!روزانہ سینـکڑوں نوکریاں ختم ہورہی ہیں

آئی ٹی سیکٹر سے فیکٹریوں تک میں ملازمین کی کٹوتی، ترقی اور معاشی سدھار کے تمام دعوے کھوکھلے
حیدرآباد ۔ 30 ڈسمبر (ایجنسیز) موجودہ حکومت کے ساڑھے تین سال بعد بھی ترقی سے متعلق دستیاب اعداد و شمار میں سب سے خراب حالت روزگار اور نوکریوں کے شعبوں میں ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد نوکریاں گنوانے والوں کے اعداد و شمار نے اس دہکتی آگ پر گھی ڈالنے کا کام کیا، کئی خانگی شعبوں میں ملازمین کی کٹوتی بھی شروع ہوئی اور آئی ٹی سیکٹر سے لیکر فیکٹریوں تک میں منفی اثر پڑا۔ امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے جی ڈی پی، نوٹ بندی، بینک کے پھنسے قرض کو لیکر اٹھائے ہوئے اقدام، آدھار کارڈ اور ڈائرکٹ بینفٹ ٹرانسفر کو بھلے ہی قابل ستائش اقدام قرار دیا لیکن روزگار فراہم کرنے اور نوجوانوںکو نوکریاں دینے کے معاملے میں انتہائی خستہ حالی پر سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ ترقی اور معاشی سدھار کے تمام دعوؤں کے باوجود روزگار سے متعلق مستقبل غیریقینی ہے۔ بیروزگاری کی شرح بڑھتی جارہی ہے، ایک تجزیہ کے مطابق روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں نوکریاں ختم ہورہی ہیں، اس بابت مودی حکومت کے ہی سالانہ سروے کی رپورٹ اچھی تصویر پیش نہیں کررہے ہیں، مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد روزگار کو لیکر پہلا سروے 2016ء میں کروایا گیا تھا۔ اس وقت پایا گیا کہ ملک کے 68 فیصد گھروں میں ماہانہ آمدنی 10 ہزار روپئے ہے۔ شہری علاقوں کی بہ نسبت دیہی علاقوں میں بیروزگاری زیادہ ہے۔ 42 فیصد کام کرنے والوں کو 12 مہینے کام نہیں ملتا ہے، خواتین کی بیروزگاری شرح 8.7 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت کے تمام دعوے، چاہے ’’میک ان انڈیا‘‘ ہو یا پھر ’’اسٹارٹ اپ انڈیا‘‘ یا بینک کی اسکیمات کے ذریعہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے دعوے ان تمام دعوؤں کے باوجود حالات جوں کے توں ہیں۔ حکومت کی کوئی بھی ایسی اسکیم نہیں ہے جس نے نوکریاں پیدا کرنے اپنے نشانہ کو پورا کیا ہو۔ اسے دیکھتے ہوئے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں ہر سال 2 کروڑ روزگار فراہم کرنے والے بی جے پی کے وعدے پورے ہوپائیں گے۔ روزگار کی کمی کی وجہ ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہیکہ حکومت و کمپنیاں نئے شعبوں میں نوکریاں فراہم کرنے اور اس کیلئے مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