روڈا مستری دسویں برسی پر بطور خراج عقیدت

میرا کالم مجتبیٰ حسین
پاکستان کے ممتاز شاعر منیرؔ نیازی کی ایک نہایت خوبصورت نظم ہے جس کے ہر بند کے بعد ایک مصرع آتا ہے ’’ ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ‘‘ ۔ روڈ ا مستری کے بارے میں آج کچھ لکھنے بیٹھے تو ہمیں منیرؔ نیازی کی نظم کا یہ بند یاد آگیا۔ جون 2004کے پہلے ہفتے میں سعودی عرب روانہ ہونے سے دو دن پہلے ہم نے نسیمہ تراب الحسن سے روڈا مستری کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے بتایاکہ حالت کچھ اچھی نہیں ہے۔بے حد نحیف و نزار اور کمزور ہوگئی ہیں۔آپ دیکھیں گے تو پہچان نہیں پائیں گے ۔ روڈا مستری کے اس حال کو جاننے کے بعد ہم میں اتنی ہمت پیدا نہ ہوئی کہ ہم جاکر ان کی مزاج پرسی کرلیتے ۔ جس پارہ صفت ہستی کو ہمیشہ بے حد فعّال ، سرگرم ، مستعد ، متحرک اور چاق و چوبند دیکھا تھا ، اُسے اس حالت میں کیسے دیکھ لیتے ۔

لہذا چپ چاپ سعودی عرب چلے گئے ۔ آٹھ دس دن بعد مکہ مکرمہ میں عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی ۔ دو ڈھائی گھنٹوں تک ہمیں پوری یکسوئی کے ساتھ خانہ کعبہ میں ایک ایسی جگہ بیٹھنے کا موقع ملا جہاں سکون ہی سکون تھا ۔ ہمارا سارا ماضی خود ہماری آنکھوں کے آگے گھوم گیا ۔ وہ سارے احباب اور وہ شخصیتیں یاد آئیں جن کے ساتھ ہم نے زندگی کے پہاڑ جیسے برس گذارے تھے ۔ کئی احباب کے لئے گڑگڑا کر دعائیں مانگیں ۔ روڈا مستری کا خیال آیا تو ہم نے پورے صدق دل کے ساتھ ان کی صحتیابی کیلئے دعاء مانگی اور یہ التجا بھی کی کہ پروردگار ان کی مشکل آسان کردے ۔ سعودی عرب میں دو ہفتے گذار کر واپس حیدرآباد آئے تو ہمیں ایک تقریب میں شرکت کی خاطر فورا دہلی جانا پڑ گیا ۔ دہلی کی مصروفیات میں اُلجھے تو کچھ ایسے اُلجھے کہ ’’ سیاست ‘‘ کا وہ شمارہ جس میں روڈا مستری کے انتقال کی خبر چھپی تھی ، وہ اُن کے انتقال کے پورے چار پانچ دن بعد ہماری نظر سے گذری ۔ اپنی بے خبری اور بے سروسامانی پرکف افسوس ملتے رہے ۔ یوں روڈا مستری کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے معاملے میں ہم سے دیر ہوتی چلی گئی ۔ اگرچہ پچھلے چند برسوں سے روڈا مستری نے سماجی اور سیاسی سرگرمیوں سے دوری اختیار کررکھی تھی لیکن وہ ایسی ہستی تو نہیں تھیں کہ ادھر اُن کی آنکھیں بند ہوجائیں اور اُدھر زمانہ بھی اُن کے تعلق سے اپنی آنکھ بند کرلے ۔ جس دن اُن کے انتقال کاہمیں علم ہوا اُسی شام کو ہمارا گذر دہلی میں اشوکا روڈ کی اُس کوٹھی کے سامنے سے ہوا جہاں پچیس برس پہلے روڈا مستری بحیثیت رکن پارلیمنٹ رہاکرتی تھیں ۔ اس کوٹھی کو ہم ’’ منی حیدرآباد ‘‘ کہا کرتے تھے ۔

