راجندر سنگھ بیدی اپنی کہانیوں کی روشنی میں

سید محمد افتخار مشرف
اردو کے ہم عصر افسانوی ادب میں پانچ بڑے نام ہیں۔ کرشن چندر ، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی ، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر، ان قلمکاروں میں سب کی اپنی اپنی انفرادیت ہے ۔ بیدی نے افسانے ، طنزیہ مضامین ، خاکے انشایئے اور دوسری چیزیں بھی لکھی ہیں لیکن ان سب میں جو چیز مشترک ہے وہ ہے بیدی کا سماجی تصور اور ان کا فنکارانہ اسلوب ہے ۔ ان کے فن میں مو ضوع مواد اور طرز پیشکش کی سطح پر بڑی رنگا رنگی دکھائی دیتی ہے جس میں حقیقت نگاری ، انقلابی رومانیت ، نفسیاتی کشمکش اور نئے فنی ادراک کا رنگ گہرا ہے لیکن ان سب میں جو چیز روح کی طرح جاری و ساری ہے وہ سماجی شعور ہے ۔ مثال کے طور پر بیدی نے بڑی فنکاری کے ساتھ اپنے افسانے ’’حیاتین ب ‘‘ میں یہ نکتہ واضح کیا ہے کہ سرمایہ دار، مزدور عورتوں کو ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر کس طرح اپنے دام قفس میں پھانستے ہیں۔ ’’آلو‘‘ میں اس رد عمل کو پیش کیا گیا ہے جو آدمی کی بنیادی ضرورتوں کے پورا نہ ہونے کے سبب ایک باشعور انسان کے ذہن اور ضمیر میں پیدا ہوتا ہے ۔ راجندر سنگھ بیدی کی کئی کہانیاں ایسی ہیں جس میں اقتصادی بدحالی کے مضر اثرات کو ابھارا گیا ہے اور محنت کش عوام کے استحصال کے بھرپور تاثر کو پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ’’معاون اور میں‘‘ کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ اس کہانی میں ایک خوددار نوجوان انتہائی تنگدستی کے باوجود اپنی شخصیت کو پارہ پارہ نہیں ہونے دیتا اور بے عزتی کی زندگی پر فاقہ کشی کو ترجیح دیتا ہے ۔

بیدی انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار محض کٹھ پتلی بننے کی بجائے انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کرتے ہیں۔ باطنی کیفیتوں کو وہ اتنی چابکدستی سے پیش کرتے ہیں کہ انسانی کردار کی نہیں ا پنے آپ کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ’’زین العابدین‘‘ بیدی کی کہانیوں میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے ۔ وہ بیکار ، اوباش اور چور ہے لیکن اپنے گرد و پیش کے کتنے ہی مہذب اور شریف لوگوں سے بہتر ہے ۔ وہ چوری کرتا ہے اور اس جرم کا اعتراف بھی کرلیتا ہے ، وہ خوب مار کھاتا ہے ، قرض لیتا ہے ، چوری کرتا ہے ، مگر ایک عجیب قسم کی ایمانداری کے ساتھ۔ اس نے کسی کا دل نہیں دکھایا اور اتنا خراب و برباد ہونے کے باوجود اس میں انسانیت کی چنگاری روشن ہے ۔ بیدی نے اپنی افسانہ نگاری کا اس وقت آغاز کیا جب اردو میں اچھی کہانیاں برائے نام تھیں اور فضاء ایک نئے فنکار کیلئے سازگار تھی کیونکہ مقابلہ نہ ہونے کے برابر تھا ۔ ان دنوں پریم چند اور ترقی پسند تحریک کے زیر اثر سماجی موضوعات بہت مقبول تھے اور اس عہد کی کہانیوں میں رومانیت ، جذباتیت اور خطابت غالب تھی۔ بیدی کی کہانیاں رومانی نہ ہوکر حقیقت پسندانہ جذباتی ہونے کی بجائے گہری سوچ کی آئینہ دار اور خطیبانہ نہ ہوکر ایک لطیف طنز کی حامل تھیں۔ انہوں نے اپنے فن کی بنیاد تخیل اور مشاہدے کے سنگم پر رکھی ۔
