ریاست حیدرآباد میں گوکھلے میموریل اسکالرشپ کا قیام حیدرآباد میں تعلیم کے میدان میں اُس وقت کا سب سے اہم اعزاز

 

آرکائیوز کے ریکارڈ سے     ڈاکٹر سید داؤد اشرف
گوپال کرشن گوکھلے انیسویں صدی کے آخر اور بیسیوں صدی کے ا وائل میں ہندوستان کے قومی افق پر ابھرنے والی شخصیتوں میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ نہایت کم عمری میں ترقی اور شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی گوکھلے جیسی بہت کم شخصیتیں ہماری قومی تاریخ میں دیکھی گئی ہیں۔ گوکھلے 1889 ء میں کانگریس میں شریک ہوئے اور 1905 ء میں جبکہ وہ صدر کل ہند کانگریس منتخب ہوئے اس وقت انہیں کانگریس کے سب سے کم عمر صدر ہونے کا ا عزاز حاصل ہوا تھا ۔
گوکھلے اس زمانے میں ملک کے ایک ممتاز سیاست داں اور ایک بہترین پارلیمنٹرین ہی نہیں بلکہ ماہر تعلیم بھی تھے، وہ چاہتے تھے کہ ملک میں تعلیم کو خصوصی اہمیت دی جائے اور علم کی روشنی کے ذریعہ ہندوستانی عوام کے سماجی اور سیاسی شعور کو بیدار کیا جائے ۔ اس اہم شخصیت کی پچاس (50) سال کی عمر میں موت کے بعد بمبئی میں ان کی ایک یادگار قائم کرنے کافیصلہ کیا گیا تھا ۔ اس یادگار کے قیام کیلئے آصف سابع نواب میر عثمان علی خان سے بھی مالی اعانت حاصل کرنا طئے پایا تھا ۔ اس بارے میں ساری کارروائی آندھراپردیش اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ کے ذخائر میں محفوظ ہے ۔ اس کارروائی کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ سابق ریاست حیدرآباد نے مالی امداد اور اعانت کے معاملات میں فیاضی ہی نہیں دکھائی بلکہ مذہبی عصبیت اور کسی ذہنی تحفظ کے بغیر اعلیٰ ترین صلاحیتوں کی قدر اور عزت کی ۔ یہ کارروائی اس ریاست کے حکمراں اور سارے نظم و نسق کے صاف ذہن ، جذبہ رواداری اور روشن خیالی کا مستند ثبوت ہے ۔ اس اجمال کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ۔