روڈا مستری کو ہم نے لگ بھگ نصف صدی پہلے اس وقت دیکھا تھا جب وہ آئی سی ایس ڈبلیو ( انڈین کونسل فار سوشیل ورک ) کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتی تھیں ۔ نواب مہدی نواز جنگ کونسل کے سرپرست تھے ۔ ارجمندؔ وہاب الدین ، رائےؔ جانکی پرشاد اور حیدرآباد کی بعض ممتاز ہستیاں اس کونسل سے وابستہ تھیں ۔ہمیں اب یاد نہیں کہ کونسل فار سوشیل ورک میں وہ کس عہدے پر فائز تھیں ۔لیکن ہمیں تو وہ مجسم کونسل یا یوں کہیے کہ سالم کونسل ہی نظر آتی تھیں ۔ ہمیشہ متحرک اور مصروف عمل ۔ ہم سے ان کے ابتدائی ربط اور تعلق کی نوعیت یہ تھی کہ ہم انتخاب پریس کے منیجر تھے اور آئی سی ایس ڈبلیو کی طباعت کا کام ہمارے پریس میں ہوتا تھا۔ یوں تو سال بھر ہی کونسل کا کوئی نہ کوئی کام پریس میں چلتا رہتا تھا لیکن جب کونسل کی سالانہ کانفرنس منعقد ہوتی تھی تو اس کی ضخیم رپورٹ کی طباعت کے سلسلے میں روڈا مستری تقریبا روز ہی پریس آجایا کرتی تھیں اور اُن کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا تھا ۔ احمد رضا قادری مرحوم اُن کے آنے کو ’’ نازل ہونے‘‘ سے تعبیر کرتے تھے ۔ وہ اپنی جیپ خود ہی چلاتی ہوئی آیا کرتی تھیں۔ جس طرح وہ خود ایک منفرد خاتون تھیں اُسی طرح اُن کی جیپ کی آواز ، اُس کا اسلوب ، اُس کا آہنگ اور اُس کا لب و لہجہ منفرد اور مختلف ہواکرتا تھا ۔ ابھی اُن کی جیپ گلی کے نکڑ پر ہی ہوتی تھی کہ ہمیں پتہ چل جاتا تھا کہ روڈا مستری اور اُن کی جیپ دونوں ساتھ ساتھ آرہے ہیں۔
بہت پہلے سے اُن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دُور سے پہچان لیتے ہیں

وہ آندھی کی طرح آتیں تو پریس میں ہلچل سی مچ جاتی تھی ۔ وہ بے حد نفاست پسند تھیں ۔ یہ اور بات ہے کہ پریس کے کاروبار میں اور وہ بھی نصف صدی پہلے کے پریسوں میں گندگی کو لازمی مضمون کی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی ۔ سیاہی کے دھبے ، مشینوں سے گرنے والے میل کے دھبے ، کاغذوں کے پرزے سب کچھ آسانی سے دکھائی دیتے تھے ۔ وہ اکثر سیدھے پریس میں چلی جاتی تھیں اور کمپوزیٹروں اور مشین مین کو راست طور پر ہدایات دیا کرتی تھیں۔ پروفس میں کمپوزنگ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتی جاتی تھیں اور ان غلطیوں کا اصل سبب اُس گندگی کو بتاتی تھیں جو عموما پریسوں میں پائی جاتی ہے ۔ ہم سے اکثر فرماتی تھیں ’’ مجتبی میاں ! اپنے پریس کو صاف ستھرا رکھو تو کمپوزنگ کی اتنی غلطیاں نہیںہوں گی ۔ صاف ستھرا ماحول ، صاف ستھرے کام کا ضامن ہوتا ہے ۔ حالانکہ ہمارا پریس دیگر پریسوں کے مقابلے میں خاصا صاف ستھرا اور پاک وصاف مانا جاتا تھا ۔ ہم نے ایک بار انہیں مودبانہ انداز میں سمجھانے کی کوشش کی کہ اگرچہ طباعت کے ذریعہ علم کی روشنی پھیلتی ہے اور یہ بڑا شریفانہ پیشہ ہے لیکن اس دھندے میں گندگی سے مفر نہیں ۔ جس طرح کنول کا پھول کیچڑ میں کھلتا ہے اسی طرح علم کی روشنی بھی گندگی کے اندھیرے سے پیدا ہوتی ہے ۔

ہنس کے بولیں ’’ اپنی کوتاہی کو چھپانے کیلئے بیچارے کنول کی آڑ کیوں لیتے ہو؟ ‘‘
جب تک آئی سی ایس ڈبلیو کی رپورٹ کی طباعت کا کام پریس میں چلتا رہتا ہم نہ صرف پریس کو حتی الامکان صاف ستھرا رکھوانے کی کوشش کرتے تھے بلکہ خود بھی نک سک سے ٹھیک ٹھاک رہنے کی کوشش کرتے تھے ۔