بیدی ایک باشعور فنکار ہیں، اس لئے بچوں کے جذبات اور بوڑھوں کی نفسیات پر ان کی یکساں نظر ہے ۔ دانہ و دوام میں پہلا افسانہ بھولا ایک ایسے معصوم بچے کی کہانی ہے جسے کہانیاں سننے کا شوق ہے ۔ ایک بار اپنے نانا سے دن میں ہانی سنتا ہے ، اگرچہ یہ جانتا ہے کہ دن میں کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں اور پھر واقعی بھولا کے مامو راستہ بھول جاتے ہیں اور آخر کار بھولا سب لوگوں کے سوجانے کے بعد انہیں تلاش کرنے کے لئے نکل پڑتا ہے ۔ یہ ایک بچے کے بھولے پن کی کہانی ہی نہیں بلکہ اس بنیادی ضرورت کی کہانی بن گئی ہے کہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ دکھائی جائے ’’دانہ و دام‘‘ کی اکثر کہانیوں میں بچہ کسی نہ کسی صورت میں مو جود ہے۔ اردو افسانے کے اولین علمبرداروں میں فیض الحسن بی اے ، علی محمود شرر یلارم ، راشد الخیری اور پریم چند کے نام لئے جاسکتے ہیں لیکن اردو افسانے کو فکر و فن اور اسلوب و مواد کے اعتبار سے پریم چند نے بلند معیار عطا کیا۔ پریم چند سے راجندر سنگھ بیدی تک اردو افسانے کا رنگ و آہنگ بدلتا رہا ۔ جہاں تک بیدی کا تعلق ہے وہ کسی ایک رجحان کے دائرے میں قید نہیں رہ سکے ۔ان کے فن کا ارتقاء مختلف سمتوں میں ہوا ہے ۔ انہوں نے ادب اور زندگی کے تعلق کو میکانکی طور پر نہیں بلکہ متحرک ، لچکدار اور سیال صورت میں قبول کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں بہت سے رجحانات ایک دوسرے میں ڈوبتے اور ابھرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ملک کی تقسیم اور فسادات نے اردو کے تقر یباً سبھی فنکاروں کو بری طرح جھنجھوڑا اور بیدی نے بھی اس موضوع پر بعض لازوال افسانے تخلیق کئے ۔ بیدی کی کہانی ’’لاجونتی‘‘ کا مرکزی کردار بابو سندر لال ہے جس کی بیوی لاجونتی ملک کی تقسیم کے ہنگامے میں پاکستان ہی میں رہ گئی ہے ۔ اس کہانی کا موضوع فسادات اور ان کی تباہ کاریاں ہیں۔ جہاں تک بیدی کا اسلوب تکنیک اور زبان کا تعلق ہے ، وہ کسی فیشن اور فارمولے کے پابند نہیں بلکہ اپنے ذاتی تجربوں اور مشاہدوں کو سماجی پس منظر میں پیش کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی کہانیوں کی روایتی تکنیک اور اس کے عناصر ترکیبی کی روایتی ترتیب نہیں ملتی۔ ان کے افسانوں کی تکنیک ان کے مواد ، موضوع اور تخلیقی تجربوں سے ابھرتی ہے۔
بیدی کی زبان خالص بول چال کی زبان ہے ، اس پر ادبیت کا رنگ غالب ہے۔ بول چال کی زبان میں ترسیلی عناصر کی فراوانی ہوتی ہے ۔ بیدی کے ذخیرہ الفاظ میں ہندی اور پنجابی کے لفظ بھی شامل ہیں جو ان لوگوں کیلئے نامانوس اجنبی اور ناقابل قبول ہیں جو افسانوں میں ادبی زبان پڑھنے کے عادی ہیں۔ بیدی نے ہندی ، پنجابی اور دوسری مقامی بولیوں کے ذخیرہ الفاظ سے استفادہ کر کے اردو کے دامن کو نئے جواہر سے مالا مال کیا ہے ۔ بیدی کو اردو کے افسانوی ادب میں بہت ممتاز مقام حاصل ہے اورایک بڑے افسانہ نگار کی حیثیت سے انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