رشوت کی رقم کس کی ملکیت ہے ؟

رشوت کی رقم کس کی ملکیت ہے ؟
سوال : میرا ایک حکومتی ادارہ میں اہم کام تھا، متعلقہ شخص بڑی رکاوٹ کھڑی کر رہا تھا اور علی الاعلان خطیر رقم کا مطالبہ کر رہا تھا ۔ بالآخر میں اس کو وہ رقم دینے پر مجبور ہوگیا۔ حسن اتفاق سے اس کے عہدیدار بالا قریبی ملاقاتیوں میں سے نکلے ۔ میں نے اس کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے آفس بلایا اور اس متعلقہ شخص کو رشوت کی رقم واپس کرنے کیلئے کہا۔ وہ شخص آدھی رقم ادا کیا ۔ میرے بعض دوست احباب نے کہا کہ جب تم ایک مرتبہ اس کو وہ رقم دے دیئے تو وہ رقم اس کی ملکیت ہوگئی ۔ اب تم کو واپس طلب کرنے کا حق نہیں۔ براہ کرم واضح کہئے کہ جو رقم میں نے واپس لی ہ اس کو میں اپنے شخصی استعمال میں لاسکتا ہوں یا پھر مجھے وہ رقم خیرات کردینی چاہئے ۔
یونس ، ملک پیٹ

جواب : رشوت طلب کرنا شرعاً حرام ہے اور دینے والا بھی گنہگار ہے۔ رشوت کا مال رشوت لینے والے کی ملکیت نہیں ہوتا ۔ رد المحتار کی کتاب الحظر والا باحتہ فصل البیع میں ہے : الرشوۃ لا تملک بالقبض۔
پس صورت مسئول عنہا میں آپ نے اس کے مطالبہ پر مقررہ رقم ادا کی تھی تو اس کی وجہ سے وہ رقم اس کی ملک نہیں ہوئی ۔ آپ کو اپنی دی ہوئی رقم واپس طلب کرنے کا حق ہے ۔ اگر اس نے آپ کو نصف رقم واپس کی ہے تو آپ اس کے مالک و حقدار ہیں۔ آپ اپنی مرضی سے جس مصرف میں چاہیں اس رقم کو خرچ کرسکتے ہیں۔ اس رقم کو شخصی استعمال میں بھی لاسکتے ہیں۔ خیرات کرنا یا نہ کرنیکا اختیار آپ کو ہے لیکن اس رقم کو خیرات کرنا ضروری نہیں۔

اذان کا منبر
سوال : ہماری قدیم مسجد کے صحن میں ایک چھوٹا خوبصورت حوض اور اذان کیلئے منبر ہے۔ مسجد کی توسیع کا کام جاری ہے ، انتظامی کمیٹی صحن میں موجود حوض اور منبر کو توسیع میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ بعض مصلی حضرات کا کہنا ہے کہ اذان کے منبر کو ویسے ہی برقرار رکھا جائے اس کو نہیں توڑا جاسکتا کیونکہ اس کا طریقہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے چلا آرہا ہے اس لئے اس پر اگرچہ اذان نہ بھی دی جائے اس کو ویسے ہی برقرار رکھنا چاہئے ۔ اس اہم و حساس مسئلہ پر روزنامہ سیاست کے ذریعہ شرعی رہنمائی کی التجاء ہے ۔
اہلیان محلہ،چیوڑلہ

جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اذان دینے کیلئے کوئی خاص منبر مقرر نہیں کیا گیا تھا بلکہ حضرت زیدؓ بن ثابت کی والدہ ماجدہ کے مطابق مسجد نبوی کے اطراف میں سب سے طویل مکان انہی کا تھا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان کی مشروعیت کے بعد سے انہی کے مکان کی چھت پر اذان دیا کرتے تھے اور جب مسجد نبوی کی باضابطہ تعمیر ہوگئی تو حضرت بلال مسجد نبوی پر اذان دینے لگے۔ اذان کیلئے منبر تعمیر کرنے کا رواج حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد سے ہوا، آپ سے قبل اس کا رواج نہ تھا ۔ رد المحتار جلد اول کتاب الصلاۃ مطلب فی اول من بنی المنابرللاذان میں ہے : ان اول من رقی منارۃ حصرللا ذان شرحبیل بن عامرالمراوی، و بنی سلمۃ المنابرللأذان بامر معاویۃؓ ولم تکن قبل ذلک۔ وقال ابن سعد بالسندالی ام زید بن ثابت : کان بیتی اطول بیت حول المسجد ۔ فکان بلال یؤذن فوقہ من اول ما اذن الی ان بنیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدہ فکان یؤذن بعد علی ظھرالمسجد و قدر فع لہ شئی فوق ظھرہ۔

