رشید قریشی

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
اگرچہ عمر کی اس منزل کو پہنچ گئے ہیں جہاں آدمی اپنے آپ کو سمیٹنے لگتا ہے مگر رشید قریشی اپنی عمر سے بے نیاز ہوکر زندگی کی طرف یوں لپکتے ہیں جیسے بچہ کسی کھلونے کو پکڑنے کے لئے لپکتا ہے۔ وہ کسی بھی قیمت پر بڑھاپے کا الزام سر لینا نہیں چاہتے۔ اپنے طرز عمل اور سرگرمیوں سے یوں ظاہر کریں گے جیسے وہ اب بھی جوانی سے لباب بھرے ہوئے ہوں۔ کسی کے حسن کا ذکر ان کے سامنے کیجیے اور پھر دیکھیے کہ ان کا چہرہ کس طرح نور سے دمک اٹھتا ہے۔ جیسے پیتل کے کسی برتن کو خوب مانجھ کر تمتماتے ہوئے سورج کے سامنے رکھ دیا گیا ہو۔ اس قسم کا نور ان کے چہرے پر دوہی صورتوں میں جھلکتا ہے۔ ایک تو کسی حسین کا ذکر سن کراور دوسرے جب وہ عبادت میں مصروف ہوں۔ حالانکہ دونوں قسم کے ’’انوار‘‘ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مگر ان کے ‘زمینی نور‘ پر ’آسمانی نور‘ کا اور ’آسمانی نور‘ پر ’زمینی نور‘ کا گمان ہوتا ہے۔

بہ حیثیت مزاح نگار میں ان کی بڑی عزت کرتا ہوں۔ زبان ایسی پیاری، شستہ اور لطیف لکھتے ہیں کہ بس مزہ لیتے رہ جائیے، مگر مزاح سے کہیں زیادہ میں ان کی شخصیت کے ’’چومکھے پن‘‘ سے متاثر ہوں۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں رشید قریشی اپنی رات گزار کر صبح جب طلوع ہوتے ہیں اور عبادت میں مصروف ہوجاتے ہیں تو دنیا کا بڑے سے بڑا متقی اور پرہیزگار شخص بھی ان کی عبادت کے انہماک اور استغراق کا مقابلہ نہیں کرسکتا (یہی وجہ ہے کہ میں انہیں بہت بڑا اداکار بھی سمجھتا ہوں) ایک انکشاف اور بھی کرتا چلوں کہ وہ بہت اچھے موسیقار بھی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ موسیقی سے وہ صرف عبادت کا کام لیتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان کی موسیقی خود ایک عبادت معلوم ہونے لگتی ہے۔ کئی بار سفر میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ پہلی بار جب سفر میں ساتھ ہوا اور رشید قریشی رات دیر گئے تک اپنے ’’بالغوں کے لطیفوں‘‘ کے ذریعہ دھماچو کڑی مچانے کے بعد سوگئے تو میں بھی اپنے کمرہ میں جاکرسوگیا۔ مگر علی الصبح میرے کانوں میں بڑی سریلی آوازیں آنے لگیں۔ بڑی ہی پیاری اور دلکش آواز میں کوئی آیاتِ قرآن کی تلاوت کررہا تھا۔ اب میں کیسے سوچ سکتا تھا کہ یہ سریلی آواز رشید قریشی کی ہوگی۔ اسی لیے میں نے بستر پر پڑے پڑے اپنے ’’ماحول‘‘ کا جائزہ لیا۔ اس ماحول میں ’’آیاتِ قرآنی‘‘ کی تلاوت کا دور دور تک کہیں کوئی امکان نہیں تھا اور سچ تو یہ ہے کہ رشید قریشی سے بھی میں اس ’’عمل‘‘ کی توقع نہیں کرسکتا تھا۔ محض تجسس کی خاطر اپنے کمرے سے باہر نکل کر رشید قریشی کے کمرے پر نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ایک مخصوص ٹوپی سر پر اوڑھے ہوئے جانماز پر بیٹھے ہیں۔ آنکھیں نہ صرف بند تھیں بلکہ ان بند آنکھوں سے آنسو بھی رواں ہیں۔ میں کچھ ایسی حیرانی سے رشید قریشی کو دیکھتا رہ گیا جیسے چڑیا گھر میں کوئی بچہ پہلی بار شیر کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ وہ بڑی رقّت کے ساتھ نہایت سریلی آواز میں تلاوت کررہے تھے۔ بڑی دیر تک عبادت میں مصروف رہنے کے بعد انہوں نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اوپر اُٹھائے۔ پھر ایک دعا ( جو غالباً ان ہی کی نظم کردہ ہے) بڑی سریلی آواز میں پڑھنے لگے۔ دعا پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے۔ اس دعا کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں وہ اپنے سارے گناہوں کی تفصیل گوشوارہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ اس منظوم دعا میں وہ اپنے آپ کو یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ دنیا کے گنہگار ترین انسان ہیں (حالانکہ ایسا ثابت کرنے کے لئے کسی استدلال یا مثال کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے) اگر آپ ان کے گناہوں کی تفصیل سنہ وار مثالوں کے ساتھ جاننا چاہتے ہوں تو ان کی منظوم دعا سنیے جسے وہ انسانوں سے حتی الامکان روپوش رکھتے ہیں۔ صاحب دعا کیا ہوتی ہے۔ اچھی خاصی ’’فرد جرم‘‘ ہوتی ہے جسے ملزم اپنے آپ پر عائد کرتا ہے اور پھر خدا سے انصاف کا طلب گار ہوتا ہے۔ آپ یقین کریں کہ اگر خدا کے بجائے کوئی پولیس والا ان کی دعا سن لے تو کسی وارنٹ کے بغیر انہیں فوراً گرفتار کرلے۔ اپنے گناہوں کو جس سلیقے سے وہ ’’یاد‘‘ رکھتے ہیں اس سلیقے سے شاید کراماً کا تبین بھی ان کے گناہوں کو قلمبند نہ کرسکیں۔ حالانکہ گناہوں کی فہرست تیار کرنے کا فرض تو ’’کراماً کا تبین‘‘ کا ہوتا ہے۔ تو خیر صاحب ’’اقبال جرم‘‘ سے فارغ ہونے کے بعد وہ سجدہ میں گرگئے تو بس گرے ہی رہ گئے اور میں ان کے گناہوں کی تفصیل سن کر گم سم کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ بڑی دیر کے بعد سجدہ سے اُٹھے تو چہرے پر نور برس رہا تھا۔ مجھے عالم حیرت میں غرق دیکھا تو فوراً باہر نکل آئے اور آپ یقین کیجیے کہ آتے ہی کمرہ کے باہر میرے کھڑے رہنے کو بنیاد بناکر ایک پھڑک دار بالغوں والا لطیفہ سنادیا۔ اب میں حیران کہ یہ شخص جو ابھی ابھی بندگی، معصومیت، زہد و تقویٰ، شرافت، نیک نفسی اور خدا ترسی کا پیکر بنا ہوا تھا اچانک کیا سے کیا ہوگیا۔

میں نے کہا ’’آپ سے مشکل یہ ہے کہ آپ کی نیکی اور بدی کے درمیان کوئی حدِّ فاصل نہیں کھینچی جاسکتی۔‘‘
بولے ’’میاں ! سچے اور مکمل انسان کی پہچان یہی ہے کہ اس کی نیکی کا حال خود اُسے بھی نہ معلوم ہو۔ ہاں اسے اپنی برائیوں کی ضرور خبر ہونی چاہئے۔ ‘‘
