روڈا مستری

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
پاکستان کے ممتاز شاعر منیرؔ نیازی کی ایک نہایت خوبصورت نظم ہے جس کے ہر بند کے بعد ا یک مصرع آتا ہے : ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں‘‘۔ روڈا مستری کے بارے میں آج کچھ لکھنے بیٹھے تو ہمیں منیرؔ نیازی کی نظم کا یہ بند یاد آگیا ۔ جون کے پہلے ہفتے میں سعودی عرب روانہ ہونے سے دو دن پہلے ہم نے نسیمہ تراب الحسن سے روڈا مستری کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ حالت کچھ اچھی نہیں ہے ۔ بے حد نحیف ونزار اور کمزور ہوگئی ہیں۔ آپ دیکھیں گے تو پہچان نہیں پائیں گے۔ روڈا مستری کے اس حال کو جاننے کے بعد ہم میں اتنی ہمت پیدا نہ ہوئی کہ ہم جا کر ان کی مزاج پرسی کرلیتے ۔ جس پارہ صفت ہستی کو ہمیشہ بے حد فعّال ، سرگرم ، مستعد ، متحرک اور چاق و چوبند دیکھا تھا اسے اس حالت میں کیسے دیکھ لیتے ۔ لہذا چپ چاپ سعودی عرب چلے گئے ۔ آٹھ دس دن بعد مکہ مکرمہ میں عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی ۔ دو ڈھائی گھنٹوں تک ہمیں پوری یکسوئی کے ساتھ خانہ کعبہ میں ایک ایسی جگہ بیٹھنے کا موقع ملا جہاں سکون ہی سکون تھا ۔ ہمارا سارا ماضی خود ہماری آنکھوں کے آگے گھوم گیا ۔ وہ سارے احباب اور وہ شخصیتیں یاد آئیں جن کے ساتھ ہم نے زندگی کے پہاڑ جیسے برس گزارے تھے ۔ کئی احباب کے لئے گڑگڑاکر دعائیں مانگیں ۔ روڈا مستری کا خیال آیا تو ہم نے پورے صدق دل کے ساتھ ان کی صحت یابی کیلئے دعا مانگی اور یہ التجا بھی کی کہ پروردگار ان کی مشکل آسان کردے ۔ سعودی عرب میں دو ہفتے گزارکر واپس حیدرآباد آئے تو ہمیں ایک تقریب  میں شرکت کی خاطر فوراً  دہلی جانا پڑ گیا ۔ دہلی کی مصروفیات میں اُلجھے تو کچھ ایسے الجھے کہ ’سیاست‘ کا وہ شمارہ ، جس میں روڈا مستری کے انتقال کی خبر چھپی تھی ، وہ ان کے انتقال کے پورے چار پانچ دن بعد ہماری نظر سے گزرا۔ اپنی بے خبری اور بے سر و سامانی پر کف افسوس ملتے رہے ۔ اس وقت تک ہم اپنے کالم کیلئے اپنے سفر نامے کی ایک قسط روانہ کرچکے تھے ۔ یوں روڈا مستری کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے معاملے میں ہم سے دیر ہوتی چلی گئی ۔ اگرچہ پچھلے چند برسوں سے روڈا مستری نے سماجی اور سیاسی سرگرمیوں سے دوری اختیار کر رکھی تھی لیکن وہ ایسی ہستی تو نہیں تھیں کہ ادھر ان کی آنکھیں بند ہوجا ئیں اور اُدھر زمانہ بھی ان کے تعلق سے اپنی آنکھیں بند کرلے ۔ جس دن ان کے انتقال کا ہمیں علم ہوا اسی شام کو ہمارا گزر دہلی میں اشوکا روڈ کی اُس کوٹھی کے سامنے سے ہوا جہاں پچیس برس پہلے روڈا مستری بحیثیت رکن پارلیمنٹ رہا کرتی تھیں۔ اس کوٹھی کو ہم ’منی حیدرآباد‘ کہا کرتے تھے۔
