روپے سے محبت اور اقتدار پرستی کا کھیل

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیراﷲ بیگ
تلنگانہ کے قیام کے بعد عوام الناس کو شاید یہ بات شدت سے محسوس ہورہی ہے کہ اس دن سے ڈرنا چاہیئے جب پاگل ہوش میں آئیں گے، بہرے راج سنبھالیں گے اور اندھے سزا سنائیں گے۔ اقتدار پرستی کا سارا کھیل روپیہ کی محبت سے وابستہ ہے۔ قانون ساز کونسل کے انتخابات میں حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے امیدوار سوامی گوڑ کو کامیابی ملی ہے، اس کے لئے ارکان کونسل کو خریدنے اور دباؤ ڈالنے یا دوستی کا صلہ مانگنے کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں اس سے سابق حکمراں پارٹی کانگریس کو شدید پشیمانی کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ کانگریس سے منحرف ارکان کے خلاف کارروائی ہوگی یا نہیں یہ تو بعد کی بات ہے، اس وقت کونسل کے انتخاب کے لئے کانگریس کے ڈپٹی چیرمین بشمول 8ارکان اور تلگودیشم کے دو ارکان نے پارٹی وہپ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سوامی گوڑ کو ووٹ دیا۔ تلنگانہ بنانے کا وعدہ پورا کرکے بھی کانگریس کو سیاسی خسارہ سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے تو یہ موقتی سیاست کی بدترین مثال ہے۔ کانگریس کو اپنے ہی قائدین پر گرفت قائم رکھنے میں ناکامی ہورہی ہے۔ایسا لگتا ہے شاید سیاستدانوں کی دولت کی ہوس وضعداری کو چاٹ گئی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ تلنگانہ بن جانے کے بعد بھی وفاداری اور دیانتداری کا توازن برقرار نہیں رہا بلکہ اس میں مزید خرابی پیدا ہوگئی۔

سیاستدانوں میں دولت کا کھیل اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ ایک سرکاری ملازم اپنی دولت کی طاقت کے ذریعہ ارکان کو خرید سکتا ہے۔ کل تک جس کے پاس کچھ نہیں تھا، آج وہ سب کچھ کر دکھارہا ہے۔ تلنگانہ این جی اوز کی آڑ میں عوام کی حمایت حاصل کرنا اور سیاستدانوں کا نورِ نظر بن جانے کی صلاحیت بھی ایک انفرادی کوشش کا حصہ ہوتی ہے۔ سوامی گوڑ کو قانون ساز کونسل کی صدارت ملی ہے تو ٹی آر ایس پر اپنی ایک ماہ کی حکمرانی میں سیاسی من مانی کرنے کے الزام کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ اس ایک ماہ میں ٹی آر ایس نے اپنی بہتر حکمرانی کی کارکردگی کا کس حد تک مظاہرہ کیا ہے یہ عوام دیکھ رہے ہیں، البتہ سیاسی جوڑ توڑ میں وہ کامیاب دکھائی دی۔ عوام کے مسائل دھرے کے دھرے ہیں، برقی بحران نے شہریوں، گاؤں والوں، کسانوں، صنعت کاروں اور ہر ایک کو پریشان کررکھا ہے۔ برقی قلت کا شکار تلنگانہ کو آئی ٹی شعبہ میں ترقی دینے کی کاغذی گھوڑے دوڑانے والے وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کو ابھی بہت کچھ کام کرنے ہیں۔ ایک ماہ کے اندر انہوں نے اپنے والد کی اُنگلی پکڑ کر چلنے کی کوشش تو کی ہے، آگے چل کر معلوم ہوگا کہ وہ اپنی پالیسیوں اور کاموں میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔پہلی کوشش کے طور پر تلنگانہ میں سرمایہ کاری کا باب کھل گیا ہے۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کی دلچسپی سے سرمایہ کار تلنگانہ کا رُخ کررہے ہیں۔

