ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا

میرا کالم مجتبیٰ حسین
’’سیاست‘‘ نے اپنی عمر کے پینسٹھ (65) برس پورے کرلئے ۔ اس بات پر ہمیں چھ دہائی پہلے کا وہ زمانہ کچھ اس طرح یاد آگیا جیسے یہ ابھی کل ہی کی بات ہو ۔ حالانکہ اس کے ابتدائی دور سے وابستہ کئی شخصیتیں (بشمول اس کے بانیوں عابد علی خاں اور محبوب حسین جگر کے) اپنی عمریں گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہں ۔ مجھے یاد ہے کہ ’’سیاست‘‘ کا پہلا شمارہ میں نے حیدر گوڑہ کے اس مکان میں دیکھا تھا جہاں میں جگر صاحب کے ساتھ رہا کرتا تھا ۔ میں ان دنوں آٹھویں یا نویں جماعت کا طالب علم تھا مگر علی گڑھ میٹرک کا امتحان دینے کی کوشش میں حیدرآباد میں مقیم تھا ۔ ’’سیاست‘‘ کے آغاز کے بعد جگر صاحب کے گھر آنے کا کوئی معمول باقی نہیں رہ گیا تھا کیونکہ ’’سیاست‘‘ کے دفتر میں ہی مشینوں کے برابر ایک پلنگ لگا کر رہنے لگے تھے ۔ تاہم کبھی کبھار وہ اچانک گھر چلے آتے تھے اور نہا دھو کر دفتر چلے جاتے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد میں گلبرگہ چلا گیا

۔ 1953 ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان کامیاب کرکے گریجویشن کرنے کے ارادہ سے حیدرآباد واپس آیا تو اس وقت تک جگر صاحب نے حیدر گوڑہ کا مکان چھوڑ دیا تھا اور عابد علی خاں صاحب کے گھر رہنے لگے تھے ۔ میں یونیورسٹی سے اکثر شاموں میں ’’سیاست‘‘ کے دفتر چلا آتا تھا ۔ بسا اوقات عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب فلموں پر تبصرہ لکھنے کا کام میرے حوالے کردیتے تھے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ مجھے مفت میں فلمیں دیکھنے کا موقع مل جاتا تھا ۔ کبھی کبھار چھوٹی موٹی خبروں کا ترجمہ کرنے کے علاوہ کتابوں پر تبصرہ بھی کردیا کرتا تھا ۔ گریجویشن کے بعد میں باضابطہ طور پر ’’سیاست‘‘ سے وابستہ ہوگیا ۔ 1958 ء میں میرا تقرر بحیثیت سب ایڈیٹر ہوا تھا اورمیری تنخواہ 150 روپئے مقرر ہوئی ۔ 1962 ء تک میں نے ’’سیاست‘‘ میں بحیثیت صحافی باضابطہ طور پر کام کیا ، یہ اور بات ہے کہ 1957 ء میں جب عابد علی خاں صاحب نے ’’انتخاب پریس‘‘ قائم کیا تو مجھے اس کا بھی انچارج بنادیا گیا ۔ دو چھوٹی چھوٹی ٹریڈل مشینوں اور ٹائپ کے تھوڑے سے ذخیرے کے ساتھ اس پریس کا آغاز ہوا تھا ۔ عابد علی خاں صاحب نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا کہ اس پریس سے جو بھی آمدنی ہوگی وہ پریس کی ترقی میں ہی لگائی جائے گی ۔ اس پریس کے پہلے جنرل منیجر کی حیثیت سے میں نے چار برس کام کیا اور جب اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوا تو اس وقت تک اس پریس میں دو بڑی اور عصری مشینیں (ایک جرمن اور ایک روسی) آچکی تھیں اور

اس کا شمار حیدرآباد کے ’’اے کلاس‘‘ پریسوں میں ہونے لگا تھا ۔ پریس میںکام کرنے کے علاوہ میں اخبار کا کام بھی کیا کرتا تھا ، چنانچہ جولائی 1962 ء میں جب ’’شیشہ و تیشہ‘‘ کے کالم نگار شاہد صدیقی کا اچانک انتقال ہوا تو میں اس رات اخبار کے آخری صفحہ کا انچارج تھا اور غلام حیدر بیرونی صفحہ کے انچارج تھے ۔ جب کہ ہاشم سعید نائٹ ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ شاہد صدیقی کے انتقال کی خبر چھاپ کر میں اپنے اندر ایک مزاح نگار کے پیدا ہونے کی خبر بھی ساتھ میں چھاپ رہا ہوں ۔ یہ سچ ہے کہ 1962ء کے بعد میری شناخت ایک مزاح نگار کی حیثیت سے ہونے لگی اور بحیثیت صحافی میری شناخت معدوم ہوتی چلی گئی ۔ اگرچہ مزاح نگاری اب میری واحد شناخت بن چکی ہے

