’’زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے‘‘ علی احمد جلیلیؔ اجمالی تعارف

ڈاکٹر فاروق شکیلؔ

نام : علی احمد ، قلمی نام : علی احمد جلیلیؔ، پیدائش : 22 جون 1921 ء ، وفات : 13 اپریل 2005 ء ، تعلیم : پی ایچ ڈی ، تلمیذ : فصاحت جنگ  جلیلؔ، شعری مجموعے : ’’لہو کی آنچ‘‘ (1969 ء) ، ’’ذکر حبیب‘‘ نعتیہ مجموعہ (2000 ء) ۔
شاہانِ دکن آصف سادس نواب میر محبوب علی خان بہادر اور آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر کے استاد فصاحت جنگ جلیل مانکپوری کے فرزند ارجمند علیؔ احمد جلیلی کا نام حیدرآباد کی ادبی تاریخ میں نمایاں نظر آتا ہے ۔ علی احمد جلیلی نے نہ صرف اپنی ادبی وراثت کی حفاظت کی بلکہ اسے جلا بھی بخشی۔ انہوں نے گیسوئے غزل کے روایتی حسن کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں عصری حسیت کے ستارے بھی ٹانکے۔ زبان کا حسن ، تغزل کی رعنائی، سادگی و پرکاری اور عصری حسیت سے مالا مال علیؔ احمد جلیلی کی شاعری کی مہک ہمیشہ تشنگان شعر و ادب کے ذہن و دل کو مہکاتی رہے گی ۔ ان کے تلامذہ کا حلقہ بھی دور دور تک پھیلا ہوا ہے ۔ ڈاکٹر سلیم عابدی ، جگجیون لال ، آستھانہ سحر، صادق فریدی ، شکیب رزمی اور حلیم بابرؔ ، علی احمد جلیلی کے وہ تلامذہ ہیں جو ان کے مکتب کے چراغ کو پوری آب و تاب سے روشن رکھے ہوئے ہیں۔ علی احمد جلیلی نے جہاں شاعری کا قیمتی سرمایہ ادب کو دیا ہے وہیں ان کی نثری و فنی تخلیقات بھی ادب میں اضافہ ثابت ہوئے ہیں جیسے ’’نئی غزل میں منفی رجحانات، ’’نقد و نگاہ‘‘ ’’غالب ا یک مطالعہ‘‘ اردو غزل میں ہندی کے اثرات‘‘ اور ’’اردو تلفظ ندات‘‘ علی احمد جلیلی نے زندگی بھر شعر و ادب کی آبیاری کی ہے ۔ دکن کی تار یخ انہیں کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ انہیں اردو اکیڈیمی تلنگانہ نے مخدوم ایوارڈ اور کارنامۂ حیات ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔
منتخب اشعار
کاٹی ہے غم کی رات بڑے احترام سے
اکثر بجھادیا ہے چراغوں کو شام سے
غم سے منسوب کروں درد کا رشتہ دے دوں
زندگی آ تجھے جینے کا سلیقہ دے دوں
دور تک دل میں دکھائی نہیں دیتا کوئی
ایسے ویرانے میں اب کس کو صدا دی جائے
ایک تحریر جو اس کے ہاتھوں کی تھی
بات وہ مجھ سے کرتی رہی رات بھر
کیا اسی واسطے سینچا تھا لہو سے اپنے
جب سنور جائے چمن آگ لگادی جائے
کناروں سے مجھے ائے ناخداؤں دور ہی رکھو
وہاں لے کر چلو طوفاں جہاں سے اٹھنے والا ہے
روکے سے کہیں حادثۂ وقت رکا ہے
شعلوں سے بچا شہر تو شبنم سے جلا ہے
موج خوں میں قلم ڈبولینا
ائے علیؔ جب غزل لکھا کرنا
ہم مسیحاؤں کی گلی سے علیؔ
لاش اپنی اٹھاکے لائے ہیں
ایک بھی سانس ان کی ا پنی نہیں
اپنے ہونے پہ ہے غرور جنہیں
حالات کی اس بھیڑ میں امید اکیلی
صحرا میں کسی پیڑ کا سایا سا لگے ہے
تمام عمر ہتھیلی میں سنسناتا ہے
وہ ہاتھ ہاتھ میں آکر جو چھوٹ جاتا ہے
اس رنگِ تغزل پہ علی چھاپ ہے میری
یہ ذوقِ سخن مجھ کو وراثت میں ملا ہے
غزل
چاند سورج کی نگاہوں سے چھپاؤ مجھ کو
تیرگی ہوں میں اجالوں میں نہ لاؤ مجھ کو
کون ہوں کیا ہوں میں آئینہ دکھاؤ مجھ کو
میں بھی دیکھوں تو  ذرا سامنے لاؤ مجھ کو
ٹوٹنے میں ہے جو لذت وہ بکھرنے میں ہے کہاں
فرشِ گل پر نہیں پتھر پہ گراؤ مجھ کو
خاک اڑائی تھی جہاں اہل چمن نے میری
لے چلو پھر وہیں اک بار ہواؤ مجھ کو
جو دکھاتے ہیں علیؔ سب کو نشانِ منزل
میں وہی نقشِ قدم ہوں نہ مٹاؤ مجھ کو