ان کی بندگی سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ بھی آپ کو سناتا چلوں۔ چند برس پہلے حکومت کی جانب سے کسی سرکاری ٹریننگ کے سلسلے میں انہیں آندھراپردیش کے ضلع محبوب نگر میں عالم پور بھیجا گیا۔ وہاں وہ ہر صبح ایک درگاہ میں پہنچ جاتے اور گھنٹوں عبادت میں مصروف رہتے۔ ان کے اس انہماک کو دیکھ کر درگاہ کے مجاور نے مشہور کردیا کہ یہ صاحب درگاہ کے بلاوے پر آئے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم پور میں سرگوشیاں ہونے لگیں کہ ایک پہنچے ہوئے بزرگ شہر میں آئے ہیں۔ جس پر ان کا دل آئے بس اسی کے لئے دعا کرتے ہیں اور پھر ادھر انہوں نے دعا کی اور ادھر اس شخص کی زندگی سنور گئی۔ ایک دن یہ علی الصبح درگاہ کے احاطے میں عبادت میں مصروف تھے کہ ایک جواں سال خوش جمال عورت ان کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ رشید قریشی نے دل ہی دل میں خدا کے آگے فریاد کی۔ ’’اے خدا! میرے تقوے کی ایسی کڑی آزمائش! ابھی تو پلکوں کی نمی بھی سوکھی نہیں۔‘‘ کچھ دیر بعد اس عورت نے اچانک ان کے پائوں پکڑ لیے اور گڑگڑا کر بولی۔ ’’حضرت قبلہ! میری مدد کیجیے۔ میری طرف دیکھئے۔ رائچور سے آئی ہوں۔‘‘ رشید قریشی کے پائوں آنسوئوں سے بھیگنے لگے اور ان کے ہاتھ سے تسبیح چھوٹ کر نیچے گرپڑی۔ انہوں نے استکراہ کے ساتھ عورت کو اپنے قدموں میں سے ہٹایا اور آگے بڑھنے لگے، مگر کہنے والوں نے اس عورت سے کہہ رکھا تھا کہ یہ بزرگ اتنی آسانی سے کسی کے لئے دعا نہیں کرتے لہٰذا اس نے ان کا دامن بڑی مضبوطی سے پکڑ لیا اور بولی ’’حضرت قبلہ! میں آپ کو جانے نہیں دوں گی۔ میرا شوہر مجھ سے متنفر ہوگیا ہے۔ کسی طرح اس کے دل میں میرے لئے محبت پیدا کیجیے۔‘‘
انہیں بہرحال اس عورت سے اپنی جان چھڑانی تھی۔ لہٰذا انہوں نے جیب میں سے کاغذ کا ایک پرزہ نکالا اور اس پر اس عورت کے ناقدر شناس شوہر کے نام صلواتیں لکھ کر اس کے حوالے کیا اور کہا ’’جو تم سے متنفر اس سے میں متنفر۔ اس درگاہ کا کنکرکنکر متنفر۔ رات کو اسے اپنے پائنتی رکھ کر سویا کرو۔‘‘
دو دن بعد رشید قریشی حسب معمول درگاہ گئے تو وہ عورت پھر موجود تھی۔ اب کی بار اس کے ہاتھ میں ایک تھالی بھی تھی۔ جیسے ہی رشید قریشی عبادت سے فارغ ہوئے اس نے پھر ان کے  پائوں پکڑ لئے اور وہ تھالی جس میں تھوڑے سے چاول، پان اور سپاری کے علاوہ پانچ روپئے بھی رکھے ہوئے تھے ان کے آگے بڑھاتے ہوئے بولی ’’حضرت قبلہ! آپ کی تعویذ سے میرے شوہر کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ہیں۔ اس لونڈی کا حقیر نذرانہ قبول کیجئے۔‘‘

انہوں نے لاکھ منع کیا مگر وہ عورت نہ مانی اور رشید قریشی کو اپنے دامن میں چاول سمیٹ کر لے جانا ہی پڑا۔ اب جو ان کی ’’کرامات‘‘ کا چرچا شہر میں ہونے لگا تو بالکل ادارۂ اقوام متحدہ بن گئے۔
