رحمن جامی کا مجموعۂ کلام

ڈاکٹر سید بشیر احمد
رحمن جامی حیدرآباد کے بزرگ شعراء میں ایک پرگو شاعر کی حیثیت سے مقبولیت رکھتے ہیں ۔ ان کا نام عبدالرحمن تخلص جامی اور قلمی نام رحمن جامی ہے ۔ وہ 8 اکتوبر 1934 کو ریاست حیدرآباد کے ضلع محبوب نگر میں پیدا ہوئے ۔ وہ کثیر التصانیف شاعر کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتے ہیں ۔ اب تک ان کے لگ بھگ 12 شعری مجموعے زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں اور ان سب پر انعامات واعزازات نوازے گئے ہیں ۔ سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد سے محمد یونس نے 1999 میں ان کی شخصیت اورکلام پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔ عائشہ صدیقہ نے 2004 ء میں سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ’’رحمن جامی کی شاعری میں فنی اور ہیتی تجربے ۔ ایک تنقیدی مطالعہ‘‘ عنوان پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ وہ مختلف انجمنوں سے وابستہ رہے اور ان کی حرکیاتی شخصیت سے اہل اردو نے بھرپور استفادہ کیا ۔

ضلع رائچور جو ریاست حیدرآباد میں سونے کی کان کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے ، جامی صاحب کا وطن ہے ۔ زیر نظر مجموعہ کلام ’’کیف‘‘ ان کے عہد شباب کے کلام کا مجموعہ ہے جو 2008 میں منظر عام پر آیا ۔ ظاہر ہے عہد شباب کے کلام میں کیف و سرور کے اثرات زیادہ ہوں گے۔ رحمن جامی صاحب نے اپنے اس مجموعہ کا آغاز حمد باری تعالی سے کیا ہے ۔ اس میں مسئلہ وحدت الوجود کو نہایت عمدگی سے نظم کیا ہے ۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ فرمایئے ۔
زمین بھی تو آسمان بھی تو ہے ، یہاں بھی تو ہے ، وہاں بھی تو ہے
مکیں بھی تو ہے ، مکاں بھی تو ہے ، وجود ہے بے مثال تیرا
انہوں نے حمد کے بعد نعت نظم کی ہے جس کے پڑھنے سے رسالت مآب سے ان کی والہانہ وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔
مدینہ آیا ہوں جب سے مزے میں ہوں جامیؔ
بنا ہوا ہوں یہاں مہماں محمدؐ کا

عام طور سے یہ دیکھا گیا ہے کہ بے شمار لوگوں کا ماضی رنگین ہوتا ہے لیکن زندگی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب انسان تائب ہو کر خداوند کریم کے بتائے ہوئے راستہ پر اپنا سفر شروع کردیتا ہے ۔ ایسا ہی جامی صاحب کے ساتھ ہوا ۔ ان کی ابتدائی زندگی حسین اور رنگین داستان جیسی ہے لیکن جب خداوند قدوس نے انہیں توفیق عطا فرمائی تو انہوں نے ساری رنگینیوں کو چھوڑ کر اللہ والی زندگی کو اپنالیا ۔ ان کو دیکھتے ہی ایک نورانی شخصیت کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے ۔ کسی شادی کی تقریب میں ایک عظیم تبدیلی کے ساتھ جب رحمن جامی صاحب محفل میں وارد ہوئے تو ان کے بے تکلف دوست شاہد حسین نے فنا نظامی کا ذیل میں درج شعر بلند آواز میں پڑھا۔
یہ عمارت تو عبادت گاہ ہے
اس جگہ ایک میکدہ تھا کیا ہوا

ان کے ہزارہا شاگرد موجود ہیں جو ان سے اکتساب فیض کررہے ہیں ۔ جامیؔ صاحب اپنے شاگردوں کے ناموں کا اندراج ایک رجسٹر میں کرتے ہیں ۔ جامیؔ صاحب کو دیکھنے اور ان کے شاگردوں سے شفقت اور مخصوص رویہ کی اپنائیت کے نتیجہ میں ناسخ کے دور کی رواداری اور شاگرد پسندی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ ظاہری تبدیلی کے ساتھ رحمن جامی میں باطنی تبدیلی بھی ظہور پذیر ہوئی ۔ زیر نظر مجموعہ کلام ان کے عہد شباب کی نشاندہی کرتا ہے ۔ ظاہر ہے اس دور کے کلام میں کیف اور مستی کی ساری حکایات موجود ہیں ۔ اپنی ایک غزل کے شعر میں وہ کہتے ہیں۔
ہائے آوارہ ہے جامیؔ یہ سبھی کہتے ہیں
آپ سمجھائیں اسے آپ اسے تاکید کریں

خود جامیؔ کو بھی اپنی گذشتہ طرز زندگی کا بھرپور احساس ہے اور انہوں نے اپنے زیر بحث شعری مجموعہ ’’کیف‘‘ میں برملا کہا ہے۔
دھلتے دھلتے دھل جائیں گے رسوائی کے داغ خود ہی
جلدی کیا ہے جامیؔ صاحب بیٹھ کے فرصت سے دھولیں گے
رحمن جامی کو جو بات دوسرے شعراء سے ممتام بناتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے ۔ اردو شاعری میں بعض نئے اصناف جیسے سانیٹ ، ہائیکو ، ثلاثی ، مرقعے اور اینٹی لوری وغیرہ جو دیگر زبانوں سے درآتے ہیں ان پر بھی انہوں نے طبع آزمائی کی ہے ۔ انہوں نے پابند نظم ، آزاد نظم اور نثری نظم کو صرف اعتبار ہی نہیں بخشا بلکہ رباعی جیسی مشکل صنف میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ ذیل میں ان کی ایک رباعی نمونتاً درج کی جاتی ہے ۔

کہتے ہیں کہ محروم نہیں ہے کوئی
تم سا بھی تو معصوم نہیں ہے کوئی
ویسے تو محبت کا بڑا چرچا ہے
اس لفظ کا مفہوم نہیں ہے کوئی
ان کے اس عہد شباب کے دور کی شوخی کا انداز ذیل کے شعر سے لگایا جاسکتا ہے ۔

ہر حسن بے نقاب ہے بازار حسن میں
کیا مستی شباب ہے بازار حسن میں
شعراء نے اکثر زاہد ، واعظ اور شیخ کو اپنی شاعری میں ہدف تنقید بنایا ہے ۔ جامیؔ کہتے ہیں ۔
دیکھی ہے میں نے شیخ کی گردن جھکی ہوئی
اس درجہ رعب داب ہے بازار حسن میں

رحمن جامی کا دور شباب میں لکھا ہوا ایک شعر ملاحظہ فرمایئے ۔
لہجہ کا بانکپن ہی تو ہوتا ہے اک غضب
آواز یوں تو ہوتی ہے آواز کی طرح
بہرحال ماضی کی یادیں بڑی دلفریب ہوتی ہیں جن کا واضح اظہار رحمن جامی کے کلام ’’کیف‘‘ میں موجود ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ جامیؔ نے ماضی کے کیف و سرور سے توبہ کرلی لیکن اس ماضی کا عذاب بہرحال انہیں جھنجھوڑتا ہے اور وہ پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں ۔ پچھلی زندگی کے خوف سے ماضی سے کنارہ کش ہوچکے ہیں تاہم ’’کیف‘‘ کی شاعری ان کے حسین فن کی علامت بن کر اردو کے شعری ورثہ میں اضافہ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