فی الحال رمضان المبارک کے دوران روزہ داروں کو سحری سے لیکر افطار تک وقفہ وقفہ برقی کی قلت سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ ایسے میں مہنگائی نے تمام انسانوں کو پریشان کردیا ہے تو حکومت نے بھی عوام کو تمام منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ بازار میں کوئی چیز بھی سستی نہیں ہے اور عوام ناجائز منافع خوروں کے چنگل میں پھنستے جارہے ہیں۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے رمضان میں بہتر سے بہتر سہولتیں فراہم کرنے کا دعویٰ کیا تھا، عوام خاص طور پرروزہ دار اُن بہتر سہولتوں کا انتظار کررہے ہیں۔عام مارکٹ میں جب حکومت اور سرکاری اداروں کا کنٹرول ختم ہوجاتا ہے تو مارکٹ کے منافع خوروں کو عوام کی جیب ہلکی کرنے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ نام نہاد تاجرین نے اپنی اشیاء کی قیمتیں دوگنی کردی ہیں۔ رمضان المبارک میں ہی روزہ داروں کو لوٹ لینے کا بازار کھول دیا جاتا ہے۔ سستے بازار، سوپر مال یا سیل کی نمائش لگانے والوں کی منافع خوری بھی دوسری مارکٹوں سے زیادہ ہے۔ رمضان کی پسندیدہ غذا سمجھی جانے والی حلیم کی قیمت بھی من مانی وصول کی جارہی ہے۔جودوکاندار روزہ داروں کو لوٹتا ہے کیا وہ اپنا مال اور ترقی کا سامان محفوظ رکھ سکے گا۔ مساجد میں خطیب صاحبان قرآن مجید کی تعلیمات پر تشریحات کرتے وقت چندہ اور خیرات پر زور دیتے ہیں تاکہ مسلمان اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ چندہ دیں اور نام نہاد دینی سرگرمیوں میں مصروف دنیاداروں کو خوب چندہ اور خیرات حاصل ہوجائے۔ یہ خطیب صاحبان جہاں بہت ساری باتیں بتاتے ہیں وہیں ناجائز منافع خوری کے خلاف وعید نہیں سناتے۔ بازار میں بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں بھی مسلمان ہوتے ہیں تو ان میں خریدی و فروخت کا منافع بے تحاشہ ہوتا ہے۔ سحری و افطاری کا سامان خورد و نوش خریدے بغیر کوئی کیسے روزہ رکھ سکتا ہے۔ اس مہنگائی کے بُرے اثرات غریبوں پر پڑ رہے ہیں۔

