رشوت سے راحت

ڈاکٹر مجید خان
گزشتہ مضمون میں میں نے نریندر مودی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر حالیہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے جائزہ لیا تھا ۔ آج کے مضمون میں اُن کے طرز حکومت کو سمجھنے کی کوشش کروں گا ۔ نہ جانے کیوں یہ موضوع میرے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا جارہا ہے۔ لوگ مجھ سے زیادہ واقفیت رکھتے ہوں گے مگر مجھے تو دہلی کی مرکزی حکومت کی سرکاری مشنری میں ایک انقلاب آتا نظر آرہا ہے ۔ اس کے کچھ وجوہات ہیں۔ سب میں بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر محکمے ، ہر عہدیدار اور ہر وزیر کے تحت جو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اُن کو اُن سے متجاوز کرنے کی جرأت نہیں ہوگی ورنہ آپ کو خمیازہ بھگتنا پڑیگا ۔ اس کی بہترین مثال ہرش وردھن وزیر سائنس ہیں جن کو وزیر صحت سے جائزہ لینے کے چند دنوں کے اندر ہٹادیا گیا ۔ اس کے پس پردہ کئی وجوہات ہوسکتے ہیں مگر سب جانتے تھے کہ اُن کے تجربے اور عزائم کی بناء پر اُن کے سوا کوئی اور موزوں وزیر صحت ہو نہیں سکتا تھا ۔ اُن سے غلطی یہ ہوئی کہ میڈیا سے ذرا زیادہ ہی قریب تھے اور میڈیکل کونسل آف انڈیا کو علی الاعلان برا بھلا کہتے رہے اور اُس کو صاف کرنے کا وعدہ کئے اور خود ہی صاف ہوگئے ۔ اس سخت اقدام کا برا اثر دہلی کے انتخابات پر بھی ہوا مگر وزیراعظم کو اس کی فکر نہیں تھی ۔ کیا مودی جی کی طویل المدتی سوچ اور منصوبہ بندی میں کمزوری ہے، وقت ہی بتائیگا ۔

دوسروں کے کاموں میں کسی عہدیدار یا وزیر یا کوئی عوامی نمائندے کو دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ وزیراعظم دفاتر میں ان لوگوں کا غیرضروری داخلہ ممنوعہ قرار دیا ہے ورنہ اس سے پہلے بڑے رعب کے ساتھ یہ لوگ کہیں بھی گھس جاتے تھے ۔ عوامی منتخبہ نمائندوں پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ اُن کا کام قانون بنانا ہے اور اس لئے ایڈمنسٹریشن میں اُن کو دخل نہیں دینا چاہئے ۔ سنا کہ سنٹرل سکریٹریٹ اور مرکزی دفاتر کا حُلیہ ہی بدلتا جارہا ہے ۔ بے حساب خفیہ کیمرے ہر شخص کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ سکریٹریس تو دفتری اوقات میں اپنے بیوی بچوں سے سرکاری ٹیلیفون پر بات کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ ہرطرف وہاں پر خوف کا ماحول چھایا ہوا ہے ۔ اس قسم کے ڈسپلن کی سخت ضرورت تھی ۔ اس کے تعلق سے سوچ کر بھی دل باغ باغ ہوجاتا ہے ۔ اب حیدرآباد کے ضرورتمندوں لوگوں کو ان بدلے ہوئے حالت کو اپنے مستقبل کے لائحہ عمل میں شامل کرنا ضروری ہے ۔

مثلاً یہ عام طریقہ تھا کہ دہلی میں کچھ سرکاری کام رُکا ہوا ہو تو ممبر آف پارلیمنٹ یا پھر کوئی بھی مرکزی وزیر کے توسط سے قیمت چُکانے کے بعد کامیابی حاصل کی جاتی تھی ۔ اب یہاں ایک نیا خلا پیدا ہوگیا ہے ۔ ان پابندیوں کا سب سے زیادہ اثر اعلیٰ تعلیم کے اداروں پر پڑنے والا ہے ۔ سارے ہندوستان میں یہ ادارے جن کے بے حساب پروفیشنل کالجس میں ہر سال ایک نئے کالج کی اجازت حاصل کرلیا کرتے تھے ۔ اب جو چل رہے ہیں اُن کی بقا بھی لالے پڑگئے ہیں ۔ دہلی جائیے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ تمام دروازے بند ہوچکے ہیں۔ رشوت و رسوخ بے معنی ہوگئے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سرکاری ملازموں کیلئے اپنے مطالبات پیش کرنے کے صرف دو ہی راستے ہیں ایک تو آپ کی یونین اور دوسری عدالتیں۔