اسے آپ روڈا مستری کی ذات کا فیض ہی کہہ سکتے ہیں ۔ روڈا مستری خاصی حسین و جمیل خاتون تھیں ۔ اُن کے حسن کو تجزیہ کے ذریعہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا کہ آنکھیں ایسی تھیں ، پیشانی ایسی تھی ، بال ایسے تھے ، ابروکا یہ عالم تھا وغیرہ ۔ کیونکہ وہ بحیثیت مجموعی حسن و جمال کا ایک دلفریب پیکر تھیں ۔ بناو سنگھار سے اُنہیں کوئی خاص رغبت نہیں تھی ۔ زیورات بھی کم سے کم استعمال کرتی تھیں (ہم تو انہیں خود حیدرآبادی تہذیب کا ایک انمول زیور تصور کرتے تھے ) ۔ زرق برق اور بھڑکیلے لباس سے بھی اجتناب برتتی تھیں ۔ غرض ان میں ایک ایسی سادگی تھی جو اُن کی شخصیت کو اور بھی دلاویز ، باوقار اور معتبر بنادیتی تھی ۔ کسی زمانے میں کثرت سے سگریٹ پیا کرتی تھیں مگر بعد میں سگریٹ نوشی یکسر ترک کردی تھی ۔ اُنہیں سماجی کاموں سے گہری دلچسپی تھی ۔ 1960 کی دہائی میں حیدرآبادی خواتین اور وہ بھی مسلم خواتین میں جو غربت دکھائی دیتی تھی اُسے دُور کرنے کیلئے آئی سی ایس ڈبلیو کی طرف سے روزگار فراہم کرنے کی مختلف اسکیمیں چلائی گئیں جن میں روڈا مستری ہمیشہ پیش پیش رہتی تھیں ۔ کئی دفتروں اور دواخانوں میں آئی سی ایس ڈبلیو اپنے کینٹین چلایا کرتی تھی ۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ خواتین اپنے پیروں پر آپ کھڑی ہوجائیں ۔ بعد میں وہ عملی سیاست سے بھی وابستہ رہیں اور ریاست کی وزیر اطلاعات اور وزیر سیاحت بھی بنیں ۔ 1980ء میں وہ راجیہ سبھا کی رکن بن کر دہلی آئیں ۔ اس عرصے میں رحمت علی بھی رکن پارلیمنٹ بن کر دہلی آگئے۔ یوں چھ برس تک دہلی میں روڈا مستری کے گھر کو حیدرآباد کے سفارت گھر کی حیثیت سی حاصل رہی ۔ آئے دن یہاں محفلیں منعقد ہوتیں ۔ دعوتیں ہوتیں ، حیدرآباد کے فنکاروں کو بلایا جاتا ۔ ان محفلوں میں ہم ہمیشہ مدعو رہتے تھے ۔

روڈا مستری نہایت خوش اسلوبی سے ان دعوتوں کا اہتمام کرتی تھیں اور کوشش یہ کرتی تھیں کہ دعوت کے ہر پہلو سے حیدرآبادی تہذیب و روایت اُجاگر ہو ۔ اگرچہ ان دنوں دہلی میں حیدرآبادی کھانے بے حد مقبول ہوگئے ہیں ۔ لیکن آج سے پچیس برس پہلے دہلی میں حیدرآبادی کھانوں کو مقبول بنانے میں صرف اور صرف روڈا مستری کا ہاتھ رہا ہے ۔ اُن کے ہاں ملازم بھی ایسے تھے جو حیدرآبادی پکوان اور حیدرآبادی رکھ رکھاؤ سے بخوبی واقف تھے ۔ ایک خادمہ ( اب نام یاد نہیں رہا ) اُن کی بہت چہیتی تھیں ۔اُس پر پورا بھروسہ کرتی تھیں ۔گھر کی ہرچیز خادمہ کے قبضے میں ہوتی تھی ۔ لیکن کام میں کبھی کوئی اُونچ نیچ ہوجاتی تو روڈا مستری اُس پر برسنا شروع کردیتی تھیں ۔ ہر کوئی اُن کی اس کیفیت سے خوفزدہ ہوجاتا تھا، لیکن ہم دل ہی دل میں اس کیفیت سے لطف اندوز ہوتے تھے کہ روڈا مستری کا غصہ سمندر کے جھاگ کی طرح ہوتا تھا ۔ وہ بنیادی طور پرایک نرم دل خاتون تھیں ۔ اُن کی دعوتوں میںکئی نامی گرامی اور مقتدر ہستیاں شریک ہوا کرتی تھیں ۔ جو بعد میں دہلی کی محفلوں میں حیدرآبادی کھانوں اور حیدرآبادی تہذیب کے گن گایا کرتی تھیں۔رحمت علی صاحب بھی ان دعوتوں میں اکثر شریک رہاکرتے تھے اور اُن کا مخصوص پاندان بھی اُن کے ساتھ رہتا تھا ۔ لوگ فرمائش کرکر کے اُن سے حیدرآبادی پان کھاتے تھے ۔ خوشونت سنگھ ، رحمت علی صاحب کے پان کے بڑے رسیاتھے اور پارلیمنٹ میں بیٹھے بیٹھے بھی اردلی کے ذریعہ رحمت علی صاحب سے پان بھیجنے کی فرمائش کرتے تھے۔ ہم اکثر مذاق مذاق میں روڈا مستری سے کہا کرتے تھے کہ وہ رحمت علی صاحب کو اپنی دعوتوں میں نہ بلایا کریں کیونکہ اُن کے حیدرآبادی پان آپ کے حیدرآبادی پکوان پر غالب آجاتے ہیں بلکہ بعض دعوتی تو آخر میں صرف پان کھانے کی چاٹ میں پکوان بھی کھالیتے ہیں ۔ ہماری باتوں پر وہ دل کھول کر ہنسنا بھی جانتی تھیں ۔

