راہول گاندھی ملک کو آگے لے جانے کی قابلیت سے بھرپور لیڈر

 

ظفر آغا
کانگریس پلینری اجلاس میں راہول گاندھی کی اختتامی تقریر بی جے پی-آر ایس ایس کے دم گھونٹنے والے سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند۔
اتوار کو دہلی میں اختتام پذیر کانگریس کے 84ویں پلینری اجلاس کو ان دو جملوں میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے… پہلا، سونیا گاندھی کے بعد ہی کانگریس کو راہول گاندھی کی شکل میں نیا لیڈر مل گیا ہے۔ اور دوسرا، ملک کو ایک ایسا لیڈر ملا ہے جو 21ویں صدی کے ہندوستان کو آگے لے جانے میں اہل اور قابلیت سے بھرپور ہے۔ حالانکہ موجودہ سیاسی ماحول میں ایسا بولنا ذرا خطرناک معلوم ہوتا ہے، کیونکہ گاندھی فیملی سے نفرت کرنے والے لوگ مجھے ’چمچہ‘ کہتے ہوئے مجھ پر ٹوٹ پڑیں گے۔ یہاں تک کہ لبرل طبقہ بھی مجھے نسل پرستی کا حامی قرار دے سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی کے دور کا ہندوستان نہ صرف لیفٹ جھکاؤ والے سنٹر سے ہندوتوا پر مبنی سیاست کی طرف جھکا ہے بلکہ یہ جدیدیت سے دور ہوتا ہندوستان بھی ہے۔
کانگریس پلینری اجلاس میں راہول گاندھی کی اختتامی تقریر بی جے پی-آر ایس ایس کے اس ’باسی‘ اور ’دَم گھونٹو‘ سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھی جس میں ان دونوں تنظیموں کے لیڈر ماضی کی تعریف کرتے ہوئے موب لنچنگ اور بینکوں سے عام لوگوں کے پیسے کی لوٹ میں مصروف ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اندرا گاندھی انڈور اسٹیڈیم کے اسٹیج سے کانگریس کارکنان اور ملک کو جن راہول گاندھی نے خطاب کیا، وہ ایک نئے راہول گاندھی نظر آئے۔ ان میں خوداعتمادی کے ساتھ ساتھ پختگی بھی تھی، نرم مزاجی کے ساتھ ساتھ غرور سے پاک جارحیت بھی تھی۔ ان کی تقریر میں مہذب ہندوستان کا وہ نظریہ تھا جو ہم سبھی ہندوستانیوں کو رنگارنگی کے ساتھ اپنی الگ پہچان دینے کی وکالت کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کانگریس کے بغیر ہندوستان کا تصور ادھورا ہے۔ اور یہ صرف اس لیے نہیں کہ کانگریس نے آزادی کی لڑائی لڑی اور آزادی حاصل کی بلکہ اس لیے کیونکہ کانگریس نے ہی ایک ایسے جدید ہندوستان کی بنیاد رکھی جو سب کے مفاد کو دھیان میں رکھتے ہوئے قدیم لبرل اقدار کو مانتا ہے۔

آج بی جے پی اور آر ایس ایس سے ہندوستان کے اس نظریہ کو خطرہ ہے جو صدیوں قدیم مفاد عامہ اور لبرل سوچ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ ایسے بحران کے وقت میں ملک کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو نہ صرف مہذب سماج کے اقدار کی تشکیل نو کرے بلکہ ان سبھی کروڑوں ہندوستانیوں کو حوصلہ بخشے جو لبرلزم، سیکولرزم اور ملک کے آئین میں یقین رکھتے ہیں۔ اتوار کو راہول گاندھی نے ایک ایسے ہی لیڈر کی قابلیت دکھائی جو صف اول میں کھڑا ہو کر ایسے یوتھ ہندوستان کی قیادت کر سکتا ہے جو نظریاتی طور پر کشمکش میں ہیں اور جسے نریندر مودی کے جھوٹے وعدوں نے دھوکہ دیا ہے۔ یہ ہندوستان کایوتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ لیکن صرف جذبات کو مشتعل کر کے اور تاریخی دلائل کو خواب پر مبنی جملوں میں سجا کر اسے آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
راہول گاندھی کی تقریر کو بغور سننے پر تین اہم باتیں سامنے آئیں۔ انہی باتوں میں سے اکیسویں صدی کے ہندوستان کے مستقبل کا راستہ نکلتا نظر آتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ راہول نے بالکل واضح انداز میں کہا کہ آر ایس ایس-بی جے پی سے کسی ایک طبقہ کو خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ آج کے ماحول میں آر ایس ایس-بی جے پی کے بارے میں اتنے واضح انداز میں ملک کو متنبہ کرنے کی ہمت کم لوگوں میں ہے اور راہول نے یہ ہمت دکھائی۔ راہول گاندھی کا اس قدر واضح الفاظ میں بولنا اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل اس لیے ہو جاتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنی فیملی کے بے حد قریبی لوگوں کو قربان ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو لوگ ڈرتے ہیں وہ لیڈر نہیں بن سکتے۔ راہول کی تقریر کی بے خوفی سے یہ صاف ہو گیا کہ وہ اپنی دادی اندرا گاندھی کے ذریعہ بے خوف قیادت دینے والی وراثت کے سچے حقدار ہیں۔ ایسے میں یہ بلاجھجک کہا جا سکتا ہے کہ ملک کو بالآخر ایک ایسا لیڈر مل گیا ہے جو آر ایس ایس-بی جے پی کی نفرت والی سیاست کے خلاف بے خوف ہو کر محاذ آرائی کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرے گا۔ اس ملک کے کروڑوں لوگ کب سے ایک ایسے ہی بے خوف اور بے باک لیڈرشپ کا انتظار کر رہے ہیں۔