گوکھلے میموریل فنڈ کی جانب سے جہانگیر بہمن جی کا جو خط آصف سابع کو بذریعہ ڈاک وصول ہوا تھا اسے معہ منسلکات واپس کرتے ہوئے آصف سابع نے اپنے حکم نامہ مورخہ 15 رجب 1333 ھ / 30 مئی 1915 ء میں تحریر کیا کہ اس بارے میں فریدوں جنگ بہادر کی رائے عرض کی جائے ۔ اس حکم کی تعمیل میں فریدوں جنگ نے ایک عرضداشت موخہ یکم جون 1915 ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی جس میں انہوں نے لکھا کہ جہانگیر بہمن جی کے مکتوب اور اس کے منسلکات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسٹر گوکھلے کے میموریل کیلئے آصف سابع سے مالی امداد دینے کی درخواست کی گئی ہے ۔ اس سلسلہ میں فریدوں جنگ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اگر اس بارے میں معین المہام (صدرالمہام) فینانس کی بھی رائے لی جا ئے تو مناسب ہوگا اور اگر آصف سابع کا ارشاد ہو تو وہ معین المہام فینانس کی رائے طلب کر کے اس کے ساتھ اپنی بھی رائے عرض کریں گے ۔ عرضداشت میں درج کردہ فریدوں جنگ کی رائے کے بارے میں آصف سابع نے اسی تاریخ کے اپنے حکم نامہ میں تحریر کیا ۔ ’’اس بارے میں مسٹر گلانسی کی بھی رائے لی جائے‘‘۔ فریدوں جنگ نے مسٹر گلانسی کی رائے وصول ہونے پر ایک عرضداشت مورخہ 17 جون 1915 ء میں گلانسی کی رائے کے ساتھ اپنی رائے درج کرتے ہوئے اسے آصف سابع کے ملاحظے کیلئے روانہ کیا۔ اس عرضداشت میں فریدوں جنگ نے لکھا کہ مسٹر گلانسی نے رائے دی ہے کہ بیرون ریاست کسی ادارے کیلئے چندہ بھیجنے کی بجائے خود اندرون ریاست ، حیدرآبادیوں کیلئے مقامی طور پر گوکھلے میموریل اسکالرشپ کے نام سے ایک وظیفہ تعلیمی قائم کرنا بہتر ہوگا ۔ اس وظیفے کے شرائط اسکالر شپ کمیٹی طئے کرے گی اور ان شرائط کی نسبت آصف سابع کی منظوری حاصل کی جائے گی ۔ فریدوں جنگ نے عرضداشت میں مسٹر گلانسی کی رائے درج کرنے کے بعد لکھا ’’انہیں مسٹر گلانسی کی رائے سے کامل اتفاق ہے ، اس سے مسٹر گوکھلے کی یادگار بھی قائم ہوجائے گی اور اس سے ہمارے ہی ملک کے نوجوان مستفید ہوں گے‘‘۔ فریدوں جنگ نے مسٹر گلانسی کی رائے خود اپنی رائے کے ساتھ درج کرتے ہوئے لکھا کہ اگر آصف سابع ان آراء کو منظوری عطا فرماتے ہیں تو وہ وظیفے سے متعلق شرائط بغرض منظوری پیش کرنے کے لئے سر رشتہ فینانس کو لکھیں گے اور جہانگیر بہمن جی کو اطلاع دی جائے گی کہ باہر کی کسی یادگار میں چندہ دینے کے عوض آصف سابع نے خاص طور پر حیدرآباد ہی میں گوکھلے میموریل اسکالرشپ  قائم کرنے کو پسند فرمایا ہے۔ لہذا افسوس ہے کہ ان کی استدعا کے بموجب چندہ بھیجنا ممکن نہیں ہے ۔ آصف سابع نے عرضداشت میں پیش کردہ متفقہ رائے کو منظوری عطا کی ۔ عرضداشت پیش ہونے کے دوسرے ہی روز حسب ذیل فرمان صادر ہوا۔
’’سرفریدوں جنگ بہادر اور مسٹر گلانسی کی متفقہ رائے مناسب ہے کہ باہر کی کسی یادگار میں چندہ دینے کے عوض خاص طور پر حیدرآباد میں ہی گوکھلے میموریل اسکالرشپ کے نام سے ایک وظیفہ تعلیمی قائم کرنا بہتر ہوگا۔ اس کی اطلاع مسٹر جہانگیر بہمن جی کو دے کر لکھا جائے کہ مذکورہ وجہ سے ان کی استدعا کے بموجب چندہ کا دیا جانا متعذر ہے ‘‘۔

مذکورہ بالا فرمان کے ذریعہ وظیفے کے قیام کی منظوری مل چکی تھی مگر اس وظیفے کے اجراء کیلئے ضروری شرائط کا طئے کیاجانا باقی تھا چنانچہ اس سلسلہ میں کمیٹی عطائے وظائف تعلیمی کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں اس وظیفہ کے اجراء کے سلسلے میں چند تجاویز پیش ہوئیں۔ یہ تجاویز آصف سابع کی منظوری حاصل کرنے کی غرض سے صیغہ فینانس کے حوالے کی گئیں۔ صیغہ  فینانس نے ایک عرضداشت مورخہ 28 جولائی 1915 ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی جس میں لکھا گیا کہ بذریعہ فرمان حیدرآباد میں گوکھلے میموریل اسکالرشپ کے نام سے ایک وظیفہ قائم کرنے کی منظوری دی جاچکی ہے اور اس بارے میں کمیٹی عطائے وظائف تعلیمی نے بالاتفاق حسب ذیل تجاویز طئے کی ہیں۔
.1  گوکھلے اسکالرشپ ان طلبہ کے منجملہ (جنہوں نے نہایت قابل اطمینان ہائی اسکول لیونگ سرٹیفکٹس حاصل کئے ہوں) بہترین طالب علم کو دیا جائے گا۔
.2 وظیفہ مذکور کمیٹی عطائے وظائف تعلیمی ، ہائی اسکول لیونگ بورڈ کی رپورٹ وصول ہونے پر عطا کرے گی۔
.3 وظیفہ مذکور ہر سال نظام کالج میں تعلیم پانے کیلئے دیا جائے گا اور اس کی مدت اجرائی چار سال ہوگی جو خاص صورتوں میں پانچ سال تک بڑھائی جاسکتی ہے۔