بعض فلاحی اور خیراتی تنظیمیں ہیں جو اپنے طور پر مقدور بھر کوشش کرکے غریبوں میں رمضان کا اناج تقسیم کرتی ہیں اور افطار کا اہتمام کرتی ہیں۔ ایک بڑے معاشرہ میں چھوٹی چھوٹی کوششیں چندایک کو ہی کام آتی ہیں۔ حلیم کا کاروبار کرنے والوں نے اپنی دیگیں نوٹوں کی بھٹی میں تبدیل کرلی ہیں۔ عام دنوں میں کیٹررس ایک حلیم کی قیمت میں فی کس کئی آئٹم پیش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہیں ہوٹل مالکین یا حلیم کے بیوپاری رمضان میں روزہ داروں کو لوٹ کر منافع خوری کا بہترین مظاہرہ کرتے ہیں۔ عوام الناس اس سے بے خبر و بے نیاز خریداری کرتے ہیں اور اپنی جیب خالی کرکے منافع خوروں کا پیٹ بھرتے ہیں۔ حکومت کا مارکٹ والوں پر کنٹرول نہ ہو تو پھر سب کچھ جائز ہوجاتا ہے۔ عوام بھی اپنی محنت کی کمائی کو یوں ہی منافع خوروں کی تجوری بھرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔
سوپر مارکٹس یا مالس میں بھی من مانی قیمتیں وصول کرنے کے ساتھ ساتھ ان دنوں کریڈٹ کارڈس کے ذریعہ بل ادا کرنے والوں کو بھی ٹھگ لینے کے کئی واقعات پیش آرہے ہیں۔ ایک بل پر اگر کارڈ کو مشین میں دو مرتبہSwipe کیا جائے تو گاہک کے اکاؤنٹ سے ایک بل کی دو مرتبہ رقم کٹ جائے گی، اس کا علم گاہکوں کو بہت ہی کم ہوتا ہے۔ اکثر گاہک تو اپنے بینک بیالنس سے بھی بے خبر ہوتے ہیں اور یہ لوگ آسانی سے ٹھگ دکانداروں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے گھرانے بھی ہیں جو کبھی مارکٹ کا رُخ نہیں کرتے کیونکہ سارا کام ان کے نوکر چاکر کرتے ہیں، یہی لوگ مالکین کے لئے ٹوکرے بھر بھر کر افطاری اور سحری کا سامان خریدتے ہیں اور دکانداروں سے دوستی کرکے مالک کی نظریں چُرا کر اپنا بچت کا حصہ صاف کرلیتے ہیں۔ گھروں میں بیٹھے ان کے مالکین الحمد للہ کہہ کر فقط ڈکار مارتے ہیں۔ امیر ہونا تو کوئی بری بات نہیں ہے مگر غریبوں کا احساس نہ ہو تو خاص کر ایسے غریبوں کا جو روزہ کھولنے کیلئے اپنے بچوں کے لئے کھجور بھی نہ خرید سکیں تو غریب روزہ داروں کو اپنی غربت میں سحرو افطار کا انتظام بھی محال ہوجاتا ہے۔

کھجور کی مارکٹ پر بھی منافع خوروں کا راج ہے جوترازو اور وزن میں بھی فرق رکھ کر آسانی سے کیلو کو پون کیلو کردیتے ہیں اور یہ سب کچھ اندھا دھند طریقہ سے جاری ہے کیونکہ حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ تلنگانہ کی حکومت نوخیزی کی دہلیز عبور کرنے کیلئے ابھی انگڑائی لینے میں ہی مصروف ہے تو بھلا وہ مارکٹ اور مہنگائی کا حال کس طرح معلوم کرے گی۔محکمہ اوزان و پیمائش کے عہدیداروں کو بھی اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انھیں تو دھاوؤں سے بچنے کیلئے معمول کی رشوت پہلے ہی مل جاتی ہے۔ تلنگانہ میں عوام الناس کو اپنی پسند کی حکومت بنانے کے کئی فوائد اور نقصانات کا اندازہ کرنے کی بھی فرصت نہیں تو پھر یہی حال سب حکومتوں کا ہوگا۔

سیما آندھرا میں آندھرا کے لوگوں کو تو ان کے حق میں ایسی حکومت آئی ہے جو کانگریس کی نااہلیوں کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے۔ صدر تلگودیشم چندرا بابو نائیڈو کو ریاستوں کے درمیان دوڑ لگانے کی ہی فرصت نہیں مل رہی ہے، وہ مسائل پر کیسے دھیان دیں گے۔ اگرچیکہ انہوں نے کئی عوامی مسائل کی یکسوئی کیلئے اپنی پڑوسی ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر سے مل بیٹھ کر بات چیت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ کے چندر شیکھر راؤ کو وہ اپنا دیرینہ شناسا لیڈر مانتے ہیں تو ان سے مسائل پر بات کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر اس بات چیت کا ہر دو ریاستوں کے عوام کو کس حد تک فائدہ ہوگایہ نوٹ کرلیا جائے۔ واقعی دونوں قائدین مل بیٹھ کر مسائل کی یکسوئی پر توجہ دیتے ہیں تو کئی تنازعے حل ہوں گے۔ برقی، آبی اور قدرتی وسائل کی تقسیم کا مسئلہ بھی دورہوجائے گا۔
kbaig92gmail.com