زبیر رضوی کے بعد کی دلّی

سرور الہدیٰ
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
زبیر رضوی کی رحلت کے بعد دلّی میں ایک سنّاٹے کا احساس ہوتا ہے۔ کسی سے روز ملنا اور بات کرنا نہ تو آسان ہے اور نہ ضروری۔ وہ لوگ بھی جن سے زبیر رضوی کی ملاقاتیں کم ہوتی تھیں انھیں بھی اس سنّاٹے کا احساس ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ دلّی کی ادبی دنیا سے ایک ایسا شخص اُٹھ گیا ہے جو صبح سے شام تک ادب کے بارے میں سوچتا تھا۔ زبیر رضوی سے اتفاق اور اختلاف کے پہلو ان کی زندگی میں بھی سامنے آتے رہے اور اب جب کہ وہ نہیں ہیں تو کسی کو بھی اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ ان کے تعلق سے اتفاق کرے یا اختلاف لیکن ایک بڑے سیاق میں زبیر رضوی کی ادبی مصروفیتوں اور دلچسپیوں کو دیکھیں تو یہ کہنا پڑے گا کہ انھیں ادب اور ادبی صحافت سے گہرا عشق تھا۔ خود انھوں نے اپنی زندگی میں اپنے معاصرین سے زبانی طور پر بھی اختلاف کا اظہار کیا اور تحریری طور پر بھی۔ مظہر امام اور شہریار کے انتقال کے بعد ذہن جدید کے ایک اداریے میں زبیر رضوی نے ان دو معاصر شعرا کی تعریف بھی کی اور ان کی کمزوریوں کی جانب اشارہ بھی کیا۔ اس اداریے کو پڑھ کر مجھے یہ خیال آیا تھا کہ کاش زبیر رضوی نے ان رخصت ہونے والوں کی زندگی میں ان خیالات کا اظہار کیا ہوتا۔ وہ اس لیے تاکہ آپ جس کے بارے میں کچھ لکھ رہے ہیں اسے یہ تو پتا چلے کہ اس کا ایک باشعور ہم عصر ان کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ یہ ضرروی نہیں کہ ہر بات کا جواب بھی دیا جائے مگر یہ بھی ایک اخلاقی جرأت کی بات ہے کہ زندگی میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنی شکایت کا اظہار کیا جائے۔
زبیر رضوی کی ادبی زندگی میں بہت سے ایسے مواقع آئے ہوں گے جنھیں دیکھ کر ان کے معاصرین نے ان سے اختلاف کیا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہونا کسی بھی ادبی معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ البتہ تنگ نظری انسان کو داخلی سطح پر کمزور کرتی ہے اور فکر کا دائرہ بھی سمٹتا جاتا ہے۔ زبیر رضوی سے میری گفتگو کم ہوئی مگر انھیں دیکھا ، سنا اور اتناپڑھا ہے کہ وہ میرے لیے ناشناسا تو ہرگز نہیں۔ ایک دو موقع پر ان کی کسی بات سے میں نے اختلاف بھی کیا۔ زبیر رضوی کی ادبی زندگی سے ایک بات یہ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ تعصب بھی انسان کو طاقتور بناتا ہے بشرطیکہ اس کی بنیاد میں خلوص اور سچائی ہو۔ زبیر رضوی جس کو پسند نہیں کرتے تھے اس کے بارے میں کھل کر بولتے اور لکھتے تھے اور اشارے کی زبان وہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ تعصب کسی کو اسی لیے ممتاز اور طاقتور بنا دیتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں غلط کو غلط نہ کہوں تو ایسے میں خود اپنی زندگی چھوٹی ہو جائے گی۔ زبیر رضوی نے کئی دہائیاں اسی بیباکی سے لکھنے اور بولنے میں گزار دی۔ ان کی شخصیت میں بہت لوگوں کے لیے کشش اور جاذبیت ہو سکتی ہے لیکن ہم نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو ان سے ملنا نہیں چاہتے تھے مگر زبیر رضوی کو بھی کہاں اس بات کی پرواہ تھی۔ وہ صاف صاف کہہ دیتے تھے کہ نہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں اور نہ مجھے آپ سے بات کرنے کا شوق ہے۔ وہ بات کرتے ہوئے ایسے شخص کی طرف دیکھتے ہی نہیں تھے جو انھیں عزیز نہیں ہے۔ ایسا شخص انھیں بہت قریب ہوتے ہوئے بھی اجنبی تھا۔ ایسے اجنبیوں کے درمیان سے وہ تیز تر گزر جاتے تھے، نگاہ اٹھا کر وہ دیکھتے بھی نہیں تھے۔ انھیں اس بات کا کبھی ملال نہیں ہواکہ فلاں شخص سے مجھے کوئی تعلق نہیں ہے یا فلاں شخص کسی اور کی نگاہ میں بہت اچھا ہے لہٰذا مجھ پر بھی یہ واجب ہے کہ میں بھی اسے اچھا کہوں۔
