’’رام‘‘ کا نام ’’راون‘‘ کا کام

بدامنی پھیلانے کا بھگوا کھیل،امن پسند پاس، سنگھی فیل

غوث سیوانی، نئی دہلی
ندیوں اورتالابوں کی دھرتی بنگال میں فرقہ پرستی کی آگ لگانے کی کوشش ہوئی مگر امن پسند عوام نے محبت کا ٹھنڈا جل چھڑک کر اس آگ کو سرد کردیا۔ ماحول میں زہر گھولنے کی سازشیں رچی گئیں، رابندر ناتھ ٹیگور اور قاضی نذرالاسلام کی سرزمین کو آگ وخون میں غلطاں کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر لائق مبارک باد ہیں بنگال کے امن پسند عوام جنھوں نے ثابت کردیا کہ وہ ٹیگور اور قاضی کے پیغامِ محبت کے امین ہیں، انھیں اپنی ریاست کے ذرے ذرے سے پیار ہے اور وہ بھگووادیوں کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ حالانکہ اس موقع پر بہار میں زیادہ حالات بگڑے۔ رام نومی کے موقع پر بنگال کے کچھ علاقوں میں ہنگامے ہوئے، گولیاں چلیں، بم اندازی اور پتھرباری بھی ہوئی مگرفسادات زیادہ پھیل نہیں پائے۔ حالانکہ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جب پہلے سے دنگوں کی سازشوں کا اندیشہ تھا اور گزشتہ سال بھی اس قسم کی کوششیں کی گئی تھیں تو پھر اس قدر بھی بدامنی کیوں پھیلی، جس میں تین افراد کی جانیں گئیں؟ ظاہر ہے کہ امن قائم رکھنے کے لئے کچھ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں جو بنگال کے لوگوں نے دیں۔ خاص طور پر مولانارشیدی جیسے لوگوں نے، جنھوں نے دنگائیوں کے ہاتھوں بیٹا گنوانے کے بعد بھی اشتعال کے بجائے صبر کا راستہ منتخب کیا۔

محبت کی دھرتی پر نفرت کی کھیتی
بنگال میں رام نومی کا تہوار بنگالی ہندو نہیں مناتے ہیں، بلکہ ہندی بھاشی ہندو مناتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو بنگال کے اصل باشندے نہیں ہیں بلکہ بہار، جھارکھنڈ، پوربی یوپی، راجستھان اور گجرات وغیرہ سے آکر بس گئے ہیں۔بی جے پی، ان لوگوں کے بیچ خاصی مقبول ہے اور جن علاقوں میں دنگے ہوئے ہیں، وہاں، اسی طبقے کی آبادی ہے۔حالانکہ اسی کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ آخر ممتابنرجی کب تک بچاپائینگی بنگال کو فرقہ پرستی کی آگ سے؟ یہ سوال اس لئے اٹھ رہا ہے کہ مغربی بنگال کو آگ لگانے کی بھگوا سازش کو ممتا بنرجی ، ان کی پولس اور پارٹی کیڈروں کے ساتھ ساتھ عام امن پسند لوگوں نے اگرچہ فی الحال ناکام کردیا ہے مگر فرقہ پرستوں نے اب تک ہار نہیں مانی ہے۔ حالیہ رام نومی کے موقع پر بنگال میں بڑے پیمانے پر خون خرابے کی تیاری تھی مگر وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کی سختی کے سبب سازش ناکام ہوگئی، پھر بھی کئی علاقوں میں بی جے پی، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد اور بھگوا جماعتوں نے ہتھیار بندجلوس نکالا اور بنگال کو آگ وخون میں ڈبونے کی کوشش کی۔ اس ہنگامے میں نہ صرف مکانوں اور دکانوں میں آگ لگائی گئی بلکہ کم از کم تین افراد کی موت کی خبر بھی ہے جب کہ بڑی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہیں۔ رام نومی کے موقع پر، مغربی بنگال میں پھیلنے والا تشدد کئی دن تک جاری رہا۔پرولیا، سلی گوڑی، آسنسول، رانی گنج،مرشدآباد اورشمالی چوبیس پرگنہ کے کانکی نارہ میں دنگائیوں نے ہنگامہ مچایا اور توڑ پھوڑ کی۔ کانکی نارہ میں تو مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد کا مجسمہ بھی توڑ دیا گیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار کی قوت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
فساداور فسادی
پورے صوبے میں بی جے پی اور اس سے جڑی ہنددواد? تنظیموں نے تلوار اور دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ رام نومی کا جلوس نکالا۔ اس کے بعد رام نومی پر مغری بنگال میں ریلی کے دوران ہتھیار لہرانے کو لے کر تنازع طول پکڑتا جارہا ہے۔25 مارچ کو رام نومی کے موقع پر جلوس کو لے کر بردوان ضلع کے رانی گنج علاقے میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔ آتش زنی ہوئی، بم اندازی ہوئی اور گولیاں چلیں، جس میں ایک شخص کی موت ہوگئی۔یہ نوجوان مقامی مسجد کے امام صاحب کا بیٹا تھا۔ اسی طرح بردوان ضلع میں بی جے پی کے کارکنوں کی طرف سے رام نومی پر ہنگامہ کیا گیا اور ایک مقام پر تو اس نے سیاسی رنگ اختیار کر لیا، جہاں بی جے پی کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ اس پر حملہ کے پیچھے ٹی ایم سی کارکنوں کا ہاتھ ہے۔مغربی بنگال کے ضلع پرولیا میں بجرنگ دل کے کارکنوں نے تلوار لہراتے ہوئے ریلی نکالی تھی اور شرکاء نے ہاتھ میں تلوار لے کر جے شری رام کے نعرے لگائے۔

