زبان سنبھال کے

قمر جمالی
لگی نا….؟
ہمیں بھی لگی۔ ہمارے قلم کو بھی لگی۔ معاف کرنا میں کوئی نازیبا بات نہیں کہہ رہی ہوں بلکہ نہایت ادب و احترام سے گزارش کررہی ہوں کہ …. ’’بھائی صاحب! زبان سنبھال کے۔ ‘‘ ’’بہن صاحبہ! زبان کو سنبھال کر استعمال کیجئے۔‘‘ کیونکہ ایک بار جو زبان کی گاڑی پٹری سے پھسل گئی،تو پھر دائیں بائیں غار کے سرد پتھروں پر گھستی، گھسٹتی لو لہان ہوجائے گی۔
دراصل بہت دن سے ہمارے ذہن و دل میں ایک جنگ چھڑی ہوئی ہے کہ زبان کی حفاظت کے معاملے میں کچھ باتیں کریں۔ ذہن کہتا تھا کہ بالکل درست ہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے ۔ مگر دل کہتا کہ آتش نمرود میں کودنے کے مترادف ہے۔ خود اپنا ہی کلیجہ جل جائے گا۔ اس لئے چپ تھے۔ مگر 10 اگست 2014 کو روزنامہ سیاست کے سنڈے ایڈیشن میں میرا کالم کے تحت شہرہ آفاق مزاح نگار پدم شری مجبتی حسین صاحب کا مضمون’’انجمن تلفظ اردو کا فوری قیام نہایت ضروری ہے‘‘ پڑھا تو ہمارے جذبہ حق و صداقت کو مہمیز لگی اور حوصلہ ملا۔ ایک دہائی پہلے کی بات ہے جب اکثر یہ سننے میں آتا تھا کہ اردو ادب کا مستقبل تاریک ہے کیونکہ جو موجود تھے ان کے بعد کوئی نئی نسل اس میدان میں ابھر کر نہیں آئی تھی مگر پچھلی دہائی نے ان قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کردیا ۔ الحمدللہ نئے لکھنے والوں کی ایک ایسی کھیپ ابھر کر سامنے آئی جو بے حد بے چین اور متحرک ہے ۔ یہ نئی نسل ( کل تک ہم بھی اسی نئی نسل میں تھے) خود ساختہ اصولوں کی معتقد ہے ۔ اس بات سے بے بہرہ ہے کہ علم حاصل کرنے کیلئے تلمیذہونا ضروری ہے خواہ وہ کسی کے آگے زائرے ادب نہ کر کے ہی ہو یا پھر مطالعے کے ذریعے یا پھر بزرگوں اور علماء کی صحبت سے اکتساب کر کے ہی کیوں تہہ ہو۔ مشہور ترقی پسند ادیب عالی جناب سرینواس لاہوٹی کہا کرتے تھے۔ بی بی! ایک اونٹ کتابیں پڑھو، پھر لکھو ۔ اور جو کچھ لکھو اسے شائع کرے سے پہلے اس کے معیار کو جانچو۔ خود احتسابی کرو۔ ‘‘
ویسے ہم نے خود بھی کچھ اتنا زیادہ مطالعہ تو نہیں کیا مگر بزرگوں کی باتوں کو گرہ میں لیں۔ اب کہاں ایسے لوگ جو دوسروں کیلئے اپنا خون جلا یا کرتے تھے۔!

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہوگئیں
جناب مجتبی حسین بھی اسی عہد کی نشانی ہیں۔
ایک ایسے سنجیدہ معلم ہیں جنہوں نے مزاح کے رنگ میں ایسی ایسی سنجیدہ باتیں کیں کہ سامنے والا عارضی طور پر مسکرا کیوں نہ دے ،مگر محفل سے اٹھتے ہوئے اس لمحہ فکر کو ساتھ لئے اٹھتا ہے جو اسے سوچنے پر مجبور کردے ۔ اب یہی دیکھئے محولہ بالا مضمون کا اقتباس جس کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔
’’پچھلی صدی کی چھٹی دہائی کے اواخر میں حیدرآباد میں ایک انجمن قائم ہوئی تھی جس کا نام ’’انجمن تحفظ اردو‘‘ تھا۔ اس وقت اردو کی صورت حال اچھی تھی اور گاہے گاہے اس کا تحفظ بھی ہورہا تھا۔ اردو الفاظ کے تلفظ کی بات بھی تو اس معاملے میں صورتحال اتنی سنگین نہیں تھی جتنی آج ہے ۔ اس کے باوجود جانے کیوں جب بھی اس انجمن کا نام ہماری زبان پر آتا تو پھسل کر تحفظ اردو، کی بجائے تلفظ اردو، ہوجاتا تھا ۔ ہوسکتا ہے ہمارے لا شعور میں یہ بات رہی ہو کہ مستقبل میں جب اردو کے تحفظ کے امکانات معدوم ہوجائیں گے تو اردو کا تلفظ بھی بگڑ جائے گا اور اردو والے اس نوبت کو پہنچ جائیں گے کہ ایک انجمن تحفظ تلفظ اردو، بھی قائم کر بیٹھیں۔ بخدا آج ہمیں ایسی انجمن کی شدید ضرورت لاحق ہوتی نظر آرہی ہے۔‘‘فنکار پیدائشی ہوسکتا ہے مگر کسی فن کو فن پارہ بننے کیلئے فنکار کو اکتساب علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک ادیب، مصنف یا شاعر خود ساختہ ہوسکتا ہے مگر بے ساختہ نہیں۔ کیونکہ جب تک وہ زبان پر اس کی ساخت ،ہیئت اور تصرف تحریری ، تقریری اور صوتی اعتبار دسترس نہیں حاصل کرلیتا اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ۔ زبان کے معاملے میں املا اور انشاء ایک الگ مسئلہ ہے مگر تلفظ کا مسئلہ ذرا سنگین اور نازک ہے ۔ جسے خود اکیلے حل نہیں کرسکتے ۔

اردو زبان بلا اعراب ہوتی ہے۔ اس لئے لفظوں کی ادائیگی میں احتیاط ضروری ہے۔ لفظ کو اس کی ادبی وراثت یعنی (Etimology)کے ساتھ پہچاننا ضروری ہے۔ دور کیوں جائیں یہی کوئی دس برس پہلے کی بات ہے جب حیدرآباد کی انجمن ترقی پسند مصنفین، سارے ہندوستان کی ترقی پسند ادیبوں کی انجمنوں میں سب سے زیادہ متحرک اور فعال تھی۔ انجمن اب بھی کارکرد ہے ۔ جناب مجتبیٰ حسین اس کے صدر اور راقم الحروف اس کی جنرل سکریٹری ہے لیکن تب کی بات اور تھی۔ سارے ہندوستان کے بڑے بڑے ادیب بلکہ بیرون ہندوستان کے ادیب اس انجمن سے منسلک تھے تب ہر دوسرے ہفتے اس انجمن کی ایک ادبی نشست ہوتی جس میں اراکین اپنی نثری اور شعری تخلیق تبصرے کیلئے پیش کرتے ۔ تخلیقات تو بس دس پندرہ منٹ میں پیش ہوجاتیں مگر ان پر مباحثہ کبھی کبھی گھنٹوں طول پکڑجاتا ۔ تخلیقات پر ہر اعتبار سے، اس کی ساخت، موضوع، اسلوب، طرز نگارش، زبان، پھر بیان اور تلفظ پر سیر حاصل بحث ہوتی ۔ کمیوں، کوتاہیوں اور اغلاط کی نشاندہی کی جاتی ۔ تنقید سخت سے سخت ہوتی مگر برائے تعمیر ہوتی۔ اچھائیوں کی تحسین بھی ہوتی ۔ ہمت افزائی ہوتی مگر تحقیر ہر گز نہیں۔ اس زمانے کے ادیبوں کیلئے صحت مند ادب کی تخلیق کیلئے تربیت ناگزیر تھی۔ اس وقت بزرگوں کی تنقید سر آنکھوں پر رکھی جاتی اور کوئی کسی بات کا برا نہیں مانتا تھا کیونکہ وہاں دل آزاری کا کہیں گزر نہیں تھا اور نہ ہی تخریب کاری کا۔
تنقید سہنے کے لئے جو صبر و تحمل درکار ہے وہ اب موجودہ دور میں عنقا ہے ۔ نصیحت کو آج کی نسل تضحیک سمجھتی ہے اور تضحیک نفرتوں کو جنم دیتی ہے ۔ پھر یہ درد سر کون اپنے سر لے۔!!