زبیر رضوی امروہہ کے ایک محلے سے دلّی آئے تھے، اسی محلے میں ہمارے زمانے کے ایک اہم عالم نثار احمد فاروقی کا بھی گھر ہے۔ ان دونوں نے دہلی کی ادبی زندگی میں اپنا ایک مقام بنایا اور دونوں بالآخر امروہہ ہی میں سپرد خاک ہوئے۔ کتنی آسانی سے زندگی سمٹ جاتی ہے مگر زبیر رضوی کا اچانک اس طرح رخصت ہو جا نا ممکن ہے بہت لوگوں کے لیے ایک عام سا واقعہ ہو مگر جو لوگ ان کی دہلی میں موجودگی کو محسوس کر رہے تھے انھیں تو یہی لگتا ہے کہ ایک آواز خاموش ہو گئی۔ یہ بھی ان کی ادبی زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ ادبی محفل ہی میں بولتے بولتے خاموش ہو گئے جیسا کہ اور بولنے کی خواہش نہ ہو۔ گویا بولتے بولتے دل بھر آیا۔ زبیر رضوی بہت تیز قدموں سے چلتے تھے اور ہمیشہ ان کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی تھی۔ سڑک کے کنارے کنارے چلنے والا یہ شخص فکری طور پر بڑا فعال اور ثروت مند تھا۔ اسے اس بات کا شدید احساس تھا کہ زمانہ جتنی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے ہم اس کا اس طرح ساتھ تو نہیں دے سکتے لیکن علمی اور معلوماتی طور پر خود کو زمانے کا ہم عصر بنانے کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔ اسی لیے ’’ذہن جدید‘‘ خالص ادبی رسالہ نہیں تھا، اس میں ادب کے ساتھ موسیقی، مصوری، ڈرامہ، کھیل، فلم سے متعلق تحریرں شایع ہوتی تھیں۔ وہ دنیا کی بڑی اہم شخصیات کی تصویریں بھی شائع کرتے تھے۔ ذہن جدید میں انھوں نے اردو کی بعض اہم شخصیتوں کے گروپ فوٹو بھی چھاپے ہیں۔ وہ ان چند مدیروں میں ہیں جو ہر شمارے کے لیے ایک منصوبہ بناتے تھے، لوگوں سے بات کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ کیا آپ اردو کے ایسے ادیبوں کے متعلق لکھ سکتے ہیں جنھوں نے خود کشی کی ہو۔ تو میں نے حامی بھر لی تھی اور تھوڑا وقت مانگا تھا، لیکن پھر یوں ہوا کہ مضمون مکمل نہیں ہو سکا اور ان کی زندگی میں شائع بھی نہیں ہوا۔ اب جب کہ وہ نہیں ہیں تو مجھے اس موضوع سے زبیر رضوی کی دلچسپی کا شدید احساس ہو رہا ہے اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ مضمون کو جلد مکمل کر لوں۔ یہ مضمون چاہے جب اور جہاں شائع ہو وہ زبیر رضوی کے نام ہوگا اور اس کا عنوان میں نے پہلے سے ہی طے کر رکھا ہے ’’اردو کے خودکشی کرنے والے ادیب‘‘۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ زبیر رضوی کی طرح دلی میں دو تین شخصیات کو چھوڑ کر کوئی ایسا نہیں جو ادب کو اتنے بڑے سیاق میں دیکھتا ہو اور اس کی دلچسپی کا دائرہ اتنا پھیلا ہوا ہو۔