نماز جنازہ میں تکبیرات کے بعد ہاتھ چھوڑنا
سوال : امام صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرنے تک ہاتھ باندھے رکھا ۔ بعض اصحاب نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ نماز نہیں ہوئی ۔ ایسی صورت میں شرعاً نماز جنازہ ہوئی یا نہیں ؟
ولی الدین ، ای میل

جواب : نماز جنازہ میں دو فرض ہیں۔ (1) چار تکبیرات یعنی چار مرتبہ اللہ اکبر کہنا (2) قیام یعنی کھڑے ہوکر نماز پڑھنا، نماز جنازہ میں تین امور مسنون ہیں۔ پہلی تکبیر کے بعد حمد و ثناء پڑھنا، دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھنا، تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا کرنا۔ اس کے علاوہ جو امور ہیں وہ مستحبات و آداب سے تعلق رکھتے ہیں، فرائض کی تکمیل سے نماز ادا ہوجاتی ہے ۔ فقہاء کرام نے کن مواقع پر ہاتھ باندھے رہنا چاہئے اور کن مواقع پر ہاتھ چھوڑ دینا چاہئے، اس سلسلہ میں ایک قاعدہ بیان کیا ہے ، وہ یہ کہ ہر وہ قیام جس میں کوئی ذکر مسنون ہو ہاتھ باندھے رہیں اور جس قیام میں کوئی ذکر مسنون نہ ہو اس میں ہاتھ چھوڑدیں ، ذکر سے مراد ذکر طویل ہے ورنہ تحمید و تسمیع یعنی سمع اللہ لمن حمدہ ، ربنا لک الحمد بھی ذکر ہے ۔ اس کے باوجود قومہ میں ہاتھ باندھنا نہیں ہے۔

… و یضع یمینہ علی شمالہ تحت سرتہ کالقنوت و صلوٰۃ الجنازۃ و یرسل فی قومۃ الرکوع و بین تکبیرات العیدین فالحاصل ان کل قیام فیہ ذکر مسنون ففیہ الوضع و کل قیام لیس کذا ففیہ الارسال (شرح و قایہ جلد اول ص : 144) اس کے حاشیہ 7 میں ہے… فان قلت یخرج عنہ القومۃ لان فیھا ذکر امسنونا وھوالتحمید والتسمیع قلت المراد بالذکر الذکر الطویل …
مذکورہ در سوال صورت میں خاص طور پر امام صاحب کو اور ان کی اقتداء کرنے والوں کو نماز کے ارکان و شرائط مستحبات و آداب کی رعایت رکھتے ہوئے نماز ادا کرنا چاہئے ۔ مذکورہ صورت میں نماز ادا ہوگئی تاہم خلاف استحباب عمل ہوا ہے۔ مصلیوں کا اعتراض صحیح نہیں۔
مصلی کے سامنے آئینہ
سوال : آج کل مساجد میں قرآن مجید رکھنے کے مقامات پر بغرض حفاظت آئینہ (گلاس) لگائے جارہے ہیں جن میں انسانوں کا عکس دکھائی دیتا ہے ۔ شرعاً ایسے آئینوں کے سامنے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟
شیخ فردوس، وٹے پلی
جواب : مصلی کے آگے سادہ آئینہ ہو یا پارہ زدہ مصقلہ (گلاس) جس میں اس کا عکس دکھائی دے تو نماز میں اس سے کوئی کراہت لازم نہیں آتی ۔ کیونکہ کراہت کا سبب مصلی کے روبرو اوپر یا دائیں یا بائیں محل تعظیم میں کسی ذی روح کی تصویر کا آویزاں ہونا ہے جیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد اول ص : 107 میں ہے ۔ و یکرہ ان یصلی و بین یدیہ او فوق راسہ او علی یمینہ او علی یسارہ او فی ثوبہ تصاویر۔عکس آئینہ بھی دھوپ کی وجہ زمین یا پانی پر پڑنے والے سایہ کی طرح ایک غیر مرتسم سایہ ہے جو حقیقتاً تصویر نہیں بلکہ وہ ان عکاس شعاعی ہیں جو لوٹ کر اس کے سامنے آنے والے کے چہرے پر پڑتے ہیں جس سے آئینہ میں شباہت مرتسم ہوتی ہے، اس کے روبرو ہونے والا خود اپنے آپ کو اس میں دیکھتا ہے۔ مذکورہ توضیح سے واضح ہے کہ آئینہ ذی روح تصویر کے حکم میں نہیں ۔ اگر اس کو یہ حکم دیا جائے تو گھروں میں جائے عزت و تعظیم میں اس کا آویزاں کرنا ناجائز قرار پاتا جبکہ بالاجماع ایسا نہیں ۔

