھے
خدا گواہ وہیں پر خدا ملا ہے مجھے
غم کا جو ہو شعور تو غم بھی حیات ہے
حساس آدمی کو خموشی بھی بات ہے
کیوں بندگانِ عام سے یہ سخت امتحان
پروردگار یہ تو رسولوں کی بات ہے
قطعہ
جن کے آباء بصد جلال و حشم
خوشنما مقبروں میں سوتے ہیں
وہ بشر خانہ باس و ویرانی
سر چھپانے گھروں میں روتے ہیں
غزل
سر کو کہاں چھپاؤں بہت تیز دھوپ ہے
ملتی نہیں ہے چھاؤں بہت تیز دھوپ ہے
حالات کی تپش سے ہر اک شئے پگھل گئی
میں بھی جھلس نہ جاؤں بہت تیز دھوپ ہے
پاتے ہیں رہ روانِ چھاؤں جس جگہ
آئے گا کب وہ گاؤں بہت تیز دھوپ ہے
میں کم سواد دور ترے گیسوؤں کی چھاؤں
آؤں تو کیسے آؤں بہت تیز دھوپ ہے
ہر لمحہ ایک حشر کی تمہید بن گیا
کب تک  میں تاب لاؤں بہت تیز دھوپ ہے
طئے کیسے ہورہی ہے رہِ آرزو نہ پوچھو
جلتے ہیں دل کے پاؤں بہت تیز دھوپ ہے
افسرؔ پہ ڈال ائے تنِ بے سایہ اک ذرا
دامن کی ا پنے چھاؤں بہت تیز دھوپ ہے