ریاست حیدرآباد میں عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کا تاریخ ساز اقدام

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
مرزا فرحت اللہ بیگ کی تصنیف ’’میری داستان‘‘ سے اخذ کردہ مواد کی بنیادپر یہ مضمون قلم بندکیا گیاہے ۔ اس مضمون کے آغاز پر عدالتی اختیارات کو انتظامی (عاملہ) عہدوں سے علاحدہ کرنے سے متعلق ریاست حیدرآباد کی اسکیم کے بارے میں چند سطریں لکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ اس اسکیم کو نافذ کرنا اپنی طرز کا بہترین اقدام تھا ۔ یہ اسکیم دیگر ریاستوں حتی کہ برطانوی ہند کے علاقوں میں بھی لائق تقلید سمجھی گئی ۔ اس اسکیم کے نفاذ سے قبل ریاست حیدرآباد میں ایک تحریک میں اور اس سلسلے میں ریاست کے آخری حکمراں میر عثمان علی خان آصف سابع کا فرمان مورخہ 29 شعبان 1339ھ م 8 مئی 1921 ء جاری ہونے کے بعد سرکاری سطح پر یہ کارروائی پایۂ تکمیل کو پہنچی ۔ اس اسکیم کے نفاذ کے موقع پر یہ خیال کیا جارہا تھا کہ یہ اسکیم بہتر طور پر کام نہیں کرسکے گی لیکن جلد ہی یہ ثابت ہوگیا کہ یہ تمام خدشات بے بنیاد تھے ۔ اس اسکیم کے نفاذ ہونے کے بعد مرزا یار جنگ چیف جسٹس اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے ریاست کے علاقوں کا دورہ کیا اور عدالت کے عہدیداروں سے اس نئی اسکیم کے بارے میں گفتگو کی ۔ چیف جسٹس نے ان دوروں کے بعد لکھا کہ محکمۂ مال کے عہدیداروں کے تعاون اور عہدیداران عدالت کی معاملہ فہمی کی وجہ سے وہ یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اسکیم ان کی توقعات سے زیادہ کامیاب رہی ۔ اسکیم کے نافذ ہونے سے عدالتوں کی کارکردگی میں قابل لحاظ اضافہ ہوا ۔ عدالتوں میں مقدمات کثرت سے دائر ہونے لگے اور مقدمات کے فیصلے سابق کے مقابلے میں تیزی سے صادر کئے جانے لگے جس کی وجہ سے عوام کی مشکلات دور ہوئیں اور ان کی نظر میں عدالت کا مقام بلند ہوا ۔

مرزا فرحت اللہ اپنی تصنیف ’’میری داستان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جن دنوں وہ میدک کے سیشن جج تھے تو انھیں اس بات کا علم ہوا کہ پنجاب کے چیف جسٹس مسٹر ینگ (Mr.Young) اپنے صوبے میں رشوت ستانی کو روکنے کی بہت کوشش کررہے ہیں اور انھیں اس سلسلے میں بہت کچھ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ۔ یہ سن کر انھیں خیال آیا کہ وہاں جا کر دیکھنا چاہئے کہ ینگ اس بارے میں کن اصولوں پر کاربند ہیں اور اس خرابی کو دور کرنے میں انھیں کس حد تک کامیابی ہوئی ہے ۔ چنانچہ وہ رخصت لے کر لاہور گئے ۔ چیف جسٹس ینگ سے ملاقات کا دن مقرر ہوا ۔ ینگ ان سے اچھی طرح ملے اور سب سے پہلے عدالتی اختیارات کو انتظامی عہدوں سے علاحدہ کرنے کی ریاست حیدرآباد کی اسکیم سے متعلق بحث چھیڑی اور دریافت کیا کہ کب یہ اسکیم مسدود کی جائے گی ۔ فرحت اللہ بیگ نے جواب دیا ’’اس اسکیم کے مسدود ہونے کی تومجھے کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی جب اس کی وجہ سے عدالتی کام بدرجہا بہتر طریقے سے چل رہا ہے‘‘ ۔