تین طلاق کے کاغذپر دستخط کرنا
سوال : میری لڑکی کی کچھ عرصہ قبل ایک سافٹ ویر انجنیئر لڑکے سے شادی ہوئی۔ شادی کے وقت طئے شدہ چند امور پر شوہر برقرار نہیں رہا۔ لڑکا ہماری لڑکی کو اپنے گاؤں نہیں لے جاتا جبکہ شادی کے وقت ساتھ رکھنے کا طئے ہوا تھا ۔ مجبوراً ل ڑکی خلع مانگنے کیلئے دفتر قضائت رجوع ہوئی ۔ قاضی صاحب نے اپنی مرصی سے خلع کے کاغذ پر تین طلاق لکھ دیئے اور وہ یعنی شوہر اس پر دستخط کردیئے ۔ اب یہ دونوں آپس میں ملنا چاہتے ہیں۔ لڑکی کا کہنا ہے کہ میں تین طلاق نہیں چاہتی تھی اور میں نے اس پر تین طلاق نہیں لکھوائی۔ اب اس مسئلہ میں شریعت کا کیا حکم ہے۔

اسلامی بہن
جواب : بشرطِ صحت سوال صورت مسئول عنہا میں شوہر نے بیوی کی درخواستِ خلع کو قبول کرتے ہوئے جس وقت تین طلاق کے کاغذ پر دستخط کئے اس وقت بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر شوہر سے تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا اب وہ دونوں بغیر حلالہ آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کرلے سکتے۔ در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد 3 کتاب الطلاق باب الرجعۃ ص : 449 مطبعہ دارالفکر بیروت میں ہے : (و ینکح) مبائنۃ بما دون الثلاث فی المدۃ و بعد ھا بالاجماع و منع غیرہ فیھا لا شتباہ النسب (لا) ینکح (مطلقۃ) من نکاح صحیح نافذ کما ستحققہ (بھا) ای بالثلاث )لوحرۃ و ثنتین لوامۃ حتی یطائھا غیرہ و تمضی عدتہ)
تین طلاق کے لفظ کو نہ پڑھنے کا عذر وقوع طلاق کے لئے مانع نہیں ہے۔
قرض سے نجات کی مجرب دعا
سوال : میں بیوی بچے والا ہوں ، اور مقروض ہوں، کافی کوشش کرنے کے باوجود بھی میرا قرض ادا نہیں ہورہا ہے جس کی وجہ سے میری ہمت ٹوٹتی جارہی ہے ۔ آپ سے التجا ہے کہ کوئی موثر دعا کی رہنمائی فرمائے تاکہ اس کی برکت سے مجھے اس جان لیوا قرض سے نجات نصیب ہو۔
نام مخفی

جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی رسولؓ کو قرض سے نجات کیلئے ایک جامع دعاء کی تعلیم دی اور فرمایا : اگر تم پر احد کے برابر بھی قرض ہوگا تو اللہ تعالیٰ ادا فرمادے گا۔
اَللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُوْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَائُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاْء وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَائُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَائُ بِیَدکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَئی قَدِیر تُولِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَ تُولِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ وَ تُخْرِجُ الحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَائُ بِغَیْرِ حِسَاب رَحْمٰنَ الدُّنیا وَالآخِرَۃِ وَ رَحِیْمَھُمَا تُعْطِی مَنْ تَشَائُ وَ تَمْنَعُ مَنْ تَشَائُ اِرْحَمْنِی رَحْمَۃً تَْغنِیْنِی بِھَا عَنْ رَحْمَۃِ مَنْ سِوَاکَ اَللّٰھُمَّ اَغْنِنِی مِنَ الْفَقرِ وَ اقْض عَنِّی الدَّیْنَ ۔

ترجمہ : اے اللہ ! تو ہی کل بادشاہت کا مالک ہے ۔ جسے چاہتا ہے بادشاہت عطا فرماتاہے اور جس سے چاہے ملک چھین لیتا ہے جس کو چاہتا ہے عزت سے نوازتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے ۔ پس تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے تو ہر چیز پر قادر ہے ، تو ہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے ۔ اے دنیا اور آخرت میں خوب رحم فرمانے والے نہایت مہربانی فرمانے والے تو جس کو چاہے عطا کردے اور جس کو چاہے منع کردے تو مجھ پر ایسی رحمت نازل فرما جو مجھے تیرے سوا دوسروں کی مہربانی سے بے نیاز کردے ۔ اے اللہ مجھے فقر سے بے نیاز کردے اور میری طرف سے قرض ادا کردے ( طبرانی ، مجمع الزوائد کتاب الادعیتہ)حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ذریعہ دعا کیا کرتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی أعُؤذُبِکَ مِن غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَ غَلَبَۃ العَدُوِّ وَ شِمَاتَۃِ الْاَاعْدَائِ
اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، قرض کے غلبہ سے اور دشمن کے طلب سے اور دشمن کی ہنسی سے۔ (سنن نسائی ، کتاب الاستعاذۃ باب الاستعاذۃ من غلبہ العدو۔)