روڈا مستری کو ہم نے لگ بھگ نصف صدی پہلے اس وقت دیکھا تھا جب وہ آئی سی ایس ڈبلیو (انڈین کونسل فار سوشیل ورک) کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتی تھیں۔ نواب مہدی نواز جنگ کونسل کے سرپرست تھے ۔ ارجمند وہاب الدین ، رائے جانکی پرشاد اور حیدرآباد کی بعض ممتاز ہستیاں اس کونسل سے وابستہ تھیں۔ ہمیں اب یاد نہیں کہ کونسل فار سوشیل ورک میں وہ کس عہدے پر فائز تھیں لیکن ہمیں تو وہ مجسم کونسل یا یوں کہئیے کہ سالم کونسل ہی نظر آتی تھیں ۔ ہمیشہ متحرک اور مصروف عمل ۔ ہم سے ان کے ابتدائی ربط اور تعلق کی نوعیت یہ تھی کہ ہم انتخاب پریس کے مینجر تھے اور آئی سی ایس ڈبلیو کی طباعت کا کام ہمارے پریس میں ہوتا تھا ۔ یوں تو سال بھر ہی کونسل کا کوئی نہ کوئی کام پریس میں چلتا رہتا تھا لیکن جب کونسل کی سالانہ کانفرنس منعقد ہوتی تھی تو اس کی ضخیم رپورٹ کی طباعت کے سلسلے میں روڈا مستری تقریباً روز ہی پریس آجایا کرتی تھیں اور ان کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا تھا ۔ احمد رضا قادری مرحوم ان کے آنے کو ’’نازل ہونے‘‘ سے تعبیر کرتے تھے ۔ وہ اپنی جیپ خود ہی چلاتی ہوئی آیا کرتی تھیں۔ جس طرح وہ خود منفرد خاتون تھیں اسی طرح ان کی جیپ کی آواز ، اس کا اسلوب ، اس کا آہنگ اور اس کا لب و لہجہ منفرد اور مختلف ہوا کرتا تھا ۔ابھی ان کی جیپ گلی کے نکڑ پر ہی ہوتی تھی کہ ہمیں پتہ چل جاتا تھا کہ روڈا مستری اور ان کی جیپ دونوں ساتھ ساتھ آرہے ہیں۔

بہت پہلے سے اُن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
وہ آندھی کی طرح آتیں توپریس میں ہلچل سی مچ جاتی تھی ۔ وہ بے حد نفاست پسند تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ پریس کے کاروبار میں اور وہ بھی نصف صدی پہلے کے پریسوں میں گندگی کو لازمی مضمون کی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی ۔ سیاہی کے دھبے ، مشینوں سے گرنے والے میل کے دھبّے ، کاغذوں کے پرزے سب کچھ آسانی سے دکھائی دیتے تھے ۔ وہ اکثر سیدھے پریس میں چلی جاتی تھیں اور کمپیوزیٹروں اور مشین مین کو راست طور پر ہدایات دیا کرتی تھیں۔ پروفس میں کمپوزنگ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتی جاتی تھیں اوران غلطیوں کا اصل سبب اس گندگی کو بتاتی تھیں جو عموماً پریسوں میں پائی جاتی ہے۔ ہم سے اکثر فرماتی تھیں’’مجتبیٰ میاں ! اپنے پریس کو صاف ستھرا رکھو تو کمپوزنگ کی اتنی غلطیاں نہیں ہوں گی ۔ صاف ستھرا ماحول ، صاف ستھرے کام کا ضامن ہوتا ہے ‘‘۔ حالانکہ ہمارا پریس دیگر پریسوں کے مقابلے میں خاصا صاف ستھرا اور پاک و صاف رکھا جاتا تھا ۔ ہم نے ایک بار انہیں مودبانہ انداز  میں سمجھانے کی کوشش کی کہ اگرچہ طباعت کے ذریعہ علم کی روشنی پھیلتی ہے اور یہ بڑاشریفانہ پیشہ ہے لیکن اس دھندے میں گندگی سے مفر نہیں، جس طرح کنول کیچڑ میں کھلتا ہے اسی طرح علم کی روشنی بھی گندگی کے اندھیرے سے پیدا ہوتی ہے ‘‘۔
ہنس کے بولیں ’’اپنی کوتاہی کو چھپانے کیلئے بیچارے کنول کی آڑ کیوں لیتے ہو؟‘‘