کسی کی لڑکی اگر گھر سے بھاگ گئی ہو تو وہ شخص بھاگا بھاگا اپنی فریاد لے کر رشید قریشی کے پاس پہنچ گیا… کسی کے بچے نے دودھ پینا ترک کردیا تو بچے کی ماں فوراً رشید قریشی کے پاس پہنچ گئی … کسی لڑکی کی ساس نے اسے پیٹا اور وہ رشید قریشی کی امان میں پہنچ گئی… سارے شہر میں چہل پہل سی ہوگئی اور یہ بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ تعویذیں بانٹتے اور نذرانے قبول کرتے رہے۔
رشید قریشی کہتے ہیں کہ وہ دن ان کی زندگی کے حسین ترین دن تھے۔ ایک مرحلہ پر انہوں نے ’’تبدیلی پیشہ‘‘ کی بابت بھی سنجیدگی سے غور کیا تھا مگر صاحب اسی اثنا میں ان کی ٹریننگ ختم ہوگئی اور ایک دن اچانک ’’حضرت قبلہ‘‘ وہاں سے غائب ہوگئے۔ سارے شہر میں کہرام مچ گیا کہ حضرت ناراض ہوکر کہیں چلے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آج بھی اس شہر میں کسی کو معلوم ہوجائے کہ میں آندھراپردیش کے سکریٹریٹ میں کام کرتا ہوں تو وہ لوگ مجھے زبردستی یہاں سے پکڑ کر لے جائیں گے۔
حال ہی میں سنا ہے کہ تلاش حق کے میدان میں رشید قریشی نے ایک قدم اور آگے اٹھایا ہے۔ وہ عبادت کے وقت گوتمی رنگ کا لباس زیب تن کر لیتے ہیں اور یاد الٰہی اور ذکر نبی میں استغراق اور انہماک کے لئے ’’ایکتارہ‘‘ کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ میرابائی کا راستہ ہے۔ دیکھنا ہے کہ یہ تھکاہوا ایکتارہ سوار کہاں تک پہنچتا ہے۔ میرابائی تک بھی پہنچ پایا تو منزل زیادہ دور نہیں رہے گی۔
آپ ہی بتائیے میں ایسے شخص کے بارے میں کیا لکھوں جس کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ ایک پہلو پر لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو دوسرا پہلو سامنے آجاتا ہے۔ دوسرے پہلو پر غور کرتا ہوں تو اس میں سے تیسرا پہلو سامنے نکل آتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں رشید قریشی دراصل کئی ’’رشید قریشیوں‘‘ کا مجموعہ ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے میں کون سے رشید قریشی پر لکھوں۔ کتنا لکھوں اور کہاں تک لکھوں۔ اس لئے میں مجبور ہوں کہ ان پر کچھ بھی نہیں لکھ سکتا۔ پھر رشید قریشی کے بارے میں لکھنا اس لئے بھی مشکل ہے کہ اگر وہ کسی بات پر مجھ سے ناراض ہوجائیں اور جوابی کارروائی کے طور پر کوئی سنگین لطیفہ میرے نام سے منسوب کرکے سماج میں پھیلادیں تو پھر بتائیے میں کہاں کہاں منہ چھپاتا پھروں۔ ناصاحب! یہ مجھ سے نہ ہوسکے گا… میں مجبور ہوں۔ میں ان کے بارے میں ایک جملہ بھی نہیں لکھ سکتا۔ کیا میری شامت آئی ہے جو ان پر لکھنے چلوں؟
ہاں! میں اتنی دعا ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی شوخی، بذلہ سنجی اور ظرافت کے ذریعہ محفلوں میں برسوں قہقہوں کی دولت بانٹتے رہیں اور ان کے دم سے محفلوں میں قہقہوں کا کاروبار چلتا رہے… !    (1980)