کہانی، افسانہ یا شاعری کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اللہ نے ہنر دیا تو لکھ ہی لیں گے مگر اسے خام حالت میں قاری تک پہنچانا مناسب بات نہیں ہے ۔موضوع کچھ بھی ہوسکتا ہے، مگر اس کے پیش کرنے کا انداز اچھا ہونا چاہئے ۔ زندگی کی ہر حقیقت کو بیان کیا جاسکتا ، مگر سلیقے سے ۔ جنسیات پر بات کی جاسکتی ہے، مگر حد ادب میں کیونکہ بعض اوقات حقیقت بیان سے مفر ممکن نہیں ہوتا۔ مشہور ناقد ڈاکٹر محمود الحسن رضوی نے اپنے مضمون میں لکھا ۔
’’محبت اور فن کا گہرا تعلق ہی، فن کی حقیقی تشریح ہے۔ اس کے بغیر بلکہ جنسی جذبہ کے بغیر فن کا وجود ممکن نہیں۔‘‘
اقتباس: ’’اردو تنقید میں نفسیاتی عناصر‘‘ ص 389-390
تلفظ: ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک زبان مسلسل استعمال میں رہی ہے ۔ جب کوئی چیز ضرورت سے زیادہ استعمال میں رہے تو اس کا ٹوٹنا پھوٹنا ناگزیر ہے ۔ لہذا زبان نے بھی شکست و ریخت کے ایسے کئی طوفان سہے تب جاکر ایک قالب میں ڈھلی ہے ۔ متقدین نے نہایت عرق ریزی اور غیر جانبداری سے اس کی صورت کشی کی اور ’’لفظوں ‘‘ کو تحریری ،تقریری اور صوتی اعتبار سے نطق بخشا۔ در حقیقت لفظوں کا صوتی پیرہن ہی اس کا تلفظ ہے ۔سخن گسترا نہ بات تو یہ ہے کہ تلفظ صرف کتابوں میں پڑھ کر سیکھا نہیں جاسکتا کیونکہ اس کا جزو بدن تو آوازوں میں پوشیدہ ہے ۔ اس لئے لفظ جب تک اس کے صحیح مخارج میں نہ سنیں تلفظ کا صحیح طور پر ادا ہونا ذرا مشکل ہے۔ لفظ کی ایک ضرورت تھی اس کا تلفظ ، اب اس کی دوسری ضرورت ہے۔
لفظ کا محل اور مکانیت:
ہر لفظ کا اپنا ایک محل، ایک مکان ہوتا ہے۔ جسے موقع اور بے محل نقل مکانی سے عبارت کھردری ہوجاتی ہے ۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے عالی جناب برق موسوی صاحب جن کے ہاں ہم اپنے ابتدائی زمانے میں اصلاح کیلئے جاتے تھے، اپنے زمانے کے فارسی کے بہت بڑے عالم تھے۔ انہیں زبان و بیان اسالیب و آہنگ پر خاصہ عبور تھا۔ انہوں نے ہمیں فعل ماضی منفی سمجھانے کیلئے یہ شعر پڑھا تھا جو آج تک ہماری رہبری کرتا ہے۔

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبو یا مجھ کو ہونے ،نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
لفظ ’نا‘ اور نہ ، کے فرق کو سمجھنے کے لئے اس سے اچھا سبق اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔
محاورے : محاوروں کا استعمال عبارت کو خوبصورت بناتا ہے ، زبان کو آراستہ کرتا ہے ۔ اور یہ محاورے صدیوں پر محیط ہیں اور اپنی مسلمہ شکل میں مستعمل ہیں ۔ انہیں توڑ موڑ کر استعمال کرنا ادبی ہے ۔ قدرت ہو تو نئے محاورے ، نئی تراکیب کی اختراع کی جاسکتی ہے مگر مروجہ محاوروں کو توڑ کر پیش کرنا مناسب بات نہیں ہے ۔ہم ادب کے ایک معمولی سے طالب علم ہیں۔ کتابیں تو ہم نے بھی اونٹ بھر نہیں پڑھیں لیکن ہمیں علماء ،ادبا اور بزرگوں کی صحبت کا شرف حاصل رہا ہے ۔ اس معاملے میں ہم خود کو بے حد خوش نصیب گردانتے ہیں کیونکہ حدیث شریف ہے ۔ ’’تمہارے اوپر لازم ہے کہ علمائے کرام کی مجالس میںبیٹھو
اور تم داناوں کی باتیں سنو۔ اللہ تعالی حکمت و دانائی
سے مردہ دلوں کو اسی طرح زندہ کردیتا ہے جس طرح
کہ بارش کے بر سنے سے مردہ زمین کو زندہ کردیا جاتا ہے‘‘
ایک مرتبہ ایک محفل میں کسی کتاب کی زبان پر بات کرتے ہوئے ہم نے کہا کہ کتاب پڑھتے ہوئے ہمیں بڑی اجنبیت کا احساس ہوا ۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ صاحب کتاب کی دل آزاری ہوئی اور موصوف ہم سے سخت ناراض ہوئے جس کا ہمیں بھی افسوس ہے ۔ یہ سچ ہے کہ ’’زبان کسی کی جاگیر نہیں ہے‘‘۔ دوستو! در حقیقت ہم یہی سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ زبان کسی ایک کی جاگیر نہیں ہے۔ یہ ہماری ماؤں ، باپوں ،نانیوں ،دادیوں کی عطا کی ہوئی صدیوں کی میراث ہے اور اس کی حفاظت ہر اردو داں کی ذمہ داری ہے ۔ اگر کسی مصنف کو ’انکار‘ اور ’منع ‘ کا محل صحیح نہیں پتہ ہو اور کسی کو ٹھیس اور ٹیس دونوں لگتی ہیں تو ہم چپ نہیں رہ سکتے اور بے ساختہ کہہ دیں گے
بھائی!
ٹھیس لگتی ہے …….اور ٹیس اٹھتی ہے ۔
یعنی ایک کا اثر خارجی ہے اور دوسرے کا داخلی ہے۔
ہم نے کھلے دل سے چند سطور سپرد قلم کئے ہیں۔ پھر بھی کسی کی دل آزاری ہوگئی ہو تو ہم اس کیلئے معذرت خواہ ہیں۔ کیا کریں بقول غالبؔؔ ۔
گویم مشکل و گرنہ گویم مشکل