’’ رئیسہ ‘‘ … افسانہ

رئیسہ کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا تھا جو عام طور پر اکثر لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے، انتہائی بے رحمی سے اسے زمانے کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ رئیسہ کی طویل اور بے رنگ زندگی، ماں باپ کا نہ ختم ہونے والا دُکھ۔ بچے کی پرورش، سماج کی بے اعتنائی، خاندان والوں کا عجیب و غریب اور سمجھ میں نہ آنے والا رویہ۔ وہ کونسا دُکھ ہوگا جو ایک طلاق شدہ لڑکی کو سہنا نہ پڑتا ہو۔ زمانے بھر کی آزمائش جیسے اُس کا مقدر بن جاتی ہیں اور زندگی کا طویل سفر تنہا کٹ جاتا ہے… کوئی ہاتھ تھامنے والا نہیں ہوتا۔

اسریٰ تبسم
رئیسہ کا تعلق کسی رئیس خاندان سے تو نہیں تھا۔ ہاں کھاتے پیتے خوشحال خاندان میں وہ پیدا ہوئی تھی۔ پتہ نہیں دادی نے اس کیلئے یہ نام کیوں تجویز کیا تھا۔ جب وہ بڑی ہوئی تو چال میں رئیسانہ تمکت صاف نظر آتی۔ خوبصورت ، دراز قد، لامبے سیاہ بال، نشیلی آنکھیں۔ اندازِ خرام پر ہر کوئی چونک جاتا۔ دادی، امی اور ابا کی بے حد لاڈلی تھی، ہر فرمائش پلک جھپکتے پوری ہوتی مانو بوتل کا جن خدمت میں حاضر رہتا ہو۔ وہ کم گو بھی تھی۔ دادی کا بڑا ارمان تھا کہ رئیسہ کو کوئی شہزادوں جیسا ہی آکر بیاہ لے جائے، سو دادی کا یہ ارمان بھی پورا ہوا۔ ہوا یوں کہ ابا کے کسی بچپن کے دوست کو جو انجینئر تھے، پریسیڈنٹ میڈل ملا تھا، اکرام الدین صاحب نے ملک کے کچھ دیہاتوں اور شہروں کو انتہائی خوبصورت اور سیدھی سڑکوں سے جوڑ دیا تھا جس سے دیہاتی عوام کو آمدورفت میں کافی سہولت ہوگئی تھی۔
سمیع الدین صاحب اخبار میں خوشخبری پڑھ کر اکرام الدین سے ملنے پہنچ گئے تھے۔ برسوں بعد دونوں دوست مل رہے تھے۔ گلے لگ کر ایک دوسرے کا حال چال پوچھا، اپنے اپنے خاندان کے بارے میں ایک دوسرے کو بتایا۔
’’ بیٹا آصف الدین سعودی میں انجینئر ہے، اس کی شادی کرنی ہے۔ دونوں بیٹیوں کو بیاہ چکا ہوں، اور سب سے چھوٹا بیٹا ابھی پڑھائی کررہا ہے۔ اکرام الدین نے اپنے بچوں کے بارے میں تفصیل بتائی۔’’ میری بیٹی رئیسہ نے گریجویشن کرلیا ہے۔ اُس کی شادی کرنی ہے، دونوں بیٹے چھوٹے ہیں ابھی پڑھ رہے ہیں۔‘‘ سمیع الدین نے بھی اپنے گھر والوں کی تفصیل بتائی۔’’ تو پھر ٹھیک ہے بچپن کی رفاقت کو رشتہ داری میں بدلتے ہیں، اپنے بیٹے کے لیے میں تیری بیٹی کو مانگتا ہوں…۔‘‘ اکرام الدین صاحب نے جوش سے کہا۔ اور اپنی بیگم کو آواز دے کر اپنے بیٹے کی فوٹو بھی منگوالی۔
نہایت و جیہہ لڑکا، تصویر میں عجب شان سے مسکرا رہا تھا۔ سمیع الدین صاحب چونک گئے۔ اپنی پوتی کے لیے اماں کو جس شہزادے کا انتظارتھا وہ یہی تو تھا۔ مجھے تو لڑکا پسند آگیا ہے، میرے گھر کب آؤ گے میری لڑکی کو دیکھنے۔ سمیع الدین صاحب نے اپنی خوشی چھپاتے ہوئے کہا۔’’ تیری لڑکی…! ارے نہیں یار وہ میری بھی بیٹی ہے اور بیٹیوں کو کیا دیکھنا۔ سمجھو رشتہ پکا۔اکرام الدین نے ہتھیلی پر سرسوں جمائی۔ جس میں سمیع الدین نے بھی پورا پورا ساتھ دیا۔ دونوں کے خاندانوں کو پتہ بھی نہیں چلا، اور رئیسہ کا رشتہ آصف کے ساتھ طئے ہوگیا۔