ینگ نے کہا ’’تم یہ کیا کہتے ہو ؟ میں خود پنجاب میں یہ طریقہ رائج کرنا چاہتا تھا مگر گورنمنٹ (حکومت برطانوی ہند) نے یہ ظاہر کرکے کہ حیدرآباد میں یہ اسکیم بالکل ناکام رہی ہے میری تحریک کو ختم کردیا‘‘ ۔ فرحت اللہ بیگ نے کہا کہ ممکن ہے کہ حکومت برطانوی ہند کسی خاص وجہ سے عدالتی اختیارات انتظامی عہدیداروں کے قبضے میں رکھنا چاہتی ہو ۔ اس لئے وہ اس اسکیم کو نافذ نہ کرے لیکن اس کے یہ معنی تو نہیں کہ وہ اس کی خوبیوں پر بلااظہار حقیقت پردہ ڈالے اور جو اسکیم حیدرآباد میں نہایت کامیابی سے چل رہی ہو اس کے متعلق یہ لکھ دے کہ وہ حیدرآباد میں ناکام ہوگئی ۔ اس کے بعد فرحت اللہ بیگ نے اسکیم کی خوبیوں اور اس کی کامیابی کا سرسری طور پر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی عہدیدار ہمیشہ مستقر پر رہتے ہیں اس لئے ان کو کام کرنے کا زیادہ موقع ملتا ہے کیونکہ یہ بالکل ہائی کورٹ کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اس لئے کام کرنے میں ان کو احتیاط کرنی پڑتی ہے ۔ کیونکہ ایک ہی قسم کا کام ان کے ذمے ہوتا ہے اس لئے کام کا معیار بھی بلند ہوتا ہے ۔ چونکہ انسپکٹنگ آفیسر کے ذریعے سے ان پر ہر وقت نگرانی رہتی ہے اس لئے کام کی بروقت انجام دہی سے پہلو تہی بھی نہیں کرسکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے مقدمات اس اطمینان کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ ان کے جلد اور بلا رعایت تصفیے ہوں گے ۔ محکمہ عدالت کے تختہ جات سے تصدیق ہوتی ہے کہ عدالت کی آمدنی بڑھ گئی ہے ۔ مرجوعہ (عدالت سے رجوع ہونے والوں یا مقدمہ دائر کرنے والوں کی تعداد) بڑھ گیا ہے اور تصفیہ شدہ مقدموں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے اور دوران مقدمہ حل سے زیادہ کم ہوگیا ہے ۔ یہ سن کر ینگ نے فرحت اللہ بیگ سے کہا کہ حکومت جا کر چند سال کے تختہ جات بھیجنا ۔ وہ ان کو دیکھ کر اطمینان کرنے کے بعد پھر تحریک کریں گے ۔ اس کے بعد مرزا صاحب نے دریافت کیا کہ ان کے ہاں رشوت ستانی کے انسداد کے متعلق کیا اصول مقرر کئے گئے ہیں ۔ اس کے جواب میں ینگ نے کہا کہ جب کسی عہدیدار سے متعلق حد سے زیادہ شکایتیں آنے لگتی ہیں تو پہلے اس کو معطل کردیا جاتا ہے اور بعد ازاں تحقیقات پر اس کو خدمت سے علاحدہ کردیا جاتا ہے ۔