.4 اس وظیفہ تعلیمی کی مقدار 30 روپئے عثمانیہ ماہانہ ہوگی۔
.5  ہر وظیفہ یاب کو گوکھلے پرائز کے نام سے ایک سو (100) روپئے کی کتابیں (جن کا انتخاب پرنسپل نظام کالج کریں گے) دی جائیں گی ۔ ان تجاویز کو درج کرنے کے بعد عرضداشت کے آخر میں لکھا گیا کہ اگر آصف سابع ان تجاویز کو منظوری عطا فرمائیں تو سال حال بھی ایک وظیفے کا اجراء عمل میں آئے گا ۔ آصف سابع نے فوری ان تجاویز کو منظوری دے دی اور جس تار یخ کو عرضداشت پیش کی گئی تھی اسی تاریخ کو حسب ذیل فرمان صادر ہوا۔
’’گوکھلے میموریل اسکالرشپ کی نسبت کمیٹی وظائف تعلیمی کی تجاویز، معین المہام فینانس کی رائے کے مطابق منظور کئے جاتے ہیں۔ حسبہ، اس سال بھی ایک وظیفہ تعلیمی دیا جائے‘‘۔
حیدرآباد میں گوکھلے میموریل اسکالرشپ کے نام سے ایک تعلیمی وظیفہ قائم کئے جانے کے باوجود بمبئی کی گوکھلے میموریل فنڈ کمیٹی نے گوکھلے میموریل کیلئے چندہ دینے کیلئے مزید درخواست روانہ کی جس کے بارے میں پولیٹیکل ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایک عرضداشت مورخہ 15 اگست 1915 ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ حیدرآباد میں یادگار قائم ہوجانے کے بعد بمبئی میں گوکھلے کی یادگار قائم کرنے کیلئے چندہ دینا حکومت حیدرآباد کیلئے ضروری نہیں ہے۔ آصف سابع نے عرضداشت میں پیش کردہ رائے سے اختلاف نہیں کیا لیکن اپنی جانب سے چندہ دینا طئے کیا ۔اس بارے میں بلا کسی تاخیر یعنی 15 اگست 1915 ء کو آصف سابع کا جو فرمان صادر ہوا تھا اس کا متن  ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔

اس کارروائی کے بارے میں جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سابق ریاست حیدرآباد میں تعلیم کے میدان میں اس زمانے کا یہ سب سے اہم اعزاز تھا کیونکہ اس وقت تک ریاست میں جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا ۔ یہ اہم اعزاز یا بڑا تعلیمی وظیفہ ریاست کے کسی فرد یا چونکہ حکمراں ریاست کا مذہب اسلام تھا اس لئے کسی بڑی مسلم شخصیت کے نام موسوم نہیں کیا گیا، حالانکہ ریاست حیدرآباد میں باکمال شخصیتوں کی کمی نہیں تھی ۔ آصف سابع چاہتے تو اپنے نام سے ہی یہ اعزاز ووظیفہ جاری کرسکتے تھے لیکن گوکھلے کا کم عمری میں اوج کمال کو پہنچنا ، ان کی قومی و عوامی خدمات میں تعلیمی خدمات کا نمایاں حصہ اور ان کا تعلیم کی ترقی اور اشاعت پر توجہ مرکوز کرنا ، ایک غیر ریاست میں ان کے نام سے سب سے اہم تعلیمی اعزاز ، وظیفہ قائم کئے جانے کا سبب و محرک بنا۔ ریاست حیدرآباد میں یہ وظیفہ برسوں تک دیا جاتا رہا اور گوپال کرشن گوکھلے کی شخصیت کو خراج ادا کرنے کے ساتھ ہی ساتھ سابق ریاست حیدرآباد کے حکمراں اور نظم و نسق کی اعلیٰ ظرفی کی بھی یاد تازہ کرتا رہا۔