دو دوستوں کا ایک دوسرے سے کیا ہوا وعدہ تھا۔ آصف نے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ کسی طرح بابا کے دوست کی اُس انجان اَن دیکھی لڑکی سے جان چھوٹے، مگر وہ نہیں چھڑا سکا۔ بابا کے سامنے کسی کی چوں کرنے کی بھی مجال نہ تھی۔ اکرام الدین نے بیٹے کے انکار کرنے کی صورت میں عاق کرنے کی دھمکی ہی نہیں دی تھی بلکہ اپنی بیگم کو وارننگ دی تھی کہ بیٹے کا ساتھ دینے پر وہ اُن کی رفاقت سے محروم ہوسکتی ہیں۔تب بیگم اکرام نے آصف کو تسلی دی تھی کہ شریعت میں چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے، فی الحال باپ کی من مانی پر چُپ ہوجاؤ۔ بعد میں اپنی سی کرلینا۔ تب آصف نے شادی پر راضی ہونے میں ہی عافیت سمجھی، دوسری صورت میں اس کی ماں پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ سکتا تھا۔
دونوں طرف زور و شور سے شادی کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں، اُبٹن اور ہلدی نے رئیسہ کے حُسن کو نکھار دیا تھا۔ اور مایوں کے زرد جوڑے میں وہ واقعی کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ ہر کوئی رشک سے رئیسہ کو دیکھتا۔ اور ہر ماں اپنی بیٹیوں کے لئے بھی رئیسہ جیسی تقدیر کی دعا کرتی۔ رئیسہ کی وداعی پر دادی، امی اور اَبّا کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں… لوگ خوش بھی بہت تھے کہ اتنے اچھے اور قریبی لوگوں میں رئیسہ کا رشتہ طئے ہوا تھا۔
آصف نے شادی کے تیسرے دن ہی واپسی کی رٹ لگا رکھی تھی۔ تب بابا نے بھاگ دوڑ کرکے رئیسہ کے ویزا کا انتظام کروایا تھا اور اسے آصف کے ساتھ ہی روانہ کردیا تھا، انھیں بیٹے کے تیور کچھ ٹھیک نہیں لگے تھے۔ رئیسہ کو اتنی جلدی اس کے ساتھ بھیج دینے پر وہ غصے سے بَل کھاکر رہ گیا تھا۔’’ اُف! میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی آصف کہ تم اسے بھی اپنے ساتھ ہی لے آؤگے۔‘‘ آصف کی ایرانی بیوی نے تنفر سے استقبالیہ جملے کہے۔
’’ مجبور تھا ڈارلنگ، میں نے سارے حالات تمہارے سامنے رکھ دیئے تھے، اگر میں اسے لے نہ آتا تو ممی مشکل میں پر جاتیں۔‘‘ آصف نے تھکے ہوئے لہجہ میں کہا۔

’’ اب اس کا کیا کرنا ہے سوچ لو، میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تمہیں دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اسے طلاق دے کر واپس بھیج دو یا مجھے فارغ کردو۔‘‘ ایمن اپنا پرس اُٹھاکر حقارت سے رئیسہ کو دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی۔’’ سنو، سنو!! تو ایمن رُکی۔ آصف اس کے پیچھے بھاگا۔ ایمن کی گاڑی فراٹے بھررہی تھی، ایمن کی اس درجہ بے اعتنائی پر آصف بے بس ہوگیا اور اس نے اپنے بال مٹھی میں جکڑ لیے۔ رئیسہ پر اس کی نظر پڑی جو لمبے سفر کی تھکان چہرے پر لیے حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔’’ تم … ! ‘‘ اس نے دانت پیسے۔’’ ہاں میں ! غلطی سے شاید میں بھی اس ڈرامے کا کردار بن چکی ہوں مسٹر۔ میرا رول سمجھانے کی زحمت کریں گے آپ۔‘‘ وہ مکمل اجنبی بنے اپنے شوہر کی طھرف دیکھ رہی تھی۔
