زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے تاج مہجورؔ

ڈاکٹر فاروق شکیل

اجمالی تعارف :
نام : سید تاج الدین احمد، قلمی نام : تاج مہجورؔ، تاریخ پیدائش : 17 اپریل 1931 ء، تاریخ وفات : 17 فروری 1992 ء ، تعلیم : ایف اے (جامعہ عثمانیہ) ، کتاب : ’’لمس کا صحرا‘‘ (شعری مجموعہ 1996 ء۔
جس زمانے میں مخدومؔ محی الدین ، سلیمان اریب ، خورشید احمد جامیؔ اور عزیز قیسی جسے مشہور زمانہ شعراء سے حیدرآباد کی شعری محفلوں کے چراغ روشن رہتے تھے۔ تاج مہجور بھی ان محفلوں میں مدعو کئے جاتے تھے اور اپنے اسلوب کی انفرادیت سے پہچانے جاتے تھے۔ ڈاکٹر یوسف اعظمی تاج مہجور کے مجموعہ کلام میں یوں رقم طراز ہیں ’’لمس کا صحرا جدید اظہار کا ایک خوبصورت شعری مرقع ہے۔ یہ اردو شاعری کی خوبصور آواز ہے ۔ جن شعراء نے اردو نظم کے ارتقاء میں بھرپور حق ادا کیا ہے ان میں تاج مہجور کا نام نمایاں اہمیت کا حامل ہے‘‘۔ تاج مہجور نظم اور غزل دونوں اصناف پر دسترس رکھتے تھے ۔ان کی نظموں میں زندگی کی سچائی کی تصویریں واضح نظر آتی ہیں۔ تاج مہجور کا تخلیقی تجربہ ، لفظ ، آواز اور صورت گری کی بامعنی تثلیث سے تشکیل پایا ہے ۔ تاج مہجور کی صحافتی اور شعری خدمات پر معراج سلطانہ نے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ان کے دو فرزندان فرخؔ شہریارِ اور الطاف شہریار نے اپنے والد کی شعری وراثت کو سنبھال کر رکھا ہے ۔ فرزند اکبر فرخؔ شہریارِ نہ صرف اچھے شاعر ہیں بلکہ معتبر صحافی بھی ہیں۔ جدیدیت کے باب میں تاج مہجور کو حیدرآباد کی ادبی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
منتخب :
نظروں کے یہ تیور لب و رخسار کا لہجہ
غنچوں میں چٹکنے لگا گلزار کا لہجہ
آنکھوں کی جل پری نے خیالوں کی ریت پر
نٹ کھٹ سمندروں کے گھروندے بنائے تھے
گھر کے آنگن سے بھی اٹھتا ہے غبار
صرف گلیوں ہی میں دھول اُڑتی نہیں
پتلیوں میں بٹھاکے ساری رات
صبح دم آنکھ سے اتاری رات
دل کی دھڑکن چاپ تمہارے کومل کومل قدموں کی
خوشبو خوشبو یاد تمہاری پھول تمہارا سایہ ہے
لپٹ کر اپنی گڑیا سے اجالوں میں جو روتی تھی
اندھیروں میں بکھر کر ٹوٹ کر آئی تھی وہ لڑکی
یہ وہم کی منزل ہے یا خواب کی وادی ہے
اک آشنا لہجے نے پھر دل کو صدا دی ہے
یہ محبت ہے مروت ہے کہ مفروضہ ہے
تجھ سے اک درد کا رشتہ ہے نہ جانے کیا ہے
یوں ٹھہرجاتا ہے احساسِ وجود
دن نکلتا ہے نہ شب ہوتی ہے
روپڑیں پھر  ذہن میں شہنائیاں
دیکھ کر آکاش کی ڈولی میں چاند
مدعی عشق کے چہروں ہی پہ مرتے دیکھے
راستے دل کے بدن ہی سے گزرتے دیکھے
آنکھوں میں کھٹکتے رہے روکے ہو ئے آنسو
جوڑے میں مہکنے کو مہکتی تھی چمیلی
پھر ایسے کرب سے گزرے کوئی خدا نہ کرے
کہ آگ آگ جیئے اور راکھ راکھ مرے
تجھ کو بھی بے وفائی کرتی تھی
زندگی ! تجھ سے کی تھی آس بہت

نظم … ’’ملاقات‘‘
تمہارے ہاتھ کی نرمی
تمہارے جسم کی آنچ
تمہارے قرب کی سیال چاندنی کی پھوار
برس رہی ہے ملاقات کی گھٹاوں سے
تمہارا ہاتھ مرے ہاتھ میں ہے
لیکن ہم
یہاں سے دور بہت ہیں
جہاں مجھ کو
تمہاری کوئی خبر ہے ، تمہیں نہ میرا پتہ
ہمارے بیچ میں حائل ہے لمس کا صحرا
تم اپنا ہاتھ چھڑالو
کہ ہم قریب آجائیں