راہول کی موجودگی ، امرسنگھ کی غیر حاضری ،یو پی اسمبلی انتخابات میں غیر اہم

کانگریس یا بی جے پی متبادل نہیں، ایس پی اور بی ایس پی کے ووٹ بینک محفوظ، امن و قانون کی بے قابو صورتحال مایاوتی حکومت کو خطرہ: موہن سنگھ
نئی دہلی 10 جولائی (یو این آئی) اترپردیش میں آئندہ سال کے اوائل کے دوران ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر سیاسی ماحول ابھی سے گرم ہوچکا ہے۔ کانگریس کے جواں سال لیڈر راہول گاندھی نے حکمراں بہوجن سماج پارٹی سے مقابلہ آرائی کا محاذ کھول دیا ہے اور ریاست کی دوسری بڑی جماعت سماج وادی پارٹی نے بھی بجز چند تمام اسمبلی حلقوں کیلئے اپنے امیدواروں کو قطعیت دینے اور پارٹی یونٹوں کو ابتدائی سطح سے مستحکم بنانے کی کوشش کا آغاز کردیا ہے۔ لیکن سماج وادی پارٹی (ایس پی) نے آئندہ اسمبلی انتخابات میں راہول گاندھی کی موجودگی یا امرسنگھ کی غیر حاضری کے کسی اثرات کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے نظرانداز کردیا ہے۔ ایس پی کے ترجمان موہن سنگھ نے یو این آئی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نہیں سمجھتا کہ راہول گاندھی‘‘ اترپردیش کے ووٹروں پر کوئی اثر ڈال سکیں گے کیونکہ یوپی کے دیہاتوں میں ایس پی اور بی ایس پی کے ووٹ بینک ہنوز محفوظ ہیں‘‘۔ مسٹر موہن سنگھ نے اپنی پارٹی کے سابق جنرل سکریٹری امر سنگھ کے غیاب کو بھی کوئی اہمیت دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش نہیں رکھتے چنانچہ ان کی غیر موجودگی سے ایس پی کیلئے فرق ہوگا۔ انہوں نے کہا ممکن ہے کہ آئندہ انتخابات میں کانگریس اگرچہ شہری حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاسکتی ہے۔ لیکن دیہاتوں کی سیاست مختلف ہوتی ہے اور اس بار وہاں کے سیاسی حالات ایس پی کے حق میں ہیں۔ اس ضمن میں اپنے یقین کے بارے میں ایک سوال پر موہن سنگھ نے جواب دیا کہ 2007ء کے اسمبلی انتخابات میں ایس پی کو بی ایس پی سے بمشکل تین فیصد ووٹ کم ملے تھے لیکن نشستوں کا بھاری نقصان ہوا تھا۔ ایس پی کو 26.07 فیصد اور بی ایس پی کو 30.43 فیصد ووٹ ملے تھے تاہم ایس پی کو صرف 96 نشستیں حاصل ہوئی تطیں اور بی ایس پی نے 206 نشستوں کے ساتھ قطعی اکثریت حاصل کی تھی۔ موہن سنگھ نے کہا کہ اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایس پی کا ووٹ بینک محفوظ ہے۔ گزشتہ انتخابات میں درحقیقت حکمراں جماعت کو دوبارہ اقتدار نہ دینے کے عضر کا ملائم سنگھ یادو کو سامنا رہا۔ یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ امن و قانون کی صورتحال پر عوام ناخوش تھے اور ان کی حکومت عوام کی ان توقعات کو پورا نہیں کرسکی تھی۔ مزید برآں بی ایس پی ہی ایس پی کی اصل حریف تھی چنانچہ بشمول بی جے پی دیگر جماعتوں سے ہمدردی رکھنے والے ووٹروں نے بی ایس پی کے حق میں ووٹ دیا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ بی ایس پی ہی واحد جماعت ہے۔ جو اپنے طور پر حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