زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے لسان العصر اکبر الہ آبادی

ڈاکٹر فاروق شکیل

 

اجمالی تعارف :
نام : سید اکبر حسین رضوی، قلمی نام : اکبر الہ آبادی، پیدائش : 16 نومبر 1846 ء ، وفات : 1921 ء ، تعلیم : ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، اسکول میں داخلہ لیا لیکن 1857 ء کے ہنگاموں کی وجہ سے تعلیم ترک کردی۔ خطابات : ’’لسان العصر‘‘ ، ’’خان بہادر ‘‘ ، کتابیں : ’’کلیات اکبر الہ آبادی‘‘ ، گنج نسیاں‘‘ ، ’’رباعیات اکبر ‘‘ ، ’’انتخاب کلام اکبر‘‘ ، ’’انتخاب اکبر الہ آبادی‘‘، ’’مکاتب اکبر‘‘ ، مہاکوی اکبر‘‘ ، ’’گاندھی نامہ ‘‘ ، ’’عورت نامہ‘‘ ، ’’اشعار اکبر‘‘ ، ’’اکبر‘‘ ، ’’اکبر اس دور میں‘‘ ، ’’سر سید سے اکبر تک‘‘ ، ’’روح اکبر‘‘ ، ’’بزم اکبر‘‘ ،’’حج اکبر‘‘ ،’’قطعات و رباعیات‘‘، ’’اکبر نامہ ا کبر میری نظر میں‘‘، ’’خطوط بنام خواجہ حسن نظامی‘‘،’’اکبر الہ آبادی کے لطیفے‘‘ ۔
اکبر الہ آبادی نے مغربی تہذیب ، مسلمانوں کی مغربی تہذیب سے قربت، معاشرے کے غلط رسم و رواج ، اپنے عہد کی سیاست اور اس دور میں چلنے والی تحریکوں اور رجحانات کے خلاف اپنی طنز و ظرافت سے بھرپور شاعری کے ذریعہ شہرت حاصل کی اور ادب کی تار یخ میں ’’لسان العصر‘‘ کالقب حاصل کیا ۔ فارسی ، عربی اور انگریزی میں مہارت حاصل تھی ۔ ان کی شاعری میں انسان کے احساسات و جذبات کی مکمل ترجمانی ملتی ہے ۔ اکبر الہ آبادی اپنے دور میں مقبول شاعر تھے ، ان کے اشعار عوام میں ضرب المثل بن گئے تھے اور آج بھی زبان زد عوام و خواص ہیں۔

منتخب شعار :
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑ کے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
میں کیا کہوں احباب کیا کار نمایاں کر گئے
بی اے کیا نوکر ہوئے پنشن ملی اور مر گئے
بتاؤں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
پڑجائیں مرے جسم پر لاکھ آبلے اکبر
پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون
اس قدر تھا کھٹملوں کا چار پائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہوگیا
طفل سے بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی
دختر زر نے اٹھا رکھی ہے آفت سر پر
خیریت گزری کہ انگور کو بیٹا نہ ہوا
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ

نظم
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے
اس فصل میںجو بھیجئے بس آم بھیجئے
ایسا ضرور ہو کہ انہیں رکھ کے کھاسکوں
پختہ اگرچہ بیس تو دس خام بھیجئے

قطعات
بے پردہ نظر آ ئیں مجھے چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑگیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ کدھر گیا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوںکی پڑگیا

چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی ، کلر کی کر خوشی سے پھول جا

رباعی
پوچھے جو کوئی برا یہ مضمون نہیں
کوئی پہلو خلافِ قانون نہیں
ہر چند کہ یہ مزے چکھاتا ہے بہت
شیطان کا کوئی شخص ممنون نہیں