راجندر سنگھ بیدی 1982-1915 

میرا کالم مجتبیٰ حسین
راجندر سنگھ بیدی کو کون نہیں جانتا ۔ بیدی صاحب بھی اپنے آپ کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، جبھی تو خود کو ’’چوٹی‘‘ کا ادیب کہتے ہیں اور بجا کہتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو انہیں دیکھ لیجئے۔ وہ سرتاپا ’’چوٹی‘‘ کے ادیب ہیں۔
بیدی صاحب کو ہم نے 1967 ء میں مزاح نگاروں کی ایک کانفرنس کی صدارت کرنے کیلئے بلایا تھا ۔ اُن کی عادت ہے کہ کوئی کام کرنے سے پہلے بہت سوچ بچار کرتے ہیں ۔ چاہے سوچ بچار سے کام بگڑ ہی کیوں نہ جائے ، لہذا وہ عادتاً سوچتے رہے کہ انہیں مزاح نگاروں کی کانفرنس کی صدارت کے لئے بلانے کی آخر وجہ کیا ہے ۔ بہت سوچا لیکن کوئی معقول وجہ اُن کی سمجھ میں نہ آئی۔ لیکن اسی بیچ اتفاقاً اُن کی نظر آئینے پر جو پڑی تو انہیں آئینے میں وہ ’’معقول وجہ‘‘ نظر آگئی۔ فوراً رضامندی کا خط لکھا کہ میں اس کانفرنس میں آرہا ہوں۔ دروغ برگردنِ راوی بیدی صاحب جب بھی کسی مسئلہ پر سوچنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو آئینہ ضرور دیکھ لیتے ہیں اور منٹوں میں فیصلہ کرلیتے ہیں۔ اس نسخے سے ہم نے بھی بارہا فائدہ اُٹھایا ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی اہم فیصلہ کرتا ہوتا ہے تو ہم آئینہ نہیں دیکھتے بلکہ بیدی صاحب کی تصویر کو دیکھ لیتے ہیں۔ پھر دلچسپ بات یہ ہوئی کہ انہوں نے کانفرنس کی صدارت کو قبول کرنے کا جو خط ہمیں روانہ کیا تھا اسکے ساتھ بھی ایک حادثہ پیش آیا ۔ یہ خط تھا تو ہمارے نام لیکن پوسٹ مین نے اسے ہمارے گھر سے چار کیلو میٹر دور رہنے والے ایک ایسے شخص کے گھر میں پھینک دیا جس کا نام تک ہمارے نام سے مشابہ نہیں تھا ۔ آج تک یہ وجہ سمجھ میں نہ آسکی کہ بیدی صاحب کا خط آخر کس طرح اس شخص کے پاس پہنچا تھا ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ان دنوں ہماری شہرت چار کیلو میٹر کی دوری تک پھیل چکی تھی ۔ پھر اس شخص نے خط کو کھول کر یہ پتہ چلا لیا تھا کہ یہ خط اردو کے عظیم المرتبت ادیب راجندر سنگھ بیدی کا ہے۔ سو اس نے اس خط کو بڑے اہتمام کے ساتھ ہماری خدمت میں یوں پیش کیا جیسے پرانی نسل اب نئی نسل کو ورثہ پیش کرتی ہے ۔ ہم نے لفافے پر پتہ دیکھا ، وہ بالکل درست تھا ۔ جب کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہ آئی کہ یہ خط ہمارے ’’ محل وقوع‘‘ سے چار کیلو میٹر دور کیسے پہنچ گیا تو ہم نے بھی بالآخر آئینہ دیکھا ۔ اصل وجہ تو خیر سمجھ میں نہیں آئی لیکن یہ ضرور پتہ چل گیا کہ بیدی صاحب نے محکمہ ڈاک کی ابتدائی ملازمت کیوں چھوڑدی تھی ۔ اس خط کے چند دن بعد بیدی صاحب خود بہ نفس نفیس ’’صدارت‘‘ کرنے کیلئے حیدرآباد چلے آئے ۔ اس اندیشے کے تحت کہ کہیں بیدی صاحب بھی ہم سے چار کیلو میٹر دور ڈلیور نہ ہوجائیں ، ہم خود انہیں ریسیو کرنے کیلئے ہوائی اڈے پر پہنچے (دودھ کا جلا چھاچ کو بھی پھونک کر پیتا ہے) اُن کے ساتھ یوسف ناظم بھی تھے ۔ غالباً اسی وجہ سے بیدی صاحب کی شخصیت بڑی پرکشش اور جاذب توجہ دکھائی دے رہی تھی ۔ گرمی کے باوجود سوٹ پہن رکھا تھا ۔ سر پر سلیقہ سے پگڑی باندھے ، ہونٹوں پر پان کی سرخی کے علاوہ مسکراہٹ جمائے اپنے درمیانہ قد کو سنبھالتے ہوئے جب وہ ہماری طرف آنے لگے تو ہم حیران تھے کہ اتنے بڑے ادیب کا کس طرح استقبال کریں۔ یوں بھی اُن دنوں بڑی شخصیتوں کو ریسیو کرنے کا ہمیں کوئی خاص تجربہ نہیں تھا ۔ آج کی طرح معاملہ نہیں تھا کہ بڑی سے بڑی شخصیت کو منٹوں میں ’’ریسیو‘‘ کر کے پھینک دیتے ہیں ۔ ہم نے ان کے استقبال کے سلسلے میں کچھ جملے اپنے ذہن میں پہلے سے یاد کر رکھے تھے کہ ’’ہم آپ کے بے حد ممنون ہیں کہ آپ نے اپنی گوناں گوں ادبی اور فلمی مصروفیات کے باو جود اپنا قیمتی وقت ہمیں عطا کیا اور آپ نے اس کانفرنس میں شرکت کر کے اردو طنز و مزاح پر جو احسان کیا ہے اسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا‘‘۔ کچھ اسی قسم کے جملے تھے ، سوچا تھا کہ پہلے یہ جملہ کہیں گے اور پھر وہ جملہ کہیں گے اور اگر انہوں نے اس جملہ کا یہ جواب دیا تو فلاں جملہ کہیں گے ۔ یوسف ناظم نے ہمارا تعارف ان سے کرایا تو ہم نے جملہ نمبر 1 کہنے کی کوشش کی مگر بیدی صاحب نے چھوٹتے ہی ایک لطیفہ سنادیا ۔ ہم گڑبڑا کر رہ گئے ۔ کچھ دیر ہنسی چلتی رہی ۔ ہم نے پھر موقع کو غنیمت جان کر ان کا ’’استقبال‘‘ کرنا چاہا مگر انہوں نے پھر ایک لطیفہ سناکر ہمیں پسپا کردیا ۔ چار دن وہ حیدرآباد میں رہے مگر ہمیں ایک بھی استقبالیہ جملہ کہنے کا موقع نہ دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ حیدرآباد سے جانے لگے اور انہیں وداع کرنے کا مرحلہ آیا تو تب بھی ہمارے دل میں یہ خلش رہ گئی کہ اے کاش ہم بیدی صاحب کو ریسیو کرسکتے۔
بیدی صاحب کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ’’غیر رسمی حالت‘‘ میں رہتے ہیں۔ حسرت رہ گئی کہ کبھی انہیں ’’رسمی حالت‘‘ میں بھی دیکھا جاسکے۔ لطیفے ، پھڑکدار فقرے ، زندگی سے لبریز باتیں، زندگی سے ٹوٹ کر پیار کرنے کا اچھوتا انداز ، کھلا دل ، کھلا دماغ (پگڑی کے باوجود)۔ یہی باتیں بیدی صاحب کی شخصیت کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ کیا مجال کہ کوئی ان کی صحبت میں کوئی رسمی بات یا رسمی جملہ کہہ سکے ۔ اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ وہ رونا یادکھی ہونا جانتے ہی نہیں۔ خوب جانتے ہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ جانتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ دکھ اور رنج کے معاملے میں بھی وہ ’’غیر رسمی‘‘ ہیں۔ اُن کی ہنسی جتنی بے ساختہ ہوتی ہے اُن کا دکھ بھی اتنا ہی بے ساختہ ہوتا ہے ۔ اُن کے اسی دورۂ حیدرآباد کی ایک یاد ہمارے ذہن میں تازہ ہوگئی ۔ مزاح نگاروں کے جلسے میں تو وہ محفل کو زعفران زار بناتے رہے۔ حد ہوگئی کہ لطیفہ گوئی کی محفل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ مگر دوسرے دن ایک ادبی محفل میں انہوں نے افسانہ سنایا تو افسانہ سناتے سناتے اچانک رونے لگے ۔ بے ساختہ ہنسی تو جگہ جگہ دیکھنے کو مل جاتی ہے مگر ایسے بے ساختہ آنسو کہیں دیکھنے کو نہ ملے۔ افسانے کے آخر میں تو یہ حالت ہوگئی تھی کہ افسانہ کم سنا رہے تھے اور رو زیادہ رہے تھے ۔ ہم نے کسی افسانہ نگار کو اپنے ہی افسانے پر اس طرح روتے ہوئے  نہیں دیکھا۔ اُن کے رونے میں ایک عجیب روانی اور سلاست تھی ۔ آنسو تھے کہ بے ساختہ اُمڈے چلے آرہے تھے ۔ جلسے کے منتظمین پریشان تھے کہ ان کے رونے کو کس طرح روکا جائے ۔ پانی کے گلاس پیش کئے گئے ۔ پنکھا کچھ اور تیز چلایا گیا مگر بیدی صاحب کو کسی طرح قرار نہ آتا تھا ۔ وہ چونکہ ہمارے مہمان تھے اس لئے ہمارے دل میں یہ خیال آیا کہ ہم ڈائس پر جاکر ان سے کہیں کہ بیدی صاحب اب صبر کیجئے جو ہونا تھا وہ ہوچکا ، مشیتِ ایزدی کو یہی منظور تھا ۔ آخر آپ کب تک آنسو بہاتے رہیں گے ۔ مگر ہماری ہمت نہ پڑی کیونکہ اس وقت حاضرین بھی بیدی صاحب کے ساتھ خوشی خوشی رونے میں مصروف تھے۔ جب آدمی بہ رضا و رغبت روتا ہے تو اسے ٹوکنا نہیں چاہئے ۔ نفسیات کا یہی بنیادی اصول ہے۔ خدا خدا کر کے افسانہ ختم ہوا تو ہماری جان میں جان آئی ۔ انسان ہونے کے ناطے ہم بھی ان کے افسانے کے زیر اثر مغموم تھے ۔ محفل سے نکل کر جانے لگے تو ہم نے بڑے بوجھل دل کے ساتھ ان کے افسانے کی تعریف کی ۔ اس پر انہوں نے خلافِ توقع ایک پھڑک دار لطیفہ سنادیا اور اپنے آنسوؤں کو یکلخت پیچھے چھوڑ کر آتش بازی کے انار کی طرح زندگی کی شگفتگی  میں پرواز کر گئے۔
بات دراصل یہ ہے کہ بیدی صاحب ہمیشہ جذبوں کی سرحد پر رہتے ہیں اور سکنڈوں میں سرحد کو اِدھر سے اُدھر اور اِدھر سے اُدھر عبور کرلیتے ہیں۔ ان کی ذات ’’جھٹپٹے کا وقت‘‘ ہے۔ برسات کے موسم میں آپ نے کبھی یہ منظر دیکھا ہوگا کہ ایک طرف تو ہلکی سی پھوار پڑ رہی ہے اور دوسری طرف آسمان پر دھلا دھلایا سورج چھما چھم چمک رہا ہے ۔ اس منظر کو اپنے ذہن میں تازہ کرلیجئے تو سمجھئے کہ آپ اس منظر میں نہیں، بیدی صاحب کی شخصیت میں دور تک چلے گئے ہیں۔ اُن کی ذات میں ہر دم سورج اسی طرح چمکتا ہے اور اسی طرح ہلکی سی پھوار پڑ رہی ہوتی ہے۔ ایسا منظر شاذ ونادر ہی دکھائی دیتا ہے اور یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ بیدی صاحب جیسی شخصیتیں بھی اس دنیا میں شاذ و نادر ہی دکھائی دیتی ہیں۔