روڈا مستری حیدرآبادی کلچر کی بہترین روایات کی امین تھیں اور ان روایات کو آگے بڑھانے کیلئے سو سو جتن کرتی تھیں ۔ وہ ہمیں بہت عزیز رکھتی تھیں اور کبھی ملاقات میں لمبا وقفہ آجائے تو حسب معمول برہم ہوجاتی تھیں ۔ ان کا برہم ہونا بھی ہمیں بہت اچھا لگتا تھا ۔ وہ ایک صاف دل ، صاف گو ، بے ریا اور ہمدرد خاتون تھیں ۔ انہوں نے ہزاروں کی مددکی اور اُن کا مستقبل بنایا ۔ہمارے دوستوں کے کئی کام اُن کے ایک اشارے پر ہوگئے ۔ اگرچہ وہ عملی سیاست سے وابستہ ہوگئی تھیں ۔ لیکن وہ عام سیاست دانوں کی مصلحت پسندیوں اور اُن کی خود غرضیوں کو نہ تو اپنا سکیں اور نہ ہی اُنہیں برداشت کیا ۔ بسااوقات وہ اپنی بات کو کہنے میں بہت بلند بانگ ہوجاتی تھیں اور کسی لاگ لپیٹ کو درمیان میں آنے نہ دیتی تھیں ۔ نتیجہ میں سچ بات کہنے کے نقصانات بھی برداشت کرلیتی تھیں ۔ حضرت نظام الدین اولیاء سے اُنہیں گہری عقیدت تھی اور خواجہ حسن ثانی نظامی جب حضرت نظام الدین اولیاء کے عرس کی تقاریب منعقد کرتے تھے تو اُن میں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ شرکت کرتی تھیں ۔

مسز اندرا گاندھی سے بھی وہ بہت قریب تھیں بلکہ اُن کے روز مرہ کے معمولات میں روڈا مستری کے مشورے بھی شامل رہتے تھے ۔ بعدمیں عملی سیاست میں کچھ ایسی تبدیلیاں آگئیں کہ روڈا مستری عملی سیاست سے دور ہوتی چلی گئیں ۔ یوں بھی ان کا میدان عملی سیاست نہیں بلکہ سماجی خدمت تھا ۔ اُردو زبان اور اُردو کلچر سے انہیں بے پناہ پیار تھا بہت اچھی اُردو بولتی تھیں بلکہ جب وہ اُردو بولتی تھیں تو کم از کم ہمیں تو اُردو کا مستقبل خاصا تابناک نظر آتا تھا۔ افسوس کہ حیدرآباد اپنی تہذیب کی ایک روشن علامت سے محروم ہوگیا ۔ غالبؔ کا ایک خوبصورت شعر ہے جسے ہم ہر کس و ناکس کے اس دنیا سے گذرجانے کے موقع پر بے دریغ استعمال کرتے رہتے ہیں مگر ہمارا خیال ہے کہ غالبؔ نے یہ خوبصورت شعر روڈا مستری ہی جیسی کسی ہستی کے گذر جانے پر کہا ہوگا ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میںکیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
( ایک پرانی تحریر)