روشن اور تابناک مستقبل کی امید میں طلبہ فیس کی ادائیگی سے محروم

فیس ری ایمبرسمنٹ کی عدم اجرائی سے بچوں کا مستقبل تاریک ہونے کا امکان، حکومت خواب غفلت میں
حیدرآباد ۔ 28 فبروری (سیاست نیوز) ریاست تلنگانہ میں طلبہ کا مستقبل تاریکوں کی نذر اور تعلیمی سال خطرہ میں پڑ ھ گیا ہے۔ آج کل انتظار اور وعدوں کی پالیسی داخلہ سے امتحان تک کا مرحلہ طئے کرچکی ہے۔ تاہم اب امتحان میں شرکت اور کالجوں میں داخلہ دشوار کن ہوگیا ہے۔ فیس ریمبرسمنٹ اور اسکالر شپ کی اسکیمات نے ہزاروں طلبہ کے روشن مستقبل ہر گرہن لگا دیا ہے۔ ان اسکیمات سے بالخصوص اقلیتی طلبہ کافی پریشانی کے عالم میں اپنے مستقبل سے خوف کا شکار ہیں۔ مقامی سطح پر اوسط درجہ کے کالجس اور اپنی سطح تک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور اولیائے طلبہ نے ان اسکیمات پر بھروسہ کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کا موقع حاصل کیا جو انہیں قرض اور پریشانی، پشیمانی اور رسوائی کا سبب بن گیا ہے۔ کئی ایک طلبہ کو اپنی پریشانی بتانے سے بھی گریزکررہے ہیں جبکہ انہیں کالجس میں روز رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ یہ طلبہ اب سرکاری احکام اور اقدامات پر نظر جمائے بیٹھے ہیں۔ آٹو ڈرائیور، روزآنہ مزدوری کرنے والے، ٹیلرس، کرانہ دکان، ہیوی و گوڈس گاڑیاں چلانے والے، پان شاپ مالکین، ٹائیر پنکچر ہوٹل ملازمین، کپڑے کے بڑے شورومس دو دکانات میں کام کرنے والے ایسے شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی مشکلات کو دیکھتے ہوئے حکومت پر بھروسہ کرتے ہوئے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کا موقع فراہم کیا۔ ان میں اکثریت نے فیس ریمبرسمنٹ و اسکالرشپس میں تاخیر سے قرض میں مبتلاء ہوگئے ہیں۔ فیس کی وصولی کے بعد قرض کی ادائیگی کی آس میں ستم پر ستم کئے جارہے ہیں۔ ایک طرف دوسرے سال کا اختتام ہے تو ابھی تک گذشتہ سال کی فیس ادا نہیں ہو پائی ہے اور کالجس کے انتظامیہ بھی ہال ٹکٹ کی اجرائی کو مشکل قرار دے رہے ہیں۔ انجینئرنگ و دیگر پروفیشنل کالجس کیلئے طلبہ کو ہال ٹککٹ راست یونیورسٹی جاری کرتی ہے جو کالج انتظامیہ کے ذریعہ طلبہ تک پہنچتا ہے اور کالج انتظامیہ امتحانات کیلئے ضروری اقدامات کو اپنے طور پر انجام دیتے ہوئے طلبہ کی خود رہنمائی کرتے ہوئے یونیورسٹی سے ربط بنائے ہوئے ہیں۔ اگر فیس ادا نہیں کی جاتی ہے تو پھر یونیورسٹی کس طرح ہال ٹکٹ جاری کرے گا اور جاریہ تعلیمی سال مئی میں ختم ہوگا اور ابھی ایمسیٹ کا بھی اعلان ہونے والا ہے۔ نئی ریاست نئے مسائل کے مترادف طلبہ روشن مستقبل کی آس میں تاریکی میں چلے جارہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں اور اعلیٰ تعلیم، روشن مستقبل کا خواب محض خواب ہی رہ جائے گا حالانکہ اقلیتی بجٹ کو ایک ہزار کروڑ مختص کرتے ہوئے امیدوں کی کرنیں لگائی گئیں لیکن ابھی تک کسی قسم کے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ ریاست و قومی سطح پر اقلیتوں کی تعلیمی و معاشی حالت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک طرف اقلیتوں کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کی باتیں تو دوسری طرف وسائل سے دور کردیا جارہا ہے۔ تعلیم جیسے بنیادی حق میں وعدے کرتے ہوئے پہلے تو انہیں آگے بڑھایا گیا اور اب غفلت برتی جارہی ہے۔ فیس ریمبرسمنٹ اور اسکالر شپ کا تعلق ریاستی حکومت سے ایک ہزار کروڑ کا بجٹ اور اقلیتیں بالخصوص تعلیم یافتہ وزیرتعلیم نوجوان نسل تاریکیوں میں ڈھکیل دیا جارہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سینکڑوں طلبہ کے مستقبل سے جڑے اس اہم مسئلہ پر جو سنگین رخ اختیار کرگیا ہے، فوری اقدامات کرتے ہوئے ان طلبہ کا سہارا بنے اور اعلیٰ تعلیم سب کیلئے تعلیم کو یقینی بنائیں۔