رافیل معاملت پر اعتراضات وزیر فینانس کا رول

یشونت سنہا
اخبار ’دی ہندو‘ کے شائع کردہ ’مسروقہ‘ دستاویزات کے ذریعہ یہ قطعی طور پر مسلمہ ہوچکا ہے کہ فرانسیسی فرم ڈسالٹ کے ساتھ 36 رافیل لڑاکا طیاروں کیلئے مذاکرات منعقد کرنے کیلئے ذمہ دار ہندوستانی مذاکرات ٹیم کے تین ارکان نے جون 2016ء میں ڈپٹی چیف آف ایئر اسٹاف اور صدرنشین ہندوستانی مذاکرات ٹیم کو پیش کردہ نوٹ میں معاملت کے بعض شرائط و ضوابط پر سنگین نوعیت کے اعتراضات اٹھائے تھے۔ ان اعتراضات پر میڈیا اور دیگر گوشوں میں کافی مباحث ہوئے ہیں، لیکن چند سنگین اعتراضات کا یہاں ایک مددگار کی یادداشت کے طور پر تذکرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلا اعتراض یہ رہا کہ فرانسیسی حکومت کی پیشکش کے مطابق قطعی قیمت معیاری قیمت سے 55.6% سے زائد ہے۔ قطعی قیمت کافی بڑھا کر طے کی گئی ہے جبکہ معیاری قیمت ٹھوس اور طے شدہ تھی۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ فرانسیسی حکومت نے جس قیمت کی پیشکش کی ہے اس کی ذمہ داری مسلمہ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ فرانسیسی حکومت کی پیشکش والی قطعی قیمت کو ایم ایم آر سی اے آفر سے تقابل میں ’’بہتر شرائط‘‘ نہیں سمجھا جاسکتا ہے اور اس لئے اس مشترکہ بیان کے تقاضہ کی تکمیل نہیں ہورہی جو ہندوستانی وزیراعظم اور فرانسیسی صدر کے درمیان میٹنگ کے بعد جاری کیا گیا تھا۔ مذاکرات ٹیم کے ارکان نے جو تیسرا اعتراض اٹھایا وہ یہ ہے کہ این آر سی کے تئیں 1400 ملین یورو کی اضافی تجارتی تجویز جو آئی ایس ای (انڈین اسپسیفک اِنہانسمنٹس) کے ڈیزائن اور ڈیولپمنٹ کیلئے بے حد اور غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ چوتھا مسئلہ اقتدار اعلیٰ یا حکومتی ضمانت سے متعلق ہے جس کے نتیجے میں دونوں فریقوں کو لاگت کی بچت ہوتی۔ فرانسیسی فریق نے نہ تو مقتدر اعلیٰ؍ حکومتی ضمانت فراہم کرنے پر اتفاق کیا اور نہ ہی بینک گیارنٹی پر راضی ہوا، حتیٰ کہ وہ اس عنصر کی وجہ سے قیمت میں متناسب کٹوتی کرنے کی پیشکش بھی نہیں کی۔ مذاکرات ٹیم کے تین ارکان نے جو پانچوں نکتہ اٹھایا وہ 36 طیاروں کی حوالگی کے پروگرام سے متعلق ہے، جو قبل ازیں ایم ایم آر سی اے طریقہ کار کے تحت فوری پرواز کے قابل ملنے والے 18 طیاروں سے سست ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آئی جی اے میں فرانسیسی فریق جو ڈیلیوری شیڈول کی پیشکش کررہا ہے وہ حد درجہ پُرامیدی پر مبنی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان مسائل کی صدرنشین ہندوستانی مذاکرات ٹیم یا پھر رکشا منتری (وزیر دفاع) کی سطح پر یکسوئی نہیں کی گئی اور آخرکار کابینی کمیٹی برائے سلامتی نے اس کی یکسوئی کی جس نے ظاہر ہے ان نہایت واجبی اعتراضات کو مسترد کردیا اور دیگر چار ارکان کی سفارشات پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جو سات رکنی مذاکرات ٹیم میں صرف ایک کی معمولی اکثریت قرار پائی۔
وزیر فینانس کا رول
ویسے وزارت فینانس نے کیا کیا؟ میں یہ سوال اس قدر تاخیر سے اٹھا رہا ہوں کیونکہ مجھے اندازہ ہوا کہ وزارت فینانس بالخصوص وزیر فینانس کا رول اہم ہونے کے باوجود انھوں نے میڈیا یا دیگر گوشوں سے بہت کم یا کوئی جانکاری حاصل کی۔ حکومت ہند کے مسلمہ طریقہ کار کے تحت کوئی بھی کابینی نوٹ کو کابینہ یا اس کی کمیٹیوں بشمول کمیٹی برائے سلامتی کے سامنے اُس وقت تک پیش نہیں کیا جاسکتا جب تک خود وزیر فینانس کی سطح پر اتفاق رائے یا وزارت کے ریمارکس کو منظوری نہیں مل جاتی۔ میں شخصی تجربے سے یہ بھی جانتا ہوں کہ مصارف کے تمام تجاویز کا وزارت فینانس میں تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے۔
فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ سے 36 رافیل لڑاکا طیاروں کی خریداری کی تجویز نہ صرف اہم تجویز رہی بلکہ سرکاری خزانہ پر زبردست بوجھ… تقریباً 60,000 کروڑ روپئے بھی اس میں شامل ہے۔ میرے ذہن میں کچھ شائبہ نہیں کہ اس تجویز پر وزارت فینانس میں محکمہ مصارف کے عہدیداروں نے جامع انداز میں غوروخوض کیا ہوگا، بالخصوص مذاکرات ٹیم کے تین اہم ارکان کے اٹھائے گئے اعتراضات کی روشنی میں ایسا ضرور ہوا ہوگا۔ کیا انھوں نے اعتراضات کی جانچ پڑتال کی اور ان میں محاسن پائے؟ کیا انھوں نے اعتراضات کو معمولی یا کوئی اہمیت نہ دے کر خارج کردیا؟ یا انھوں نے وزیر دفاع کی بات سے اتفاق کیا اور وزیر فینانس کو سفارش پیش کردی کہ اس مسئلہ کو یکسوئی کیلئے کابینی کمیٹی برائے سلامتی سے رجوع کردینا چاہئے؟ اس مسئلہ پر وزیر فینانس نے کیا موقف اختیار کیا؟
وزیر فینانس کابینی کمیٹی برائے سلامتی کا اہم رکن ہوتا ہے خاص طور پر معاملہ جب مالی مسائل کا درپیش رہتا ہے۔ یہ ایک ذمہ داری ہوتی ہے جو وزارت پر حکومت ہند کے Transaction of Business Rules اور General Financial Rules کی جانب سے عائد کی جاتی ہے۔ وزیر فینانس اس ذمہ داری سے اپنا دامن نہیں جھاڑ سکتے، چاہے کتنا بھی ناگوار کیوں نہ ہو۔ اُن کیلئے ایسا کہہ دینے کی آزادی بھی نہیں کہ وہ سرکاری سطح پر اٹھائے گئے اعتراضات کی یکسوئی سے قاصر ہیں، جسے قطعی فیصلہ ساز ادارہ یعنی کابینی کمیٹی برائے سلامتی کی جانب سے کیا جانا چاہئے۔ لہٰذا وزیر فینانس نے کیا موقف اختیار کیا؟ کیا انھوں نے تمام یا بعض اعتراضات کی حمایت کی جن کو کابینی کمیٹی برائے سلامتی نے مسترد کردیا؟ اگر وہ ان اعتراضات کو اجاگر کرنے میں ناکام رہے تو اسے ان کی طرف سے ڈیوٹی کے تئیں سنگین لاپرواہی سمجھا جانا چاہئے۔
وزارت فینانس بالعموم دیگر وزارتوں کی پیش کردہ مصارف تجاویز کو قدامت پسندانہ انداز میں دیکھتی ہے، ان کا جامع طور پر جائزہ لیتی ہے اور اکثر تجاویز میں ردوبدل کرتی یا ان کو بالکلیہ مسترد کردیتی ہے۔ منسٹری آف فینانس کے آفیسرز کو ایسے کام کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس لئے یہ نہایت غیرممکن ہے کہ انھوں نے رافیل معاملت کے تعلق سے مذاکرات ٹیم کے ارکان کے اٹھائے گئے نہایت واجبی اعتراضات کو نظرانداز کردیا ہو اور انھوں نے ایسا نہیں کیا تو پھر وزیر فینانس کی سطح پر کیا ہوا؟ ان اعتراضات پر انھوں نے کیا موقف اختیار کیا؟
اخبار’ ہندو‘ کے شائع کردہ فائل نوٹ میں یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ پی ایم او فرانس کے ساتھ متوازی مذاکرات چلا رہا تھا جس پر وزارت دفاع کے عہدیداروں نے اعتراض کیا۔ یہ اعتراض پوری طرح واجبی رہا کیونکہ وزیراعظم اور اُن کے دفتر کا دفاعی حصولیابی میں کوئی رول نہیں ہوتا تاوقتیکہ معاملہ کابینی کمیٹی برائے سلامتی سے رجوع کیا جائے۔ تب تک اُن کا رول صرف اتنا ہی اہم ہے جتنا وزیر داخلہ یا وزیر امور خارجہ کا رول ہوتا ہے، جو کابینی کمیٹی برائے سلامتی کے دیگر دو ارکان ہیں۔ لیکن دو وزراء جن کا رول اُس مرحلے تک پہنچنے سے قبل کلیدی ہے، وزیر دفاع اور وزیر فینانس ہیں۔ زیربحث معاملت میں یہی دو وزراء ہیں جنھوں نے ملک کو ناکام کیا، بالخصوص وزیر فینانس جن پر یہ یقینی بنانے کی ذمہ داری عائد ہے کہ حکومتی فنڈز سوجھ بوجھ سے خرچ کئے جائیں اور ضائع نہ کئے جائیں۔ وزیر فینانس جو اَب حکومت کے اعلیٰ بلاگر ہیں، انھوں نے نہ صرف ملک کی معیشت برباد کردی بلکہ وہ رافیل معاملت میں ڈیوٹی سے سنگین نوعیت کی غفلت کے مرتکب بھی ہیں۔ (غیرسچ مستقل نہیں ہوتا) صرف سچ ہی مستقل ہوتا ہے اور سچائی کی ایک خراب عادت ہے کہ بن بلائے غلط وقت پر اُبھر آتی ہے۔
(یشونت سنہا ہندوستان کے سابق وزیر فینانس ہیں)۔