جب تک آئی سی ایس ڈبلیو کی رپورٹ کی طباعت کا کام پریس میں چلتا رہتا ہم نہ صرف پریس کو حتی الامکان صاف ستھرا رکھوانے کی کوشش کرتے تھے بلکہ خود بھی نک سک سے ٹھیک ٹھاک رہنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اسے آپ روڈا مستری کی ذات کا فیض ہی کہہ سکتے ہیں۔ روڈا مستری خاصی حسین وجمیل خاتون تھیں ۔ اُن کے حسن کو تجزیے کے ذریعہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا کہ آنکھیں ایسی تھیں ، پیشانی ایسی تھی ، بال ایسے تھے ، ابرو کا یہ عالم تھا وغیرہ۔ کیونکہ وہ بحیثیت مجموعی حسن و جمال کا ایک دلفریب پیکر تھیں۔ بناؤ سنگھار سے انہیں کوئی خاص رغبت نہیں تھی ۔ زیورات بھی کم سے کم استعمال کرتی تھیں (ہم تو انہیں حیدرآبادی تہذیب کا ایک انمول زیور تصور کرتے تھے) ۔ زرق برق اور بھڑکیلے لباس سے بھی اجتناب برتتی تھیں۔ غرض ان میں ایک ایسی سادگی تھی جو ان کی شخیصت کو اور بھی دلآویز ، باوقار اور معتبر بنادیتی تھی ۔ کسی زمانے میں کثرت سے سگریٹ پیا کرتی تھیں مگر بعد میں سگریٹ نوشی یکسر ترک کردی تھی ۔ انہیں سماجی کاموں سے گہری دلچسپی تھی ۔ 1960 ء کی دہائی میں حیدرآبادی خواتین اور وہ بھی مسلم خواتین میں جو غربت دکھائی دیتی تھی اسے دور کر نے کیلئے آئی سی ایس ڈبلیو کی طرف سے روزگار فراہم کرنے کی مختلف اسکیمیں چلائی گئیں ، جن میں روڈا مستری ہمیشہ پیش پیش رہتی تھیں۔ کئی دفتروں اور دواخانوں میں آئی سی ایس ڈبلیو کینٹین چلایا کرتی تھی ۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ خواتین اپنے پیروں پر آپ کھڑی ہوجائیں۔ بعد میں وہ عملی سیاست سے بھی وابستہ ر ہیں اور ریاست کی وزیراطلاعات اور وزیر سیاحت بھی بنیں۔ 1980 ء میں وہ راجیہ سبھا کی رکن بن کر دہلی آئیں۔ اس عرصہ میں رحمت علی بھی رکن پارلیمنٹ بن کر دہلی آگئے ۔ یوں چھ برس تک دہلی میں روڈامستری کے گھر کو حیدرآباد کے سفارت گھر کی حیثیت حاصل رہی ۔ آئے دن یہاں محفلیں منعقد ہوتیں ، دعوتیں ہوتیں، حیدرآباد کے فنکاروں کو بلایا جاتا ۔ ان محفلوں اور لوگوں میں ہم ہمیشہ مدعو رہتے تھے ۔ روڈا مستری نہایت خوش اسلوبی سے ان دعوتوں کا اہتمام کرتی تھیں اور کوشش یہ کرتی تھیں کہ دعوت کے ہر پہلو سے حیدرآبادی تہذیب و روایت اجاگر ہو ۔ اگرچہ آج دہلی میں حیدرآبادی کھانے بے حد مقبول ہوگئے ہیں لیکن آج سے پچیس برس پہلے دہلی میں حیدرآبادی کھانوں کو مقبول بنانے میں صرف اور صرف روڈا مستری کا ہاتھ رہا ہے ۔ اُن کے ہاں ملازم بھی ایسے تھے جو حیدرآبادی پکوان اور حیدرآبادی رکھ رکھاؤ سے بخوبی واقف تھے ۔ ا یک خادمہ (اب نام یاد نہیں رہا ) ان کی بہت چہیتی تھیں۔ اُس پر پورا بھروسہ کرتی تھیں۔ گھر کی ہر چیز خادمہ کے قبضے میں ہوتی تھی لیکن کام میں کبھی کوئی اونچ نیچ ہوجاتی تو روڈا مستری اُس پر برسنا شروع کردیتی تھیں ۔ ہر کوئی اُن کی اس کیفیت سے خوفزدہ ہوجاتا تھا لیکن ہم دل ہی دل میں اس کیفیت سے لطف اندوز ہوتے تھے کہ روڈا مستری کا غصہ سمندر کے جھاگ کی طرح ہوتا تھا ۔ وہ بنیادی طور پر ایک نرم دل خاتون تھیں۔ اُن کی دعوتوں میں کئی نامی گرامی اور مقتدر ہستیاں شریک ہوا کرتی تھیں جو بعد میں دہلی کی محفلوں میں حیدرآبادی کھانوں اور حیدرآبادی تہذیب کے گن گایا کرتی تھیں۔ رحمت علی صاحب بھی ان دعوتوں میں اکثر شریک رہا کرتے تھے اور ان کا مخصوص پاندان بھی ان کے ساتھ رہتا تھا ۔ لوگ فرمائش کر کر کے ان سے حیدرآبادی پان کھاتے تھے۔ خوشونت سنگھ رحمت علی صاحب کے پان کے بڑے رسیا تھے اور پارلیمنٹ میں بیٹھے بیٹھے بھی اردلی کے ذریعہ رحمت علی صاحب سے پان بھیجنے کی فرمائش کرتے تھے ۔ ہم اکثر مذاق مذاق میں ر وڈا مستری سے کہا کرتے تھے کہ ’’وہ رحمت علی صاحب کو اپنی دعوتوں میں نہ بلایا کریں کیونکہ اُن کے حیدرآبادی پان آپ کے حیدرآبادی پکوان پر غالب آجاتے ہیں بلکہ بعض دعوتی تو آخر میں صرف پان کھانے کی چاٹ میں پکوان بھی کھالیتے ہیں‘‘۔ ہماری باتوں پر وہ دل کھول کر ہنسنا بھی جانتی تھیں۔

روڈا مستری حیدرآبادی کلچر کی بہترین روایات کی امین تھیں اوران روایات کو آگے بڑھانے کیلئے سوسو جتن کرتی تھیں ۔ وہ ہمیں بہت عزیز رکھتی تھیں اور کبھی ملاقات میں لمبا وقفہ آجائے تو حسب معمولی برہم ہوجاتی تھیں۔ ان کا برہم ہونا بھی ہمیں بہت اچھا لگتا تھا ۔ وہ ایک صاف دل ، صاف گو ، بے ریا اور ہمدرد خاتون تھیں ۔ انہوں نے ہزاروں کی مدد کی اور ان کا مستقبل بنایا ۔ ہمارے دوستوں کے کئی کام ان کے ایک اشارے پر ہوگئے ۔ اگرچہ وہ عملی سیاست سے وابستہ ہوگئی تھیں لیکن وہ عام سیاست دانوں کی مصلحت پسند یوں اور ان کی خود غرضیوں کو نہ تو اپناسکیں اور نہ ہی انہیں برداشت کیا۔ بسا اوقات وہ اپنی بات کہنے میں بہت  بلند بانگ ہوجاتی تھیں اور کسی لاگ لپیٹ کو درمیان میں آنے نہ دیتی تھیں ۔ نتیجے میں سچ بات کہنے کے نقصانات بھی برداشت کرلیتی تھیں۔ حضرت نظام الدین اولیا سے انہیں گہری عقیدت تھی اور خواجہ حسن ثانی نظامی جب بھی نظام الدین اولیاء کے عرس کی تقاریب منعقد کرتے تھے توان میں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ شرکت کرتی تھیں۔ مسز اندرا گاندھی سے بھی وہ بہت قریب تھیں بلکہ ان کے روز مرہ کے معمولات میں روڈا مستری کے مشورے بھی شامل رہتے تھے ۔ بعد میں عملی سیاست میں کچھ ایسی تبدیلیاں آگئیں کہ روڈا مستری عملی سیاست سے دور ہوتی چلی گئیں۔ یوں بھی ان کا میدان عمل سیاست نہیں بلکہ سماجی خدمت تھا ۔ اردو زبان اور اردو کلچر سے انہیں بے پناہ پیار تھا ۔ بہت اچھی اردو بولتی تھیں بلکہ جب وہ اردو بولتی تھیں تو کم از کم ہمیں تو اردو کا مستقبل خاصا تابناک نظر آتا تھا ۔ افسوس کہ حیدرآباد اپنی تہذیب کی ا یک روشن علامت سے محروم ہوگیا ۔ غالب کا ایک خوبصورت شعر ہے جسے ہم لوگ ہر کس و ناکس کے اس دنیا سے گزرجانے کے موقع پر بے دریغ استعمال کرتے رہتے ہیں مگر ہمارا خیال ہے کہ  غالب ؔ نے یہ خوبصورت شعر روڈا مستری ہی جیسی کسی ہستی کے گزرجانے پر کہا ہوگا ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
(اگست 2004 ء)