راہول کی تقریر کی دوسری اہم بات یہ سامنے آئی کہ انھوں نے کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے میں ضروری تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس میں نہ صرف کانگریس کو ایک اصل جمہوری تنظیم بنانے کی سوچ شامل ہے بلکہ ابھرتی ہوئی صلاحیتوں اور واضح نظریہ کو پہچاننے کی صلاحیت بھی نظر آتی ہے۔ حالانکہ کانگریس سربراہ کے لیے یہ کام تھوڑا مشکل ضرور ہوگا کیونکہ پارٹی طویل مدت سے ایسے منیجروں سے گھری رہی ہے جو بغیر زمینی سیاست اور مینڈیٹ کے راجیہ سبھا کے محفوظ احاطہ میں چکر لگاتے رہے ہیں۔ یہ وقت بتائے گا کہ راہول ان پارٹی لیڈروں کو کس طرح سنبھالتے ہیں جنھیں ’اولڈ گارڈ‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن وقت کی ضرورت تو یہ ہے کہ کانگریس کو اپنی ترقی کے لیے جلد سے جلد زیادہ جمہوری شکل میں خود کو ڈھالنا ہوگا۔
اور تیسری بات جو راہول گاندھی کی تقریر سے نکل کر سامنے آتی ہے وہ ہے راہول کی ترجیحات۔ راہول گاندھی نے ملک کی معیشت اور سیاست دونوں کو ’کرونی کیپٹلزم‘ یعنی سانٹھ گانٹھ والے کیپٹلزم سے آزاد کرانے کی بات کہی ہے۔ یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے کہ ’کرونی کیپٹلزم‘ ملک کی معیشت اور جمہوری نظام کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن چکا ہے، کیونکہ یہ اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ وہ کسی پارٹی کے اقتدار میں پہنچنے کے بعد مقبول مینڈیٹ کا اغوا کرنے سے بھی نہیں جھجکتے۔ راہول گاندھی کی واضح سوچ کا اعتراف کرنا ہوگا جب انھوں نے یو پی اے-2 حکومت کے آخری دو سالوں میں ایسی ہی کسی طاقت کے اثر کی طرف اشارہ کیا۔ یوں بھی کیپٹلزم کی یہ شکل معاشی لبرلزم کے بعد کا سب سے بڑا بحران بن چکا ہے۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ اس راکشیس سے نمٹا جائے۔ اس طاقتور راکشیس کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت راہول گاندھی نے دکھائی ہے۔
دراصل راہول گاندھی نے اپنے لیے ایک خطرناک راستہ منتخب کیا ہے۔ تال کٹورا میں راہول گاندھی کی تقریر نے مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو ان کے والد راجیو گاندھی کی اس تقریر کی یاد دلا دی جو انھوں نے 1985 میں ہوئے کانگریس کے ممبئی اجلاس میں دی تھی۔ اس وقت راجیو گاندھی نے کانگریس کارکنان اور دوسرے لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سسٹم کے ’مڈل مین‘ یعنی اقتدار کے دلالوں سے ملک کو آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ اور انہی ’مڈل مین‘ یعنی اقتدار کے دلالوں نے راجیو گاندھی کی پیٹھ میں چاقو گھونپتے ہوئے بوفورس سودے کا جنّ کھڑا کیا تھا۔آج گہری جڑوں والا ’اولڈ گارڈ‘، آر ایس ایس-بی جے پی کی مشینری اور سانٹھ گانٹھ والے کیپٹلزم مل کر ایک خطرناک شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ راہول گاندھی کو اس خطرناک لابی کی سازشوں اور داؤ پیچ سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ بقیہ کام تو اس ملک کی لبرل عوام اور غریب مل کر کریں گے جو نفرت کی سیاست کے خلاف راہول گاندھی کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