اردو میں ایک لفظ ’’رقیق القلب‘‘ ہوتا ہے ۔ ہم ایک عرصہ سے اس لفظ کو کسی موزوں شخصیت کے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے مگر ہمیں آج تک ایسا شخص نہیں ملا تھا ۔ اگر خدانخواستہ بیدی صاحب سے ہماری ملاقات نہ ہوتی تو ہم اردو زبان کے اس لفظ کو کبھی استعمال نہ کرپاتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم اس لفظ کے املا تک بھول چکے تھے ۔ چنانچہ اس وقت بھی لغاتِ کشوری کو دیکھ کر اس لفظ کو لکھ رہے ہیں۔
بیدی صاحب سے بمبئی اور دہلی میں کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ہر جگہ ، ہر مقام ، ہر طول البلد اور عرض البلد پر انہیں یکساں پایا ہے ۔ جب بھی بمبئی جانا ہوتا تو ہم پہلے یوسف ناظم کے ہاں چلے جاتے جن کے پچھلے دفتر اور بیدی صاحب کے موجودہ دفتر میں Stone Throw Distance (پتھر پھینک فاصلہ) ہے۔ 1968 ء میں ہم پہلی بار اُن کے دفتر ’’ڈاچی فلمس‘’ گئے تو دیکھا کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں بیدی صاحب بیٹھے ہیں اور دفتر میں موجود لوگوں کو مٹھائی کھلا رہے ہیں۔ مٹھائی کھلانے کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ ان کی فلم ’’دستک‘‘ کی ٹیریٹری “Territory” فروخت ہوچکی ہے ۔ دو سرے سال پھر ہم گئے تو تب بھی مٹھائی پیش کی گئی ۔ پھر وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ اب دوسری ٹیریٹری فروخت ہوئی ہے ۔ تیسرے سال پھر جانا ہوا تو پھر مٹھائی سامنے آئی ، پوچھا ’’ کیا اب تیسری ٹیریٹری فروخت ہوئی ہے ؟ ‘‘ ہنس کر بولے ’’نہیں یہ پچھلے سال کی ہی مٹھائی ہے جو بچ گئی تھی ، شوق سے کھایئے ‘‘۔
اپنے دفتر میں وہ فلمی اداکاروں ، فلم ٹیکنیشنوں کے درمیان گھرے بیٹھے تھے ۔ ایسی ہی ایک محفل میں ہنسی مذاق کی باتیں ہورہی تھیں کہ کسی نے گیتا بالی کا ذکر چھیڑ دیا اور بیدی صاحب کی ذات میں چمکتے سورج کے پس منظر میں اچانک ہلکی سی پھوار برسنے لگی ۔ انہیں دیکھ کر کسی معصوم بچے کی یاد آجاتی ہے جو بیک وقت ہنستا  بھی ہے اور روتا بھی ہے۔اُن کی فلمی مصروفیات کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے البتہ اُن کی فلمیں بڑے ذوق وشوق کے ساتھ ایڈوانس بکنگ کرائے بغیر ضرور دیکھی ہیں اور یہ محسوس کیا ہے کہ ان کے ادب اور اُن کی فلموں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے ۔ خواجہ احمد عباس کی طرح نہیں کہ اُن کی فلم دیکھئے تو احساس ہوتا ہے کہ آپ بلٹز کا آخری صفحہ پڑھ  رہے ہیں اور بلٹز کا آخری صفحہ دیکھتے ہیں تو لگتا ہے آپ ان کی فلم پڑھ رہے ہیں۔ ہندی کے مزاح نگار رام رکھ منہر نے ہمیں ایک بار بیدی صاحب کا ایک لطیفہ سنایا تھا ، آپ کو بھی سنائے دیتے ہیں۔ بیدی صاحب جب ’’دستک‘‘ بناچکے تو ایک نوجوان اُن کے پاس یہ درخواست لے کر آیا کہ وہ اسے اپنی کسی فلم میں کام کرنے کا موقع دیں۔ بیدی صاحب بولے ’’بھئی ، میں نے اپنی ساری اگلی فلموں کی دس سال تک کی پلاننگ کرلی ہے اور سارے اداکاروں کا انتخاب کرلیا ہے ۔ اب تو میں تمہیں کوئی موقع نہیں دے سکتا ۔ اگر تم چاہو تو دس سال بعد آکر مجھ سے پتہ کرلینا‘‘۔ نوجوان نے واپس جاتے ہوئے کہا ’’تب تو ٹھیک ہے ۔ میں دس سال بعد پھر آؤں گا مگر یہ بتایئے آپ سے ملنے کیلئے صبح کے وقت آؤں یا شام میں ‘‘۔ مشکل یہ ہے کہ بیدی صاحب خود اپنے بارے میں لطیفے گھڑنے میں مصروف رہتے ہیں اور پھر خود ہی انہیں سماج میں چلا دیتے ہیں۔
وہ اپنی ذات کے بارے میں ہونے والے مذاق کو نہ صرف عام کرتے ہیں بلکہ اس سے لطف اندوز بھی ہوا کرتے ہیں۔ یوسف ناظم نے ایک بار اُن کی فلم ’’دستک ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے بیدی صاحب سے کہا ’’بیدی صاحب ، آپ نے یہ فلم صرف ’’دس تک ‘‘ کیوں بنائی ۔ بنانا ہی تھا تو گیارہ تک بناتے ، بارہ تک بناتے ‘‘ ۔ بیدی صاحب بہت مزہ لے کر یوسف ناظم کا تبصرہ دوستوں کو سنایا کرتے۔ اُن کی باتیں بہت دلچسپ اور بے ساختہ ہوتی ہیں۔ ایک بار دہلی کی ایک محفل میں بشیر بدر کو کلام سنانے کیلئے بلایا گیا تو بیدی صاحب نے جو میرے برابر بیٹھے تھے ، اچانک میرے کان میں کہا ’’یار ہم نے دربدر، ملک بدر اور شہر بدر تو سنا تھا یہ بشیر بدر کیا ہوتا ہے‘‘۔ میں نے زور سے قہقہہ لگایا تو اچانک یوں سنجیدہ بن گئے جیسے انہوں نے کچھ کہا ہی نہ ہو۔ سردار جعفری کے رسالہ ’’گفتگو‘‘ کے ایک شمارہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بولے ’’اس شمارہ میں ’’گفت‘‘ کم اور ’’گو‘‘ زیادہ ہے ۔ افسانہ نگار واجدہ تبسم کا جب بھی   ذکر کرتے تو مذاق میں ان کا نام ’’والدہ تبسم ‘‘ لیا کرتے۔
اُن کی کتنی باتیں اب یاد آرہی ہیں۔ دہلی میں ایک مسلمان دوست کے گھر ان کی دعوت تھی ۔ دعوت بہت پرتکلف تھی ۔ کباب کا ایک ٹکڑا منہ میں ڈال کر اس کے ذائقہ کی تعریف کرتے ہوئے بولے ’’بھئی مسلمان کا گوشت بے حد لذیذ ہوتا ہے‘‘۔
سکھوں کے جتنے لطیفے انہیں یاد ہیں اتنے شاید ہی کسی کو یاد ہوں۔ اپنے حوالے سے کہا کرتے ہیں کہ ’’لاہور میں میرے گھر کے آگے ایک بھینس بندھی رہتی تھی جس پر میرے دوستوں کو اعتراض ہوا کرتا تھا ۔ ایک دن ایک دوست نے سختی سے اعتراض کیا تو میں نے کہا بھئی ہندو کا محبوب جانور گائے ہے اور مسلمانوں کا محبوب جانور اونٹ ہے ، کیا ہم سکھوں کواپنے محبوب جانور بھینس کو پالنے کا حق نہیں ہے ‘‘۔
وہ زندگی میں یکسانیت اور یک رنگی کو بہت دیر تک برداشت نہیں کرسکتے۔ دو سال پہلے کی بات ہے ، وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ’’اردو ادب میں عصری حسیت ‘‘ کے موضوع پرایک سمینار میں شرکت کیلئے آئے تھے ۔ ہندوستان بھر کے ادیب اس سمینار میں جمع تھے اور اردو ادب میں ’’عصری حسیت‘‘ کو تلاش کرنے میں جٹے ہوئے تھے ۔ تین دن تک کچھ ایسی سنجیدگی کے ساتھ ادب میں عصری حسیت کی تلاش جاری رہی کہ ہم جیسے بھی بے حس ہوگئے ۔ بیدی صاحب کو تین دن بعد اس سمینار کا خطبۂ صدارت پڑھنا تھا ۔ بارے خدا جب انہوںنے خطبۂ صدارت پڑھا تو شگفتگی اور لطافت کے ایسے دریا بہا دیئے کہ سمینار کی ساری ’’عصری حسیت‘‘ اس بہاؤ میں تنکے کی طرح بہہ گئی ۔ جو لوگ عصری حسیت سے مغلوب ہوکر مسکرانے کو ’’غیر عصری حسیت‘‘ سمجھنے لگے تھے وہ بھی قہقہے لگانے پرمجبور ہوگئے۔ بیدی صاحب نے اپنے باغ و بہار خطبۂ صدارت کے ذریعہ لوگوں کے دماغوں سے  سمینار کے گرد و غبار کو صاف کیا اور انہیں اپنی ’’اصلی عصری حالت‘‘ پر لے آئے ۔ اگر اس سمینار کے بعد بیدی صاحب کا خطبۂ صدارت نہ ہوتا تو آج بھی بہت سے ادیبوں کی ذاتوں میں یہ سمینار بدستور منعقد ہوتا رہتا۔
ہمیں یاد ہے کہ ان کے اس خطبۂ صدارت کی داد بھی لوگوں نے اچھوتے ڈھنگ سے دی۔ یوں کہئے کہ سچ مچ ’’عصری داد‘‘ دی۔ پہلے تو لوگ بیٹھ کر تالیاں بجاتے رہے ۔ پھراچانک نہ جانے جی میں کیا آئی کہ سب کے سب اپنی کرسیوں سے اُٹھ کر تالیاں بجانے لگے ۔ پانچ سات منٹ تک تو بیدی صاحب اس داد کو ہنسی خوشی برداشت کرتے رہے لیکن اچانک ان کی ’’عصری حسیت‘‘ جاگ اٹھی اور وفورِ جذبات سے ان کی آنکھوں میں جھیل سی بہہ نکل ۔ تب تو لوگوں کو مجبوراً اپنی داد روکنی پڑی۔
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
بیدی صاحب کی ایک اور خوبی یا خرابی یہ ہے کہ وہ کبھی ’’ادب کی سیاست‘‘ کے چکر میں نہیں رہے جو کچھ لکھنا ہوتا ہے لکھ کر بے تعلق ہوجاتے ہیں۔ لوگ اُن کے ادب کو چاہے کسی خانے میں رکھ دیں اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ۔ اس ادا سے انہیں فائدہ پہنچا ہے یا نقصان ، یہ ان کے ناقد جانیں۔ بیدی صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا حافظہ خاصا کمزور ہے ۔ وہ اپنے قریبی دوستوں کے نام بھی بھول جاتے ہیں ۔ اس لئے یوسف ناظم نے بیدی صاحب کی شخصیت پر اپنے بھرپور مضمون میں بیدی صاحب کے دوستوں کو یہ مشورہ دے رکھا ہے کہ وہ جب بھی ان سے ملیں تو حفظِ ماتقدم کے طور پر اپنا نام ضرور بتادیں ، اس میں دونوں فریقوں کی عافیت ہے۔
اس مخلصانہ مشورے پر عمل کرتے ہوئے جب ہم نے پچھلی بار دہلی میں بیدی صاحب سے ملنے کے بعد اپنا نام بھی بتادیا تو بولے ’’میں جانتا ہوں آپ مجھ پر لکھے گئے ایک مزاحیہ خاکے کی بناء پر یہ حرکت کر رہے ہیں جبکہ بات ایسی نہیں ہے ۔ میرا حافظہ اتنا خراب نہیں ہے ‘‘۔ ہم نے پوچھا ’’بیدی صاحب یہ خاکہ کس نے لکھا تھا ‘‘؟ بولے ’’اس وقت لکھنے والے کا نام یاد نہیں آرہا ہے‘‘۔
بیدی صاحب کا حافظہ چاہے کتنا ہی خراب کیوں نہ ہو مگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ وہ کئی صدیوں تک آنے والی نسلوں کے حافظے میں اسی طرح قہقہے لگاتے، آنسو بہاتے اور زندگی سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہوئے موجود رہیں گے۔   (جولائی 1978ئ)