لیکن اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں بحیثیت صحافی میں نے چھ سات سال کا جو عرصہ گزارا تھا اس کا ذکر کرنا میں نے ضروری جانا ۔ ایک عمر کے بعد آدمی اپنی زندگی کے معاملات کو ڈھنگ سے ترتیب دینا ضروری تصور کرتا ہے ۔ آپ نے وہ قصہ تو سنا ہوگا کہ ایک صاحب کے گھر اچانک کچھ مہمان آگئے تو انہوں نے اپنے پڑوسی کے ہاں سے چار پائی منگوائی کہ میاں تمہارے پاس کوئی فالتو چار پائی ہو تو بھیج دینا ۔ اس پر پڑوسی نے معذرت کے انداز میں کہا ’’بھیا! میرے پاس تو دو ہی چارپائیاں ہیں ، ایک پر میں اور میرا بیٹا سوجاتے ہیں اور دوسری پر میری اہلیہ اور بہو سوجاتے ہیں‘‘ ۔ اتنا سنتے ہی ان صاحب نے پڑوسی سے کہا ’’میاں ! چارپائی نہ دینا چاہتے ہو تو نہ دو ، لیکن تم لوگ اپنے گھر میں کم از کم ڈھنگ سے تو سوجایا کرو‘‘ ۔ بہرحال میں بھی اب عمر کی اس منزل میں ہوں جہاں چارپائی پر ڈھنگ سے سوجانا چاہتا ہوں‘‘ ۔

اب پچھلا زمانہ یاد آنے لگا ہے تو ’’سیاست‘‘ سے وابستہ کئی شخصیتیں یاد آنے لگی ہیں ۔ ایک صاحب تھے شیخ احمد ،’’سیاست‘‘ کے پہلے شمارے کی اشاعت سے لے کر اپنی آخری سانس تک ’’سیاست‘‘ سے وابستہ رہے ۔ یہ دفتر کے بل کلکٹر ، ہاکر ، دفعہ دار ، چوکیدار ، پیغام رساں ، اہلکار ، سب کچھ تھے گویا ’’seven in one‘‘ قسم کی چیز تھے ۔ ہر دم شیروانی میں ملبوس رہتے تھے (یہ شیروانیاں عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب کی دی ہوئی ہوتی تھیں) اس لئے شیروانی کو کبھی اپنے بدن سے نہیں اتارتے تھے ۔ میں نے انہیں کبھی شیروانی کے بغیر نہیں دیکھا بلکہ میرا تو یہاں تک خیال تھا کہ وہ نہاتے وقت بھی غالباً شیروانی کو اپنے بدن سے جدا نہیں ہونے دیتے ۔ بے حد مستعد ، چاق و چوبند ، پھرتیلے اور لپک جھپک والے آدمی تھے ۔ رومی ٹوپی بھی پابندی سے پہنا کرتے تھے ۔ دفتر کے ہر کام میں وہ دخیل رہتے تھے ۔ اشتہار کے بل وصول کررہے ہیں ،

