روشن منزل چھوڑ کر اندھیروں کی جانب کوچ…

تلنگانہ ، اے پی ڈائری             خیراللہ بیگ
سیاستدانوں کے بچوں کی سیاست کو عبادت کا درجہ دینے والے سیاسی چیلوں کا غول بڑھتا جارہا ہے تو عوام کے لئے نت نئے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیاسی وارث کو ہی اقتدار حاصل کرنے کا حق ہے تو ان دنوں سیاسی وارث اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ اترپردیش میں جس طرح چیف منسٹر اکھلیش یادو نے اپنے باپ کی ناک کی سیدھ میں سیاسی محاذ بنالیا اسی طرح کل تلنگانہ میں چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے فرزند کے ٹی راما راؤ بھی اپنے والد کی ناک کو کٹوانے والا ایسا کوئی کام نہیں کریں گے۔ سیاستداں کی سیاسی ناک بھی کافی اہمیت رکھتی ہے۔ اگر ان کے خلاف ایک لفظ بھی بولا گیا تو وہ ناک پر غصہ رکھنے والوں کی طرح بھڑک جاتے ہیں۔ سابق مرکزی وزیر فینانس پی چدمبرم نے حال ہی میں تلنگانہ حکومت کی کارکردگی پر تنقید کی تو چیف منسٹر کو کافی غصہ آگیا اور کہاکہ کیا تم کو تلنگانہ میں ہونے والی ترقی دکھائی نہیں دیتی۔ ان کی حکومت نے بہبودی اسکیمات پر 35000 کروڑ روپئے خرچ کئے ہیں۔ چیف منسٹر نے اپنی حکومت کی کارکردگی پر اُٹھنے والی انگلیوں کو برداشت نہیں کیا اور کانگریس لیڈروں پر جوابی تنقید کی۔ سابق مرکزی وزیر فینانس چدمبرم نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ تلنگانہ میں حکمراں ٹی آر ایس اپنے وعدے پورے کرنے میں بُری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اس الزام کا تلخ جواب یہ دیا گیا کہ آیا چدمبرم اندھے ہیں جنھیں تلنگانہ کی ترقی دکھائی نہیں دیتی۔ کیا تمہاری پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں جیسے کرناٹک میں ایسی بہبودی اسکیمات پر عمل آوری ہورہی ہے۔ چیف منسٹر کا جواب بھی بجا تھا کیوں کہ ریاست میں برقی کا مسئلہ حل کرنے کا وعدہ پورا کیا گیا ہے اب وہ ریاست کے ہر گھر میں انٹرنیٹ کنکشن دینے کا وعدہ کررہے ہیں اس کے ساتھ پینے کے پانی کا نل بھی لگائیں گے۔ کانگریس والوں نے برسوں حکومت کرکے عوام کے حق میں کچھ نہیں کیا جو ٹی آر ایس نے ڈھائی سال میں کر دکھایا ہے۔ کانگریس کے لوگ اندرا گاندھی کی تصویر بتاکر ووٹ لیتے رہے۔ انتخابات کے بعد کچھ کام نہیں کیا۔ ٹی آر ایس نے دلتوں کے لئے اسکیمات بناکر انھیں روبہ عمل بھی لایا ہے۔ ٹی آر ایس حکومت نے بہبودی کے کام انجام دیئے ہیں یا نہیں اور کانگریس قائدین اندھے ہیں یا بینائی رکھتے ہیں، اس سے پرے یہ بات تو واضح ہے کہ سیاست دانوں کو اپنی ناک کی لاج عزیز ہوتی ہے۔ اگر ناک کٹ جائے تو پھر حالات خراب اور سیاسی تختہ اُلٹ جائے گا۔ تلنگانہ کی سیاست میں ان دنوں ریاستی بہبودی اسکیمات پر عمل آوری یا تکمیل کا مرحلہ ہی نہیں آیا ہے مگر حکومت کے سربراہ نے 2019 ء کے انتخابات کی تیاری شروع کردی ہے۔ چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ کے سیاسی مستقبل اور منصوبوں کے بارے میں اس کالم میں بہت پہلے ہی قیاس آرائی کی جاچکی ہے کہ وہ ریاست کی باگ ڈور اپنے فرزند کے ٹی راما راؤ کے حوالے کرکے خود مرکز میں اعلیٰ قلمدان کے حصول کے متمنی ہوں گے۔ اب ٹی آر ایس پارٹی کے ہی رکن پارلیمنٹ بی نریش گوڑ نے یہ سنسنی خیز انکشاف کردیا ہے کہ چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ 2019 ء کے انتخابات کے بعد تلنگانہ کے چیف منسٹر کی حیثیت سے برقرار نہیں رہیں گے بلکہ یہ کرسی اپنے فرزند کے ٹی راما راؤ کے حوالے کردیں گے۔ قومی سیاست میں فیصلہ کن رول ادا کرنے کا خواب دیکھنے والے چندرشیکھر راؤ نے اس لئے اپنا رجحان مرکز کی جانب کیا ہوا ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم نریندر مودی کی نوٹ بندی پالیسی کی تائید کرکے انھوں نے مرکز تک رسائی حاصل کرنے کی راہ کشادہ کرلی تھی۔ حصول تلنگانہ سے قبل بھی وہ مرکزی وزیر کی حیثیت سے خدمت انجام دے چکے ہیں۔ یو پی اے حکومت میں مرکزی وزارت کا لطف لینے کے بعد سال 2019 ء کے انتخابات کے بعد دوبارہ اس لطف سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں۔ تلنگانہ کی سیاست میں سیاسی وارث کی دوڑ شروع ہوتی ہے تو پھر ٹی آر ایس کے مضبوط لیڈر ہریش راؤ بھی چیف منسٹر کی کرسی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ فی الحال انھوں نے اس مسئلہ پر ٹی آر ایس میں کسی اختلاف کی تردید کی ہے اور کے ٹی راما راؤ سے خوشگوار روابط ہونے کا اظہار کرتے آرہے ہیں اور بعض موقع پر کے ٹی راما راؤ کے ہمراہ رہ کر یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ٹی آر ایس میں کوئی پھوٹ والی بات نہیں ہے لیکن پارٹی کے ہی ذمہ دار قائدین نے احساس ظاہر کیا ہے بلکہ یقین سے کہا ہے کہ کے سی آر نے پہلے ہی خود کو تیار کرلیا ہے اور یہ طے ہے کہ کے ٹی راما راؤ تلنگانہ کے آئندہ چیف منسٹر ہوں گے۔ یو پی میں اگر اکھلیش یادو کو اپنے والد سے اقتدار کی جنگ لڑنی پڑرہی ہے۔ تلنگانہ میں بھی ایسا ہوگا۔ کے سی آر کو مرکز سے دلچسپی ہے جیسا کہ ملائم سنگھ یادو نے بھی ایک دفعہ وزیراعظم بننے کا خواب دیکھا تھا۔ اپنے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے انھوں نے ریاستی قیادت اپنے فرزند کے حوالے کردی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ ملائم سنگھ کو مرکزی قیادت نصیب نہیں ہوئی۔ اب وہ ریاستی سیاست سے بھی دور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک نوجوان سیاستداں کے سامنے معمر لیڈر کی وقعت کیا رہ جاتی ہے اس کا مشاہدہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ تلنگانہ کی معمر قیادت کو بھی ایک دن سیاسی وارث کا سہارا لینا پڑے گا۔ تلنگانہ کے سیاست داں اپنی تہذیب کو چھوڑ نہیں سکتے۔ مگر مرکزی سیاسی تہذیب بھی بڑی پسند ہوتی ہے۔ مرکزی طاقت سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ چنانچہ مرکزی حاکمیت کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ ریاست کی ترقی عوام کے مسائل کی یکسوئی کا معاملہ سب اب ان کے لئے ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی نگاہ مرکز کی جانب مرکوز ہوچکی ہے۔ یوپی کی طرح بہت جلد تلنگانہ کو بھی ایک نیا کلچر ملے گا۔ جی ہاں بیٹے کی برتری باپ کی کمتری۔ متحدہ آندھراپردیش کی سیاست میں خسر اور داماد کا ٹکراؤ تھا۔ بعدازاں داماد نے سیاسی برتری حاصل کی اور خسر کو کنارہ پر پہونچا دیا گیا۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی مرکز سے قربت حاصل کرنے کی کوشش کا ایک اشارہ اس سے بھی ملتا ہے کہ انھوں نے مرکزی بجٹ کو بہترین قرار دے کر وزیر فینانس ارون جیٹلی کی ستائش کی ہے جبکہ اصل حقیقت میں مرکزی بجٹ نے تلنگانہ کے لئے کوئی خاص نہیں کیا۔ یہ بجٹ تلنگانہ کی ترقی کے لئے پت جھڑ کی مانند کام کرے گا۔ کیوں کہ عام طور پر پت جھڑ کو اُداسی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ واستو پر اندھا عقیدہ رکھنے والے چیف منسٹر کو پت جھڑ کا موسم اُداسی کے بجائے خوشیاں لادے تو پھر سب قیاس آرائیاں درست ثابت ہوں گی۔ کے ٹی آر کو چیف منسٹر کی کرسی مل جائے گی۔ تلنگانہ کے عوام کو ہی دھوکہ ہوگا جنھوں نے کے سی آر کو روشن منزل عطا کی تھی اب وہ اندھیروں کی جانب رُخ کررہے ہیں۔
kbaig92@gmail.com