اس پر فرحت اللہ بیگ نے کہا کہ اس طریقے سے تو ممکن ہے کہ بعض دیانت دار عہدیدار بھی چکر میں آسکتے ہیں ۔ جھوٹی درخواستوں کا آج کل وہ زور ہے کہ ان پر کارروائی کرنا اپنے عہدیدار کو بدنام کرنا ہے ۔ اگر اہل غرض لوگ یہ سمجھ جائیں کہ کسی بھی عہدیدار کے خلاف کئی سو شکایتی درخواستیں داخل کرنے پر وہ فوراً معطل ہوسکتا ہے تو پھر عہدیداروں کا خدا ہی حافظ ہے ۔ یہ سن کر ینگ نے سوال کیا کہ ریاست حیدرآباد میں کیا ہوتا ہے ؟ فرحت اللہ بیگ نے کہا کہ وہ متذکرہ بالا تختہ جات کے ساتھ وہ سرکیولر بھی روانہ کریں گے جو رشوت ستانی کے انسداد کے لئے ریاست حیدرآباد کے ہائی کورٹ نے جاری کیا ہے ۔ اس کے ساتھ مرزا صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حیدرآباد آکر وہ یہ دیکھیں کہ وہاں عدالتی کام کیسا چل رہا ہے اور اگر وہ واقعی حیدرآباد آنا چاہتے ہیں تو حیدرآباد جاتے ہی مرزا صاحب گورنمنٹ کو ان کے ارادے کی اطلاع دیں گے ۔ مرزا صاحب نے حیدرآباد آنے کے بعد اکبر حیدری سے اس کا ذکر کیا ۔ اس پر اکبر حیدری نے جسٹس ینگ کو لکھاکہ وہ جب چاہیں بخوشی حیدرآباد بحیثیت مہمان تشریف لاسکتے ہیں ۔ مرزا صاحب نے لاہور سے واپس آنے کے بعد محکمہ عدالت کے تختہ جات اور وہ سرکیولر جو اصلاح عدالت سے متعلق وقتاً فوقتاً جاری ہوئے تھے جسٹس ینگ کو بھیج دیئے ۔ینگ نے ان کاغذات کے مطالعے کے بعد مرزا صاحب کو لکھا کہ تمہارا کہنا بالکل صحیح تھا کہ حیدرآباد میں عدالتی اختیارات کو انتظامی عہدوں سے علاحدہ کرنے کی اسکیم کامیاب رہی ہے ۔ تختہ جات سے اس کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے ۔ ینگ نے مزید لکھا کہ جو گشتیاں روانہ کی گئی ہیں ان میں سے اکثر انھیں بہت پسند آئیں اور ان کو وہ پنجاب میں نافذ کررہے ہیں ۔

جب مرزا فرحت اللہ بیگ انسپکٹنگ آفیسر کے عہدے پر فائز تھے جسٹس ینگ حیدرآباد آئے ۔ مرزا صاحب نے ان سے ملاقات کے دوران یہاں کے حالات بیان کئے اور کاغذات سے اپنے بیانات کی تصدیق کروائی ۔ اس پر مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ جسٹس ینگ کو تسلیم کرنا پڑا کہ ہندوستان میں اس اسکیم کا نافذ ہونا ضروری اور لازمی ہے ۔ چنانچہ اکبر حیدری کی جانب سے دیئے گئے ڈنر میں انھوں نے اپنی اس رائے کااظہار کیا ۔ جناب سید عبدالعزیز صدرالمہام (وزیر عدالت) نے ان سے کہا کہ وہ برطانوی ہند کے علاقے کے رہنے والے ہیں اور انھیں یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ حیدرآباد کا عدالتی کام وہاں سے بدرجہا بہتر ہے تو جسٹس ینگ نے کہا کہ جس طریقے پر یہاں کام چل رہا ہے اس لحاظ سے آپ کی رائے بالکل صحیح ہے ۔ سید عبدالعزیز نے کوشش کی کہ جسٹس ینگ ان کے ہمراہ دورے پر چل کر عملی طور پر یہاں کے کام کی تنقیح کریں مگر توہ وقت کی کمی کے باعث دورے پر نہ جاسکے اور لاہور واپس ہوگئے۔ آخر میں مرزا فرحت اللہ بیگ لکھتے ہیں کہ اس کے چند روز بعد ہی وکلاء کا جو سالانہ جلسہ امرتسر میں ہوا اس میں جسٹس ینگ نے حیدرآباد کے عدالتی کام کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ عدالتی اختیارات کو انتظامی عہدوں سے علاحدہ کرنے ریاست حیدرآباد کی اسکیم پنجاب میں نافذ کروانے کی پوری کوشش کریں گے ۔
(اس اسکیم کی تیاری اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں سرکاری سطح پر جو کارروائی ہوئی تھی آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز ریکارڈ سے حاصل کردہ مواد کی بنیاد پر لکھا گیا مضمون راقم الحروف کی کتاب ’’اوراق مورخ حیدرآباد دور عثمانی میں‘‘ میں شامل ہے ۔