ہنگامہ سرد،سیاست گرم
مغربی بنگال میں جو کچھ ہوا، اس کے لئے مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے آر ایس ایس اور بی جے پی پر نشانہ سادھا ہے۔ ممتا نے کہا کہ ہتھیاروں پر پابندی لگائے جانے کے باوجود انہیں ریلی میں لایا گیا، کیا کسی نے کبھی رام کو بندوق اور تلوار کے ساتھ دیکھا ہے۔ ممتا بنرجی نے کہا کہ ریلی میں ہتھیار لہرانا بنگال کی کبھی روایت نہیں رہی ہے۔ انہوں نے ریاستی انتظامیہ کو ہدایت دی ہے کہ رام نومی پر نکالی گئی ریلی کے دوران ہتھیار لے کر آئے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ دوسری طرف مرکزی وزیر اور گائک بابل سپریونے ممتا بنرجی سے سوال کیاہے کہ فساد زدہ علاقوں میں انٹرنیٹ سروس کیوں روکی گئی ؟ جب کہ ممتا حکومت پر،بنگال میں تشدد کے لئے بابل سپریو نے حملہ کیا اور اسے ’’جہادی حکومت ‘‘قرار دیا۔سپریو نے اس بارے میں ٹویٹ کیا اور لکھا کہ وہ’’ جہادی حکومت‘‘ کو دکھائیں گے کہ بنگال کی روح اب بھی زندہ ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا پر سینکڑوں فوٹو وائرل ہو رہے ہیں، جن میں سے اگر 25 فیصد بھی درست نکلے تواس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حالات کتنے خراب ہیں۔سپریو نے فون پر اس سلسلے میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے بھی بات کی ہے۔جب کہ مرکزی حکومت نے بھی دنگوں کے معاملے پر ریاستی حکومت سے رپورٹ طلب کی ہے۔اس کے علاوہ، مرکزی حکومت نے ریاستی حکومت کو کہا ہے کہ اگر اسے پارا ملٹری فورسیز کی ضرورت ہو تومرکز فراہم کرسکتا ہے،تاہم، بنگال حکومت نے مرکز کی پیشکش قبول نہیں کی ہے۔
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
مغربی بنگال کے عوام کے مزاج کو جاننے والے بخوبی آگاہ ہیں کہ بنگالیوں کے مزاج میں امن پسندی ہے اور وہ تشدد کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ یہاں کے لوگ سیکولرطبیعت کے مالک ہوتے ہیں اور انسانیت کے احترام میں یقین رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج تک اس ریاست میں فرقہ پرست جماعتوں کو کامیابی نہیں مل پائی۔ گزشتہ دنوں یہاں کے مالدہ ضلع سے ایک خبر آئی تھی جس کا تذکرہ یہاں برمحل ہوگا۔ یہاں ہندو، مسلم بھائی چارہ کی شاندار مثال، تب سامنے آئی، جب مسلم اکثریتی علاقے میں مسلمانوں نے چندہ کرکے ایک غریب ہندو لڑکی کی شادی کرائی۔ سرسوتی چودھری نامی اس لڑکی کے والد تری جل چودھری کا تین سال قبل انتقال ہوگیا تھا۔ تب سے خاندان کسمپرسی کا شکار تھا اور مشکل سے روزی روٹی چلاتا تھا۔ ایسے میں سرسوتی کی شادی دشوار تھی مگر مقامی مدرسے کے پرنسپل مطیع الرحمٰن اس کی مدد کے لئے سامنے آئے اور علاقے کے مسلمانوں کے بیچ چندہ جمع کرکے اس کی شادی کرائی۔ جس لڑکے سے شادی ہوئی ہے، اس کا نام تپن چودھری ہے اور یہ معاملہ خان پور گاؤں کا ہے۔ اس علاقے میں مسلمانوں کے تقریباً چھ سو گھر ہیں جب کہ ہندووں کے صرف آٹھ گھر ہیں۔ سرسوتی کے کل پانچ بھائی بہن ہیں اور اس کی ماں سوارانی مشکل سے گھر کے اخراجات چلاتی ہیں۔ مطیع الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اس شادی میں ان کا ساتھ دیاان کے پڑوسی عبدالباری، امدادالرحمٰن،جلال الدین اور شہیدالاسلام نے۔ ان سبھوں کا ماننا تھا کہ سرسوتی ان کے لئے بیٹی کی طرح ہے اور ان کا فرض ہے کہ اس کی شادی کا انتظام کریں۔ یہ واقعہ ایک مثال ہے ورنہ بنگال میں قومی یکجہتی کی بہت سی مثالیں دیکھنے کو مل جائیں گی۔

