رسول اللہؐ کے آزاد کردہ غلاموں میں حضرت شقرانؓ کی نمایاں حیثیت

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس،ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کے لکچرس

حیدرآباد 28 فروری (پریس نوٹ) رحمۃ للعلمینؐ نے آقا و غلام کے فرق و امتیاز کو عملاً ختم کر دیا ایمان اور اسلام کی بنیاد پر انھیں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ حضور انورؐ کو یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی غلاموں کو غلام کہہ کر پکارے اسی لئے حضورؐ نے یہ ہدایت فرمائی کہ کوئی اپنے غلام کو میرا غلام کہہ کر نہ پکارے بلکہ میرا بچہ کہے تا کہ انھیں ذلت و بے عزتی کا احساس نہ ہو۔ رسول اللہؐ کثرت سے غلاموں کو آزاد فرمایا کرتے تھے لیکن آزادی کے باوصف وہ تمام سرکار دو عالمؐ کی رحمت و محبت، شفقت و مہربانی اور احسان و کرم کی نورانی بندش سے خود کو چھڑانا نہیں چاہتے بلکہ ہمیشہ حضورؐ کے سایہ کرم میں رہنے کو ترجیح دیا کرتے تھے انہی خوش مقدر لوگوں میں حضرت صالح حبشی المعروف بہ شقرانؓ بھی تھے جنھیں حضور اقدسؐ نے خرید کر آزاد کر دیا تھا لیکن انھوں نے اپنی آزادی کے باوصف کبھی بھی حضورؐ کا در رحمت نہیں چھوڑا۔ان حقائق کے اظہار کے ساتھ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۱۱بجے ’’میلاد محل‘‘ علیون باغ، ازراچٹم پلی،نزد سداسیوپیٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۱۸۸‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت یونس علیہ السلام کے مقدس حالات اور ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میں صحابی رسول اللہؐ حضرت شقرانؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے اجلاس کا آغاز ہوا۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے بتایا کہ رسول اللہؐ کے آزاد کردہ غلاموں کے منجملہ حضرات ابو رافع اسلم، اسامہ بن زید، افلح، انسہ،ایمن، ثوبان، ذکوان، رافع، رباح، زید بن حارثہ، زید بن بولیٰ، سابق، سلمان الفارسی، ابو کبثہ سلیم دوسی،ابو کندید سعید، خمیرہ بن ابی خمیرہ، عبد اللہ بن اسلم، عبید بن عبد الغفار، فضالہ یمانی، کیسان، مہران، ابو عبد الرحمن(سفینہ)، مدعم، نافع،ابو بکرہ نفیع، نبیہ، واقد، ہشام، یسار، ابو الحمراء، ابو رافع، ابو السمع، ابو ضمرہ سعد، ابو عبید مزنی، ابو واقد، کرکرہ، مابور، ابو لبابہ، ابو لقیط، ابو ہندی مولدی، انجشہ، باذام، بدر، زید بن ہلال، سندر، شمعون، غیلان، نفیر، سنیہ، نہیک، ابو اثیلہ، ابو البشیر، ابو قبیلہ، ابو الیسراور صالح المقلب بہ شقران رضی اللہ عنہم تھے ۔ ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے کہا کہ غلامان رسول اللہؐ کی تعداد ا س سے کہیں زیادہ ہے جنھیں حضور انورؐ نے آزاد فرمایا ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بوقت وفات شریف حضور اکرمؐ نے چالیس غلاموں کو آزاد فرمایا۔ رسول اللہؐ کے غسل اقدس میں حضرت عباس بن عبد المطلبؓ، حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت عباس ؓ کے صاحبزادوں حضرات فضلؓ و قثم  ؓ کے ساتھ حضرت اسامہؓ بن زید اور حضرت شقرانؓ دونوں کو حاضر رہنے کا شرف نصیب ہوا۔رسول اللہؐ نے حضرت شقرانؓ کو حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ سے مول لیا تھا اور حضورؐ نے انھیں غزوہ بدر کے بعد آزاد کر دیا تھا۔ بعض ارباب سیر کا کہنا ہے کہ حضور اکرمؐ اپنے والد ماجد سے شقران اور ام ایمن کے وارث ہوے تھے۔ حضرت شقرانؓ کو اگر چہ کہ غزوہ بدر میں حاضری کا موقع ملا تھا لیکن انھیں سہم یعنی غنیمت کا حصہ نہ دیا گیا وہ اس وقت غلام تھے لیکن وہ بدر کے قیدیوں پر محافظ تھے اور جو کوئی فدیہ دیتا اس میں سے کچھ حضرت شقرانؓ کو مرحمت فرما دیتے تھے۔ اس طرح ان کو اتنا کچھ حاصل ہو گیا جتنا دوسروں کو سہم میں نہ ملا تھا۔ ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے بتایا کہ حضرت شقرانؓ کی نسل کے آخری شخص مدینہ منورہ میں خلیفہ ہارون رشید کے عہد میں موجود تھے۔ حضرت شقرانؓسے مروی ہے کہ انھو ںنے رسول اللہؐ  کو خیبر تشریف لے جاتے ہوے دراز گوش پر سوار دیکھا تھا اور حضورؐ اس پر اشارے سے نماز پڑھ رہے تھے۔