اخبار تقسیم کررہے ہیں ، مہمانوں کو چائے پلارہے ہیں ، اخبار کا کاغذ اٹھارہے ہیں اور کبھی چوکیداری فرمارہے ہیں ۔ کوئی کام ایسا نہ تھا جو وہ انجام نہ دیتے ہوں ۔ ان دنوں جگر صاحب کا غصہ اپنے عروج پر تھا جو زیادہ تر شیخ احمد پر ہی اترتا تھا ۔ میں اور اسد جعفری شیخ احمد کو ’’سیاست‘‘ کا ’’شاک ابزاربر‘‘ (Shock Absorber) کہا کرتے تھے کیونکہ جگر صاحب کے غصے کا سارا بوجھ اکیلے شیخ احمد ہنسی خوشی اور بحسن و خوبی برداشت کرلیا کرتے تھے ۔ جگر صاحب برستے رہتے اور شیخ احمد مسکین سی صورت بنائے دونوں ہاتھ باندھے چپ چاپ کھڑے رہتے تھے ۔ چھوٹا بھائی ہونے کے ناتے بسا اوقات جگر صاحب کا غصہ مجھ پر بھی نازل ہوجاتا تھا لیکن جس صبر و تحمل کے ساتھ شیخ احمد ان کے غصہ کو برداشت کرتے تھے وہ میرے لئے قابل رشک تھا ۔ ایک دن میں نے یونہی شیخ احمد سے پوچھ لیا ، شیخ احمد تم آخر اتنے اہتمام اور جتن کے ساتھ کس طرح جگر صاحب کا غصہ برداشت کرلیتے ہو ؟ شیخ احمد نے کہا ’’میں ان کی ڈانٹ ڈپٹ کو سنتا ہی کہاں ہوں ، جو ان کے غصہ کو برداشت کرنے کا سوال پیدا ہو ۔ جیسے ہی وہ ڈانٹنا شروع کرتے ہیں ، میں اپنا دھیان کسی اور طرف لگادیتا ہوں ۔ میرا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا، البتہ ان کا غصہ یونہی ضائع ہوجاتا ہے ۔ پھر جو غصہ وہ مجھ پر اتارتے ہیں اس کا راست تعلق مجھ سے کہاں ہوتا ہے ۔ غلطی کوئی کرتا ہے اور ان کاغصہ مجھ پر اترتا ہے ۔ انہیں تو اپنا غصہ اتارنے کے لئے ایک آدمی چاہئے اور میں انہیں مل گیا ہوں ۔ جس طرح ایک زمانہ میں نوابوں کے پاس چلم بردار اور حقہ بردار ہوا کرتے تھے ، اسی طرح میں بھی جگر صاحب کا ’’غصہ بردار‘‘ ہوں ۔ یہ تو میری ڈیوٹی ہے ۔ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے‘‘ ۔ چنانچہ ہر دوسرے تیسرے دن جگر صاحب دفتر میں سب کے سامنے شیخ احمد کی کلاس لیا کرتے تھے ۔ جوں جوں ان کا غصہ بڑھنے لگتا اور جواباً شیخ احمد کی مسکینی اور حلیمی میں اضافہ ہونے لگتا تھا تو عابد علی خاں اچانک اپنی کرسی کے سامنے اخبار کھول کر بیٹھ جاتے تھے اور اخبار کے صفحات کے پیچھے مسکرانے لگ جاتے تھے ۔ شیخ احمد کویہ بھی اچھی طرح پتہ رہتا تھا کہ جگر صاحب کا غصہ جتنا بڑھے گا بعد میں اس کا صلہ بھی اتنا ہی ملے گا ۔

جگر صاحب شام کو گھر جاتے وقت بسا اوقات دن بھر کے غصہ کا معاوضہ شیخ احمد کی شیروانی کی جیب میں ڈال دیا کرتے تھے ۔ یہ جگر صاحب کی ادا تھی ۔ لیکن شیخ احمد کی ادا بھی کچھ کم نہ تھی ۔ ایک مرتبہ جگر صاحب نے پانچ چھ دنوں تک شیخ احمد کو کسی بات پر نہیں ڈانٹا تو شیخ احمد پریشان ہوگئے ۔ مجھ سے کہنے لگے ’’میں جگر صاحب کی وجہ سے فکرمند ہوں ۔ خدانخواستہ ان کی صحت تو خراب نہیں ہے ۔ کئی دنوں سے مجھے ڈانٹ نہیں پڑی‘‘ ۔ میں نے کہا ’’یہ تو اچھی بات ہے کہ تمہیں ڈانٹ نہیں پڑرہی ہے‘‘ ۔ بولے ’’مگر یہ بھی تو سوچئے کہ دوچار دن جگر صاحب مجھے نہ ڈانٹیں تو میری صحت بھی خراب ہوجاتی ہے ۔ مجھے تو جگر صاحب سے کہیں زیادہ اپنی صحت کی فکر ہے‘‘ ۔ یقین مانئے شیخ احمد جتنی زیادہ ڈانٹ کھاتے تھے اتنے ہی زیادہ صحت مند دکھائی دیتے تھے ۔ وہ جگر صاحب اور عابد علی خاں صاحب دونوں کے گہرے مزاج داں تھے ۔ دونوں کے ذہنوں میں ابھی کوئی بات آتی بھی نہیں تھی کہ شیخ احمد اسے پہلے سے محسوس کرلیتے تھے ۔ جیسے چرند اور پرند زلزلہ کے آنے سے پہلے ہی اس کی آمد کو قبل از وقت تاڑ لیتے ہیں ۔

’’سیاست‘‘ سے وابستہ ایسے کتنے ہی کردار ہیں جو اب یاد آنے لگے ہیں ۔ جیسے احسن علی مرزا ، اسد جعفری ، وہاب حیدر ، احمد معظم ، مصطفی علی اکبر، شاہد صدیقی ، مرزا حیدر حسن ، احمد رضا قادری ، ٹی این دہار ، خورشید علی ، منیر الدین (سنگساز) عبدالغفار ، عابد حسین ، ضمیر الدین (کاتب) وغیرہ ۔ ان میں کا ہر کردار ایک الگ مضمون کا طلب گار ہے ۔ (ایک پرانی تحریر)