ذمہ داری کا احساس آج کل کسے ہے

میرا کالم              سید امتیاز الدین
جب سے ہم نے کالم لکھنا شروع کیا ہے ، ہم اخباروں میں ایسی خبریں تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں جن کو پڑھ کر ہم حیرت زدہ رہ جائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے قارئین کو بھی ایسی خبروں سے باخبر کردیں تاکہ ان کو بھی عبرت ہو۔ جب تک ہم ملازمت میں تھے تو ہمیں اکثر دہلی کلکتہ مدراس وغیرہ سرکاری کام سے جانا پڑتا تھا اور وقت بچانے کیلئے ہوائی سفر کرنا پڑتا تھا ۔ پیسہ بچانے کا سوال اس لئے پیدا نہیں ہوتا تھا کہ سفر سرکاری خرچ پر ہوتا تھا ۔ ہمارے اعلیٰ افسر بھی چاہتے تھے کہ ہم جلد سے جلد کام نپٹاکر آجائیں اور دوبارہ کولھو کے بیل کی طرح کام پر لگ جائیں۔ جب سے ہم کو وظیفہ ہوا ہے حال یہ ہے کہ گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بلکہ سچ پو چھئے تو آج کل بعض شادیاں شہر سے اتنی دور کے شادی خانوں میں ہوتی ہیں کہ اُن میں شریک ہوکر گھر لوٹنے تک طبیعت تھک جاتی ہے ۔ خیر یہ تو ہم ایک غیر ضروری بات لے بیٹھے ۔ دراصل ہم آپ سے پاکستان انٹرنیشنل ایرلائنس یعنی پی آئی اے کی ایک فلائیٹ کا ذکر کرنا چاہتے تھے جس کے تعلق سے ایک خبر 8 مئی کے اخبار میں چھپی ہے ۔
خبر یہ ہے کہ اسلام آباد سے لندن کیلئے پی آئی اے کا ایک ہوائی جہاز پچھلے اتوار کو اسلام آباد سے نکلا۔ طیارہ کو ایک سینئر پائلٹ امیر علی ہاشمی صاحب اُڑا رہے تھے یا یوں کہئے کہ اُڑانے والے تھے ۔ ہوائی جہاز میں تین سو مسافرین سوار تھے ۔ ہاشمی صاحب کے ساتھ علی حسن یزدانی نامی ایک اور پائلٹ کو رکھا گیا تھا تاکہ اس ہوائی سفر میں وہ اُن سے تربیت یعنی ٹریننگ حاصل کرے ۔ ادھر ہوائی جہاز نے اُڑان بھری اُدھر سینئر پائلٹ نے زیر تربیت پائلٹ کو ہوائی جہاز حوالے کیا اور خود پاسنجر کمپارٹمنٹ میں  جاکر سوگئے۔ تومشق پائلٹ یزدانی اکیلا ہوائی جہاز چلاتا ہوا لندن پہنچ گیا۔ اخبار میں سینئر پائلٹ کا محوِ خواب فوٹو بھی دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف اپنے گھر میں بھی ایسی گہری نیند کا لطف نہیں لیتے ہوں گے جیسا لطف اڑتے ہوئے ہوائی جہاز میں اپنی تمام تر ذمہ داریوں کے باوجود لے رہے تھے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ امیر علی ہاشمی صاحب کو نہ تین سو مسافرین کی جان کی پرواہ تھی نہ خود اپنی جان کی ۔ اُدھر شاید ہوائی جہاز کے مسافرین اس بات سے بے خبر تھے کہ ایک نومشق پائلٹ اُن کو اس طویل سفر پرلے جارہا ہے اور تجربہ کار ہوا باز میٹھی نیند سو رہا ہے ۔ اب پی آئی اے تحقیقاتی کمیٹی بٹھا رہی ہے اور ہاشمی صاحب کو اُن تحقیقات کا سامنا ہے ۔ اگر یہی حال رہا تو آئندہ مسافرین ایر ہوسٹس سے بار بار پوچھا کریں گے کہ محترمہ ذرا بتایئے کہ پائلٹ کاک پٹ میں ہے یا بستر پر ہے ۔ ابھی کل کے اخبار میں ہم نے پڑھا کہ دو ہوائی جہاز جن میں سے ایک پٹنہ جارہا تھا اور دوسرا سری نگر ، ایک ہی رن وے پر آمنے سامنے آگئے اور ٹکراتے ٹکراتے بچے۔ ٹریفک کنٹرول  نے غلط سگنل دے دیا تھا جس کی وجہ سے حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا ۔ یہ واقعہ دہلی ایرپورٹ پر پیش آیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوائی سفر اتنا عام ہوگیا ہے کہ اب اگلی سی احتیاط نہیں رہی ۔ ہوائی سفر میں سامان کا گم ہوجانا تو عام بات ہے ۔ ایک صاحب ابھی حال میں تین دن کیلئے کہیں گئے تھے ۔ ان کا سامان تیسرے دن ملا جبکہ اُن کی واپسی کا وقت تھا۔ اس عرصہ میں وہ ایک ہی جوڑے میں ملبوس رہے۔ مشہور مزاحیہ اداکار محمود ہوائی جہاز کے مقابلے میں ٹرین کے سفر کو ترجیح دیتے تھے ۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ ٹرین کا حادثا ہو تو There you are لیکن ہوائی حادثہ ہو تو Where you are? ۔ سوال صرف احساسِ ذمہ داری کا ہے ۔ پائلٹ ہو یا ٹرین کا ڈرائیور یا بس کا ڈرائیور، سگنل یا ٹریفک کنٹرول کا آپریٹر، ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو تو کئی حادثے ٹل سکتے ہیں۔

بس ڈرائیور کی بات چلی تو ہمیں ایک اور واقعہ یاد آیا ۔ ایک بار ایک بس شہر سے نکلی ۔ تھوڑی دور جانے کے بعد اچانک بس ڈرائیور کو پیشاب کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس نے بس روکی اور قریب کی جھاڑیوں میں چلا گیا۔ بمشکل ایک منٹ گزرا ہوگا کہ اچانک بس دوبارہ چلنا شروع ہوگئی ۔ لوگ حیرت زدہ ہوگئے ۔ کنڈکٹر نے ڈرائیور کے کیبن میں جھانک کر دیکھا کہ ایک اجنبی شخص نہایت تیزی سے بس چلا رہا ہے ۔ کنڈکٹر نے پوچھا تم کون ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا کہ میں بھی ڈرائیور ہوں ۔ کچھ عرصہ سے پاگل خانے میں تھا ۔ آج ہی وہاں سے بھاگ کر آیا ہو۔ اس کے بعد اس نے ایک فلک شگاف قہقہ لگایا جس سے کنڈکٹر سمیت تمام مسافروں کے اوسان خطا ہوگئے ۔ پاگل ڈرائیور انتہائی برق رفتاری سے کہیں رکے بغیر بس چلاتارہا ۔ ایک مقام پر اس نے بس روکی اور اُتر گیا ۔ اس نے کنڈکٹر سے کہا ’’یہی میرا گاؤں ہے۔ میں جارہا ہوں۔ آگے کے سفر کا انتظام خود کرلو‘‘۔ اگرچہ تمام مسافرین پریشان تھے لیکن سبھوں نے اطمینان کی سانس لی کہ ایک پاگل سے تو نجات ملی۔ جان بچی لاکھو پائے۔
لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کے واقعات ڈاکٹروں سے بھی ہوتے ہیں۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ بعض سرجن مریض کے پیٹ میں قینچی رکھ کر بھول جاتے ہیں۔ مریض درد سے تڑپنے لگتا ہے ، تب دوبارہ آپریشن کرنا پڑتا ہے۔ ایک بڑے سرجس صاحب کو کچھ اور کام تھا تو انہوں نے اپنے اسسٹنٹ سے پوچھا کہ آپریشن کیسا رہا ۔ اسسٹنٹ نے جواب دیا ۔’’آپریشن نہایت کامیاب رہا ۔ میں نے اتنا گہرا نشتر لگایا کہ آپریشن ٹیبل کا بھی کچھ حصہ کٹ گیا۔

ایک اور ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ہم نے سنا تھا کہ وہ ہاسپٹل کو اکثر بحالت نشہ آجاتے ہیں، کمپاؤنڈر اس زمانے میں نسخہ دیکھ کر دوا بناتا تھا اور گولیاں دیتا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب کو کبھی نشے کی حالت میں کوئی دوائی سمجھ میں نہیں آتی تھی تو وہ ADT لکھ کر دستخط کردیتے تھے جس کا مطلب تھا Any damn thing ۔ کمپاؤنڈر اپنی مرضی سے دوا بناکر مریض کے حوالے کردیتا ۔ شفا ہوئی ہو تو ہوجاتی ورنہ مریض پھر دواخانہ کے چکر کاٹتا۔
