روحیؔ قادری اجمالی تعارف

ڈاکٹر فاروق شکیل

نام : پیر زادہ سید محی الدین قادری، قلمی نام : روحیؔ قادری، پیدائش 1920 ، حیدرآباد، وفات 21 فروری 2000 ء حیدرآباد ۔ تعلیم : جامعہ نظامیہ سے فارغ التحصیل ۔ مجموعے کلام ’’کیف اضطراب (انتخاب کلام روحیؔ قادری) ۔ مرتب : مضطرؔ مجاز ۔ ’’حرف روشن 1994 ء ۔ اساتذہ : مفتی اشرف علی اشرف ۔ صفی اورنگ آبادی ۔
روحی قادری حیدرآباد کے مایہ ناز استادِ سخن تھے ۔ وہ نہ صرف ایک نمائندہ شاعر تھے بلکہ منکسرالمزاج اور زندہ دل انسان تھے ۔ تمام عمر شعر و ادب کی آبیاری میں گزاری ۔ بقول مضطر مجاز ’’روحی صاحب اپنی ذات کے نہاں خانے میں چمکنے والی بجلی کی طرح ہیں‘‘ ۔ ان کے کلام میں تاثیر بولتی ہے ۔ بقول صفیؔ اورنگ آبادی   ؎
تاثیر سخن کسب سے حاصل نہیں ہوتی
یہ دین خدا کی ہے صفیؔ جس کوخدا دے
روحی قادری قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کے کلام میں کلاسیکی مہک کے ساتھ ساتھ عصری حسیت کی تلخیاں بھی تحلیل ہیں اور مکتب صفی اورنگ آبادی کی تمام خصوصیات زبان و بیان کی سادگی شستگی ،محاورہ بندی ، اور مضمون آفرینی سے ان کاکلام مزین ہے ۔ انہوں نے غزل کے روایتی حسن کو بگاڑے بغیر نئے اندازے تجسیم کاری کی ہے ۔ غزل میں روانی ، برجستگی اور لفظوں کو برتنے کا ہنر رکھتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ انہیں ’’میر دکن ‘‘ بھی کہا جاتاتھا ۔ مشاعروں میں یوں تو بہت کم شریک ہوتے تھے لیکن جب شریک ہوتے تھے مشا عروں میں جان ڈال دیتے تھے ۔ روحیؔ قادری کی شخصیت ہر قسم کے ذہنی تحفظات سے پاک تھی ۔ حلقۂ تلامذہ وسیع تھا ۔ غزل گوئی میں تو کمال حاصل تھا ہی، عشق رسولؐ نے انہیں نعت گوئی میں بھی باکمال کردیا تھا ۔ 80 سال تک دنیائے رنگ و بو میں رہ کر خالقِ حقیقی سے جا ملے اور دنیائے شعر و ادب کو اپنی یادوں کی سوغات دے گئے۔
منتخب اشعار :
یہ کائنات میں شورِ شکستگی کیا ہے
کھٹک رہی ہے کسی کو کہیں کمی میری
دیکھنا اک دن یہ سانسوں کی ہوا
کرکے مٹی کے حوالے جائے گی
تصویر خیر، صورتِ شر لے کے کیا کروں
نورِ ازل ہوں فرقِ نظر لے کے کیا کروں
ہنسنا ہو یا روناہو وہ ملناہو کہ بچھڑنا ہو
زندہ رہنا ہے تو پھر یہ سارے پاپڑ بیل میاں
کچھ نہ پوچھو یہ زخم کب کے ہیں
ہم ابھی ہم نہیں تھے جب کے ہیں
اونچا خیال ، اونچی نظر اونچے حوصلے
رکھو قدم زمیں پہ چلو آسمان پر
منزلیں اوجھل ہوئیں تو کیا ہوا
راستہ قدموں سے ہے لپٹا ہوا
مجھ کو پہنادیا لباس وجود
شمع کو روشنی میں بند کیا
یاد کرلینا میرے مرنے کو
زندگی کا جہاں سوال آئے
اک گنہگار ہوں یوسفؑ تو نہیں ہوں یا رب
پھر یہ کیا بات ہے ہر شخص مرا بھائی ہے
گمان و وہم کے دوزخ میں ڈال دیتا ہے
مجھے یقیں کا سمندر اچھال دیتا ہے
بہت کھنکائے سکے شہرتوں کے وقت نے روحیؔ
یہ سمجھا تھا کہ ہم جیسے طبیعت دار بکتے ہیں
کتنے دل ہیں دھواں دھواں روحیؔ
کتنے دل بے چراغ جلتے ہیں
مرگئی آس شام ڈھلتے ہی
بجھ گئے ہم چراغ جلتے ہی
ہم نہ ہوں تو کیا ہماری شاعری رہ جائے گی
شمع بجھ جائے گی لیکن روشنی رہ جائے گی