سنگھ پریوار کے خلاف بیداری کی ضرورت
سنگھ پریوار مغربی بنگال کے امن وامان کو آگ لگانے کے درپے ہے اور ممتا بنرجی کے قلعے کو ڈھانے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔اس کے لئے لگاتار اس کی کوششیں جاری ہیں اور زمینی سطح پر، وہ کام کر رہا ہے۔ یہ بات بہتوں کے لئے حیران کن ہوسکتی ہے مگر سچ ہے کہ گزشتہ دنوں وشو ہندو پریشد نے ممتا کی ناک کے نیچے سندربن علاقے میں بجرنگ دل کے ورکروں کو فوجی ٹریننگ دی۔ یہ ٹریننگ کس لئے دی جاتی ہے سب جانتے ہیں۔ بجرنگ دل کے ورکر فوجی ٹریننگ لے کر بارڈر پر لڑنے نہیں جاتے ، وہ چین اور پاکستان کے فوجیوں سے لوہا نہیں لیتے، بلکہ اندرون ملک ہی دنگا فساد کرتے ہیں، کمزور ہندوستانیوں کو ستاتے ہیں،کہیں ’’لوجہاد ‘‘کے نام پر تو کہیں ’’گھرواپسی‘‘ کے نام پر فرقہ پرستی کا باردو بچھاتے ہیں اور اب یہی کام وہ بنگال میں بھی کر رہے ہیں۔ظاہر ہے یہی تربیت رام نومی پر ہوئے دنگوں میں بھی کام آرہی ہے۔ سرحدی علاقوں میں نفرت انگیزی کرکے بی جے پی کی سیاسی قوت میں اضافہ کیا جارہا ہے جس کا اندازہ اس کے ووٹ میں اضافے کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے آرایس ایس نے بھی بنگال میں کئی پروگرام کئے ہیں اور اس کی شاکھائیں تیزی سے بڑھی ہیں۔اس کے اسکولوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب ،سماجی خدمت کے نام پرہورہا ہے۔ اصل میں بنگال میں کرنے کا کام یہ ہے کہ حکومت اور سیاسی پارٹیوں فرقہ پرستوں کو بڑھنے سے روکیں اور عام لوگوں کے اندر بیداری پیدا کرنے کی کوشش بھی کریں۔ سنگھ پریوار نے بنگال میں اس لئے بھی زور لگا رکھا ہے کیونکہ پنچایت انتخابات اسی سال مئی میں ہونے والے ہیں اور اس الیکشن میں سبھی پارٹیوں کی زمینی قوت کا امتحان ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ لوک سبھا انتخابات بھی زیادہ دور نہیں ہیں۔