کبھی کبھی اُستاد شاگرد کے ذمہ بھی اہم کام کردیتے تھے ۔ علامہ شبلی نعمانی سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم لکھ رہے تھے لیکن اُن کا آخری وقت آگیا ۔ انہوں نے یہ کام اپنے قابل شاگرد سید سلیمان ندوی کے سپرد کیا ۔ سلیمان ندوی علیہ الرحمہ نے نہایت عمدگی سے یہ مقدس فریضہ انجام دیا۔
احمد شاہ بخاری پطرس  اردو کے بہت بڑے مزاح نگار تھے ۔ وہ لاہور میں انگریزی کے پروفیسر تھے ۔ (بعد میں ریڈیو میں آئے اور بہت اعلیٰ عہدوں پر بھی رہے) پروفیسری کے دنوں میں کبھی وہ اپنی کوئی کلاسس فیض احمد فیض کو بھی لینے کیلئے کہہ دیتے تھے کیونکہ پطرس کو فیض پر پورا اعتماد تھا۔
شاگرد پر اعتماد پر ہمیں خود اپنا ایک واقعہ یاد آگیا۔ 1959 ء میں ہم نے میٹرک یعنی ایچ ایس سی کا امتحان دیا تھا ۔ امتحان کے دو چار دن بعد ہمارے اردو کے استاد نے ہمیں اپنے گھر بلایا۔ کہنے لگے ’’مجھے تم پر پورا اعتماد ہے۔ اس لئے آج میں تمہیں ایک کام دینا چاہتا ہوں۔ میرے پاس اردو کے امتحانی پرچے آئے ہوئے ہیں۔ تم نے خود یہ امتحان اس سال دیا ہے ۔ ان پرچوں کا جانچنا تمہارے لئے آسان ہے ۔ چیف اگزامنر محترمہ زینت ساجدہ ہیں۔ پہلے دس پرچے جانچ کر انہیں دکھلانے ہوں گے۔ اگر وہ نمبر دینے کے طریقہ سے مطمئن ہوگئیں تو باقی پرچے اسی ڈھنگ سے جانچنا ہوگا۔ تم پہلے دس پرچے لے جاؤ بعد میں تمام جوابی بیاضات تمہارے حوالے کردوں گا۔ ہم نے اُستاد کے حسب ارشاد پورا کام کردیا ۔ ہم نے سمجھا کہ بات آئی گئی ہوگئی لیکن چار پانچ مہینے کے بعد جب ہمارے استاد کو جانچنے کا معاوضہ ملا تو انہوں نے معاوضہ کی آدھی رقم ہمارے حوالے کردی جس سے ہم کو بہت خوشی ہوئی ۔

ان سب باتوں کو قلم بند کرنے کے بعد بھی ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جب کسی کو کوئی اہم کام سپرد کیا جائے تو اُسے چاہئے کہ وہ یہ کام خود انجام دے۔ پی آئی اے کے سینئر پائلٹ نے اپنا کام ایک نومشق لڑکے کے حوالے کیا اور خود سوگیا۔ وہ تو کہئے کہ اللہ کو بحفاظت لے جانا منظور تھا ورنہ ناتجربہ کاری اور ہیبت میں کچھ بھی ہوسکتا تھا ۔ آج کل دنیا سے ذمہ داری کا احساس اٹھتا جارہا ہے ۔ کتنے ایسے ملک ہیں جہاں کی حکومتیں بڑی طاقتیں چلا رہی ہیں اور جو لوگ نام کی حکمرانی کر رہے ہیں ، وہ کسی کام کے اہل ہی نہیں۔
سرکاری دفاتر میں بھی لاپرواہی کے کئی واقعات سامنے آتے ہیں۔ آج سے آٹھ سال پہلے راجستھان میں شراب کی کم و بیش سو بوتلیں ضبط کی گئی تھیں۔ جب ان شراب کی بوتلوں کو عدالت میں پیش کرنے کیلئے کہا گیا تو خالی بوتلیں پیش کی گئیں اور عذر پیش کیا گیا کہ چوہوں نے پوری شراب پی لی ۔اگر یہ سچ ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ شراب خوری کے معاملے میں چوہے انسانوں سے اگے ہیں اور کیا عجب ایسے رندِ بلا نوش چوہے بلیوں پر حملہ آور ہوجائیں اور بلیاں چوہوں سے بھاگتی پھریں۔