ذہن جدید کے پہلے صفحے پر لکھا ہوتا تھا ’مخدوم محی الدین اور سلیمان اریب کی یاد میں‘۔میں سمجھتا ہوں کہ ہماری ادبی صحافت کا یہ ایک اہم واقعہ اور حوالہ ہے کہ کسی نے اپنی پسندیدہ دو شخصیات کو اس طرح یاد کیا ہو۔ یہ دونوں نظری طور پر ترقی پسند شاعر ہیں اور دونوں کا تعلق حیدرآباد سے رہا ہے۔ زبیر رضوی خود کو ترقی پسند کہتے تھے اور جن وادی لیکھک سے ان کا تعلق تھا مگر انھوں نے جدیدیت کے زیر اثر تخلیق کرنے والے تمام اہم تخلیق کاروں کو اپنا دوست بنایا اور ان کے ساتھ ادبی مذاکرے کا اہتمام کیا۔ یہ بات خود اپنے آپ میں بہت اہم ہے کہ زبیر رضوی نے مخدوم محی الدین اور سلیمان اریب کی یاد میں ذہن جدید جیسا زندہ رسالہ نکالنے کے ساتھ ساتھ جدیدیت کے زندہ عناصر کو جذب کرنے اور انھیں دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت میرے سامنے ذہن جدید کے بیشتر شمارے موجود ہیں۔ یہ گرچہ ترتیب کے ساتھ رکھے ہوئے نہیں ہیں مگر اس بے ترتیبی میں جو طاقت ہے وہ طاقت نظر آنے والے ذہن جدید اور اس فقرے کی ہے کہ ’بڑی زبان کا زندہ رسالہ‘ ۔ میں اپنے شعبے کی اسی منزل پر ہوں جہاں وہ اکثر آیا کرتے تھے ، کبھی کسی مضمون کے لیے، کبھی کسی بات پر مذاکرے کے لیے۔لہٰذا ان شماروں کو دیکھتے ہوئے اور زبیر رضوی کے بارے میں سوچتے ہوئے مجھے ایک دوسرے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ذہن جدید ایک معنی میں زبیر رضوی ہے اور زبیر رضوی کا مطلب ذہن جدید ہے۔ یہ تمام شمارے مجھے میرے استاد ڈاکٹر اسلم پرویز نے عنایت کیے اور یہ تاکید کی کہ یہ زبیر کا پرچہ ہے، آپ انھیں حفاظت کے ساتھ رکھیں گے اور موقع موقع سے انھیں الٹ پلٹ کر ان کے مشمولات بھی دیکھیے۔یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ زبیر رضوی کو ان کے احباب انھیں صرف زبیر کہتے تھے۔ میں نے فضیل جعفری، مجتبیٰ حسین ، صدیق الرحمن قدوائی، اسلم پرویز اور شمیم حنفی وغیرہ کو زبیر رضوی کی جگہ زبیر کہتے دیکھا۔زبیر کہنے میں ایک خاص طرح کا تعلق ظاہر ہوتا ہے۔ وہ اپنے احباب سے بے پناہ محبت بھی کرتے تھے اور جلد ناراض بھی ہوتے تھے۔ متاع سخن کے نام سے زبیر رضوی پر جو ایک کتاب شائع ہوئی اس پر ترتیب و تزئین کے تحت اسلم پرویز کا نام ہے۔ اب اس سے زیادہ محبت کی دلیل کیا ہوگی کہ زندگی کے آخری پڑاؤ پر پہنچ کر ایک دوست دوسرے دوست کے تعلق سے خود کو بطور مرتب پیش کرتا ہے۔ یہ پوری کتاب اس اعتبار سے نہایت ہی یادگار ہے کہ ادب میں سچی دوست نوازی کیا ہوتی ہے، بشرطیکہ اس کی بنیاد ادبیت پر ہو۔ اسلم پرویز نے اپنے پیش لفظ میں زبیر رضوی کے تعلق سے جو کچھ لکھا ہے اسے بھی پڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ گذشتہ پچاس سال کی ادبی زندگی کی ہلچل سے ہم کچھ واقف ہو سکیں اور یہ دیکھ سکیں کہ اس ہلچل میں زبیر رضوی کی آواز کہاں کہاں سنائی دیتی ہے۔
میں نے ابتدا میں جس سناٹے کا ذکر کیا ہے وہ ٹوٹنے کے بجائے بڑھتا جاتا ہے اور مجھے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زبیر رضوی کو یاد کیے بغیر نہ اس سناٹے کا احساس ہوگا اور نہ ہی اس کے ٹوٹنے کی کوئی صورت ہے۔ جب میں بلراز مین را سے ملتا تھا تو وہ یہ کہتے تھے کہ زبیر سے بات ہوئی تھی ، زبیر کا پرچہ آگیا ہے یا آرہا ہے۔ یہ پورا حلقہ اپنی شرطوں پر زندگی گزارنے والوں کا تھا۔ زبیر رضوی کی ایک نظم ’’ملاقات‘‘کے یہ دوبند ملاحظہ کیجیے:
رات، سناٹا، در و بام کے ہونٹوں پہ سکوت
راہیں چپ چاپ ہیں پتھر کے بتوں کی مانند
روشنی طاقوں میں اَلسائی ہوئی بیٹھی ہے
نیند آنکھوں کے دریچے سے لگی بیٹھی ہے
دن کے ہنگاموں کی رونق کو بجھے دیر ہوئی
چاند کو نکلے ستاروں کو سجے دیر ہوئی
اب کسی چشمِ نگہدار کا خطرہ بھی نہیں
وقت کے ہاتھ میں اب سنگ ملامت بھی نہیں
دل جو مچلے تو کوئی ٹوکنے والا بھی نہیں
جسم پگھلے تو کوئی دیکھنے والا بھی نہیں