دہلی کے سرکاری حلقوں میں کھلبلی سی مچی ہوئی ہے ۔ حکومت کی مشنری کے پیچھے ایک اور خانگی مشنری کام کیا کرتی تھی ۔ منسٹرس خاص طور سے اپنے پرسنل اسسٹنٹ کا انتخاب کیا کرتے تھے جو اُن کی خانگی زندگیوں کی فرمائشوں کو پورا کیا کرتے تھے ۔ چاہے وہ بیویوں کی ہو یا پھر معشوقاؤں کی ۔ یہ خواتین خود بھی حکومت کی کارکردگی میں خوب دخل انداز ہوتے تھے ۔ اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ ہر ایک منسٹر کے پاس بے حساب سفارشی خطوط پڑے ہوئے ہیں وہ کھولے بھی نہیں جارہے ہیں۔ منسٹروں کے بیٹے بھی اپنے منافع خوری کے متوازی دفاتر کھول لیا کرتے تھے۔ بڑے بڑے ٹھیکے اُن کو ملتے تھے اور وہ بھی عوام پر حکومت چلایا کرتے تھے ۔

رشوت کا بازار اتنا گرم تھا کہ ہمارے حقیقی مطالبات اور حقوق کو حاصل کرنے کیلئے بھی رشوت دینی پڑتی تھی خاص طور سے ملازمتوں کیلئے ۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ پرانا کام کرنے اور کروانے کا رواج بدل رہا ہے اور گھر بیٹھے کسی بھی پیروکاری کے بغیر آپ کی ضرورت پوری کی جائیگی ۔ دفاتر کی چکر لگانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ۔ NRI’s جو پاس P.I.O Card لیکر آیا کرتے تھے اور اس پر چند غیرضروری شرائط تھے مثلاً 6 ماہ سے زیادہ کا وقفہ ہو تو مقامی پولیس کو اطلاع کرنا وغیرہ وغیرہ اب اپنے وعدے کے مطابق مودی حکومت اس کو برخواست کردی ہے اور رشوت کھانے اور کھلانے کا ایک اور دروازہ بند ہوچکا ہے ۔ لائیسنسوں کی اجرائی ، تجدید وغیرہ On-Line ہوتی جائیگی ۔ اب آثار نظر آرہے ہیں کہ جیسا ترقی یافتہ ممالک میں ہوا کرتا ہے اُسی طرح کسی کو بھی سرکاری دفاتر کی چکریں کاٹنی نہیں پڑیں گی ۔
اب ان تمام حالات کو جب ہم دہلی کے حالیہ انتخابات کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو ایک بات پھر سمجھ میں آتی ہے ۔ ماضی کے تجربات کی بنا پر مستقبل کے حالات کی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی ۔ کسی بھی کونے سے یہ نہیں کہا گیا تھا کہ بی جے پی دہلی میں نیست و نابود ہوجائیگی ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے 1950ء سے لیکر ہمیشہ دہلی بی جے پی کا گڑھ رہا ہے ۔ جو آناً فاناً میں ایک معمولی سی پارٹی کے مقابلے میں شکست فاش حاصل کی۔ اس کے دلچسپ تجزیے چل رہے ہیں اور بحث و مباحثے نیشنل چیانلس پر چل رہے ہیں مگر ایک بات تو صاف نظر آرہی ہے کہ اگر بی جے پی فرقہ وارانہ زہرافشانی سے گریز کرتی تو اُس کا یہ حشر نہیں ہوتا ۔ اوباما کی آمد و سیر بھی ان کو راس نہیں آئی بلکہ کافی مہنگی پڑی ۔ دہلی کے نتائج فرقہ پرست تنظیموں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے اور لوگ بہتر معاشی حالات کی تلاش میں ہیں اور اُن کو سکون کی روزمرہ کی زندگی چاہئے ۔

سوین داس گپتا نامور صحافی جوکہ بی جے پی کے ہمدرد رہے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ سادھو اور سادھیوں کا کوئی سیاسی مقام نہیں ہونا چاہے اور اُن کو سیاسی اور مشترکہ سماجی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہئے ۔ اب ادتیہ ناتھ مہاراج اپنا ڈنڈا لوک سبھا ہی میں ٹھوکتے رہیں حکومت کے اندرونی نظام میں وہ داخل نہیں ہوسکتے ۔
سب سے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بی جے پی جیسی انتہائی طاقتور تنظیم اور اُن کے ساتھ آر ایس ایس وغیرہ کوئی بھی اس کی کمزوری کا دہلی انتخابات میں اندازہ نہیں کرسکے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وزیراعظم اپنے آپ کو ان خطرناک گروہوں سے دور رکھیں گے اور اُن کی زبان پر لگام لگائیں گے۔اب سے ہر پردیش کے انتخابات انتہائی دلچسپ اور غیریقینی ہوتے جائیں گے ۔ عوام کی نبض کا اندازہ لگانا کسی بھی ماہر سے ممکن نہیں ہے ۔