زمانہ جنہیں بُھلا نہ سکا

ڈاکٹر امیر علی
عظیم مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کا اصل نام ابو ظفر سراج الدین محمد بہادرشاہ ہے ۔ آپ کی ولادت باسعادت 28 شعبان 1189 ھ مطابق 14 اکتوبر 1775 ء کو قلعہ معلیٰ دلی میں ہوئی ۔ ابو ظفر ان کا تاریخی نام تھا جس کے اعداد 1189 ہوتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے والد اکبر شاہ ثانی کا انتقال 1253 ھ مطابق 1849 ء کو دلی میں ہوا ۔ اُس کے بعد بہادر شاہ ظفر تخت نشین ہوئے ۔ بہادر شاہ ظفر نے ایک ایسے وقت میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی جبکہ سارے ملک پر زوال کے سائے منڈلا رہے تھے اور مغلیہ سلطنت کی بنیادیں ہل چکی تھیں۔ ویسے بھی مغلیہ سلطنت 1800 ء سے 1857 ء تک برائے نام رہی ۔ قلعہ معلیٰ میں اندرونی سازشوں اور انگریزوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے مغلیہ سلطنت کے حدود سکڑ کر ’’دلی تا پالم‘‘ تک رہ گئے تھے ۔ بادشاہ پنشن خوار ہوچکے تھے، امراء و تساہل  اور عوام عیش و نشاط میں مگن تھے جو نظام معاشرت صدیوں سے چلا آرہا تھا اس کے ستون جواب دے چکے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہادر شاہ ظفر سازشوں کا شکار ہوگئے اور ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی 1857 ء کے بعد عظیم مغلیہ سلطان روبۂ زوال ہوگئی اور ملک پر انگریزی حکومت قائم ہوگئی اور ظفر کو بغاوت کے جرم میں قید کرکے انگریزوں نے رنگوں میں قید کردیا اور اس قید کے عالم میں ظفر نے 1862 ء کو وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔
بہادر شاہ ظفر ایک نیک دل شہنشاہ تھے ۔ غرور و تکبر ان کی طبیعت میں نام کو نہ تھا ۔ مروت، ہمدردی ، وطن پرستی ، انسان دوستی اور رعایا پروری ان کے خاص جوہر تھے ۔ دلی سے اُن کو خاص لگاؤ تھا ۔ وہ عوام کے ہمدرد اور ہردالعزیز حکمراں تھے ۔ اُن کے اعلیٰ اخلاق اور دریا دلی کی وجہ سے تمام طبقے کے لوگ اُن کے مداح تھے ۔ ظفر نے جس وقت تخت سنبھالا تھا ملک میں بدامنی ، افراتفری اور طوائف الملوکی اپنے عروج پر تھی  اور ظفر جانتے تھے کہ ان حالات میں ’’وقت کے طوفان کو ریت کی دیواروں سے نہیں روکا جاسکتا ‘‘ اور اس کے علاوہ وقت کی گرم ہوائیں اپنا اثر دکھا رہی تھیں ۔ ظفر ایک نیک دل شہنشاہ ہونے کے علاوہ اس دور کے پرگو شاعر تھے ۔ شاعری میں وہ برج بھاشا، فارسی اور پنجابی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے ۔ ظفر کی اپنی شاعری میں انسان اور اقدار کا ذکر بھی موجود ہے ۔ان کی غزلوں میں ہندو موعظمت ، دنیا کی بے ثباتی اور فانی ہونے کا درس موجود ہے ۔اُن کی ایک مشہور غزل جس پر تصوف کی گہری چھاپ ہے جس میں دنیا کی بے ثباتی اور فانی ہونے کا تذکرہ بڑے ہی موثر انداز میں ہے جس کا پوری اردو شاعری میں جواب نہیں ہے ۔ان کی مشہور غزل کچھ اس طرح ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔
یہ دنیا ہے اوگھٹ گھاٹی پگ نہ بہت پھیلاؤ جی
اتنے ہی پھیلاؤ کہ جس کے سکھ سے دکھ نہ پاؤ جی
اس دنیا کے جتنے دھندے سگرے گو رکھ دھندے ہیں
ان کے پھندے جانہ پڑو تم اس میں نہ من الجھاؤ جی
یہ منواہے مورکھ لو بھی سب ہی الجائے ہے
جانو ہو تو اس مورکھ کو جیسے بنے سمجھاؤ جی
جس کا رج کا ہونا کٹھن تم اپنے من میں جانتے ہو
اس کی یاد سے سہج وہ سمجھو اتنا نہ گھبراؤ جی !
عمر اکارت تم نے کھوئی کچھ تو اُدھر کا دھیان کرو
بہت گئی اور تھوڑی رہی ہے یہ بھی نہ یوں ہی گنواؤ جی
سدھ بدھ دی کرتا رے تم کو سوچ سمجھ کر کرنا کچھ
ایسی کرنی مت کرنا جو کر کر پھر پچھتاؤ جی
کہیئے نہ بھولا اس کو ظفر جو صبح کا بسرا شام  کو آئے
چھوڑ کے سگرے جھگڑے ، اپنے رب سے دھیان لگاؤ جی
بہادر شاہ ظفر کی غزلوں کے چند منتخب اشعار پیش ہیں۔
سب کچھ اس خموشی میں ہے اپنی ائے ظفر ورنہ
زباں منہ میں ہمارے بھی ہے ، ہم بھی بول سکتے ہیں
ڈرتا ہوں موج بحر محبت سے ائے ظفر
ہاتھ آتے آتے دامنِ ساحل ڈبو نہ دے
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
ہرجائے ہے قدرت کا تماشا مرے آگے
لیکن مری غفلت کا ہے پردا مرے آگے
بازار محبت میں نہ دل بیچ تو اپنا
بک جاتا ہے ساتھ اس کے ظفر بیچنے والا
چمن و دہر میں وہ بلبل تصویر ، ہوں میں
کہ مجھے رنگِ بہاران و خزاں ایک سا ہے
غزل
یا مجھے افسر شاہانہ بتایا ہوتا
یا مرا تاج گدا یانہ بنایا ہوتا
خاکساری کیلئے گرچہ بنانا تھا مجھے
کاش خاک درِ جانا نہ بنایا ہوتا
صوفیوں کے جو نہ تھا لائق صحبت تو مجھے
قابل جلسہ رندانہ بنایا ہوتا
تھا جلانا ہی اگر دوری ساقی سے مجھے
تو چراغ رہ میخانہ بنایا ہوتا
دل صد چاک بنایا تو بلا سے لیکن
زلفِ مشکیں کا تری شانہ بنایا ہوتا
روز معمورہ دنیا میں خرابی ہے ظفر
ایسی ہستی سے تو ویرانہ بنایا ہوتا