’’ یہ ڈرامہ میرے اور تمہارے باپ نے مل کر شروع کیا تھا، محترمہ۔ اور اب اختتام طلاق پر ہوگا۔ اور اُس کے وہ تین بول رئیسہ کی دنیا کو تہہ و بالا کرگئے۔ وہ رئیسہ تھی اس نے اپنے پاؤں کو زمین پر مضبوطی سے جمائے رکھا۔ وہ ڈگمگاکر اس بے رحم اور خود سر شخص کے سامنے خود کو کمزور ظاہر کرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ رئیسہ کے ہتھرائے ہوئے چہرے کو بے زارگی سے دیکھنے لگا۔
’’ تمہارے سامنے دو راستے ہیں، رئیسہ بیگم ۔ یا تو مستقل یہیں رہ جاؤ اور ایمن کی خدمت کرتی رہو۔ ایمن امیر ماں باپ کی یکلوتی بیٹی ہے، وہ بہت اچھی تنخواہ دے گی تمہیں۔ اگر واپس جاکر میرے اور انپے والدین کو تکلیف پہنچانا چاہتی ہو تو جاسکتی ہو۔ ابھی واپسی کا ٹکٹ کروادیتا ہوں… ویسے میں نے تمہیں ایک اچھا آفر دیا ہے … آصف کی بے نیازی اور بے حِسی عروج پر تھی… اتنا بڑا دھوکہ۔
’’ لگتا ہے دنیا سے سارے بے غیرت اُٹھ چکے تھے، تب تمہاری پیدائش ہوئی تھی ظالم انسان۔ میں تم سے کوئی سوال نہیں کروں گی، فوری میری واپسی کا بندوبست کرو۔‘‘ رئیسہ کا ضبط انتہا کو چھورہا تھا۔ یہ کیسے گھر کا انتخاب کیا تھا اس کے بابا نے کہ جہاں اسے دو گھڑی بیٹھ کر سُستانا بھی نصیب نہ ہوا تھا۔ جسے اُس نے اپنی منزل سمجھا تھا۔ وہ تو عارضی پڑاؤ بھی نہیں تھا۔ سامنے ایک طویل اور کٹھن سفر اس کا منتظر تھا۔وہ سیدھا اپنے سسرال ہی پہنچی تھی جو اب اس کا سسرال بھی نہیں رہا تھا۔’’ میں سمیع الدین کا سامنا کیسے کروں گا… بیگم۔بیگم ، یہ تمہارے بیٹے نے کیا کردیا …؟ اُف ‘‘
اکرام الدین صاحب سینے پر ہاتھ رکھے ڈھ گئے۔ وہ اپنے دوست کی پرش سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ وہ کئی سوال آنکھوں میں لیے بیگم اکرام کی طرف دیکھ رہی تھی۔ لیکن بیگم اکرام کی آنکھیں دوہرے صدمے سے اس قدر پھٹ چکی تھیں کہ وہ رئیسہ سے نظریں ملانے کے لائق رہی تھیں نہ نظر چرانے کے۔پے درپے صدموں، بھوک پیاس سے نڈھال رئیسہ اپنے مائیکے کی دہلیز پر بے ہوش ہوکر گر پڑی تھی۔ اور لیڈی ڈاکٹر نے جو خوشخبری سنائی تھی وہ رئیسہ کے گھر والوں پر بجلی بن کر گری تھی۔
رئیسہ کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا تھا جو عام طور پر اکثر لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے، انتہائی بے رحمی سے اسے زمانے کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ رئیسہ کی طویل اور بے رنگ زندگی، ماں باپ کا نہ ختم ہونے والا دُکھ۔ بچے کی پرورش، سماج کی بے اعتنائی، خاندان والوں کا عجیب و غریب اور سمجھ میں نہ آنے والا رویہ۔ وہ کونسا دُکھ ہوگا جو ایک طلاق شدہ لڑکی کو سہنا نہ پڑتا ہو۔ زمانے بھر کی آزمائش جیسے اُس کا مقدر بن جاتی ہیں اور زندگی کا طویل سفر تنہا کٹ جاتا ہے… کوئی ہاتھ تھامنے والا نہیں ہوتا۔
کتنی آسانی سے مرد اپنی مری ہوئی یا بیمار بیوی کے دو تین بچے دوسری عورت کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ مگر ایک بچہ کی جوان اور کم عمر ماں کا ساتھ انہیں کبھی قبول نہیں ہوتا۔ ظالم شوہر کی طرف سے دیئے گئے تحفے کو سینے سے لگاکر رئیسہ نے بھی مشکل ترین راہوں پر تنہا قدم بڑھانے کے لیے کمر کس لی تھی۔