ذبح کا اسلامی طریقہ

سوال : مغربی ممالک میں آج کل حلال حرام کا کوئی تصور نہیں عموماً گوشت حرام ہوتا ہے، بغیر ذبح کیا ہوا ہوتا ہے اور مسلمان بلا کسی پس و پیش حرام جانوروں اور بغیر ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں(الا ماشاء اللہ)۔
الحمدللہ ہمارے حیدرآباد میں حلال گوشت کا اہتمام ہوتا ہے ۔ لیکن ذبح کے وقت جو طریقہ ہونا چاہئے اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ جانوروں کو تکلیف دی جاتی ہے ۔ براہ کرم شرعی نقطہ نظر سے جانور ذبح کرنے کا اسلامی طریقہ کیا ہے اور جانوروں کو ذبح کرنے کا مقصد اور فائدہ کیا ہے بیان کریں ؟
محمد ندیم، نامپلی
جواب : ذبح کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹایا جائے کہ جانور کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ جانور کو ذبح کرنے کے لئے آلہ تیز ہونا چاہئے تاکہ وہ غیر ضروری اذیت سے محفوظ رہے ۔ بہت سے جانوروں کو ایک ہی دفعہ اکھٹا ذبح کرنا مکروہ ہے۔ اسی طرح یہ بھی مکروہ ہے کہ ٹھنڈا ہونے سے پہلے جانور کے کسی عضو کو کاٹ کر الگ کردیا جائے یا اس کی کھال اتار دی جائے۔
ذبح کی ان سب احتیاطوں میں (شرعی اصطلاح میں) ’’ حلال ‘‘ طعام کا تصور مدنظر ہے، یعنی جانور ، مجموعی طور سے زہروں سے پاک ہو اور ایسا ہو جس سے زندگی کی حالت میں کوئی کراہت یا نجاست یا کثافت خاص وابستہ نہ ہو۔ ذبح کیا ہوا جانور ہر زہریلے مادے سے پاک ہونا چاہئے اور کوشش یہ ہو کہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو اور جتنی تکلیف دی جارہی ہے اسے بشری ضرورتوں کے لئے اضطراری بات سمجھ کر ، خدا کے پاک تصور سے وابستہ کر کے ایک تمدنی اجازت کے طور پر روا سمجھا گیا ہے اور ایذا رسانی کے ہر شائبے سے پاک ہے۔

استنجاء کیلئے ڈھیلے کا استعمال
سوال : اگر استنجاء کے لئے پانی اور ڈھیلا دونوں ہوں تو ہمیں استعمال کے لئے زیادہ اہمیت کس کو دینا چاہئے ۔ کیا پانی موجود نہیں رہنے کی صورت میں ہمیں ڈھیلا استعمال کرنا چاہئے ؟
ولی تنویر ، میدک
جواب : استنجاء سے اصل مقصود نجاست کا دور کرنا ہے۔ طہارت کے لئے پانی کا استعمال پسندیدہ ہے۔ ڈھیلا اور پانی کا استعمال افضل ہے۔
نور الایضاح ص : 28 میں ہے۔ ’’ و ان یستنجی بجر منق و نحوہ والغسل بالماء احب والافضل الجمع بین الماء والحجر‘‘ ۔ اور جو لوگ طہارت کے لئے ڈھیلا اور پانی دونوں کا استعمال کرتے ہیں ان کی قرآن مجید میں تعریف آئی ہے ۔ ’’ فیہ رجال یحبون ان یتطھروا واللہ یحب المطھرین ‘‘ (التوبہ 108/9 )
(اس میں ایسے چند لوگ ہیں جو خوب پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاکی کا اہتمام کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے)
یہ آیت شریفہ مسجد قباء کی تعریف میں نازل ہوئی جس میں وہاں رہنے والے انصار صحابہ کی صفائی و ستھرائی کی تعریف کی گئی ۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ تم کیسے طہارت حاصل کرتے ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم طہارت میں پتھر اور پانی کا استعمال کرتے ہیں۔ تو آ پ نے دیگر صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا۔ ’’ فقالوا کنا نتبع الجمارۃ بالماء فقال ھو ذاک فعلیکموہ (تفسیر جلالین ص : 167 )

لون لیکر حج کو جانا
سوال : میرے شوہر اپنے آفس سے لون لے رہے ہیں۔ کیا ہم ان روپیوں سے حج کے لئے جاسکتے ہیں یا نہیں ؟ مشکور ہوں گی ؟
وجیہہ خاتون فلک نما
جواب : شرعاً صاحب استطاعت پر حج فرض ہے۔ صاحب استطاعت نہ ہو تو قرض لیکر حج کو جانا شرعاً لازم نہیں۔ البتہ قرض کو ادا کردینے کی سکت ہے تو قرض لیکر حج کو جاسکتے ہیں۔ آپ کے شوہر اپنے دفتر سے بلا سودی قرض لے کر اس رقم سے حج کو جانا چاہتے ہیں تو شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔
رشتہ طئے ہونے کے بعد ٹال مٹول کرنا
سوال : ہندہ اپنے لڑکے کی شادی کا پیام لیکر زید کے گھر آئی، زید کی لڑکی کو دیکھ کر پسند کی، اس کے بعد اپنے لڑ کے اور لڑکی کو دکھائی، وہ بھی پسند کرلئے مگر ہندہ نے شادی کیلئے دیڑھ سال کا وقت مانگا تاکہ لڑکا بیرون ملک جاکر اپنی تعلیم سے فراغت پائے، زید کے گھر والے آمادہ ہوگئے ، لڑکا بیرون ملک، قیام کے دوران بار بار لڑکی والوں سے اپنی رضامندی کا اظہار کرتا رہا۔ دیڑھ سال بعد لڑکا واپس آیا۔ شادی سے متعلق گفتگو ہوئی تو ہندہ نے مزید چھ ماہ کا وقت طلب کیا تاکہ لڑکے کو نوکری ملی جائے۔ اس مدت کو بھی لڑکی والوں نے قبول کرلیا ۔ چھ ماہ بعد ان سے رابطہ کیا گیا تو وہ اب مزید دو سال کا وقت طلب کر رہے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی دوسری جگہ پیسہ ‘ جہیز کے لالچ میں ہوں گے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایسے دھوکہ باز اور وعدہ شکن جو معصوم بچیوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں ان کیلئے شریعت میں کیا حکم ہے؟
حسان حان، ورنگل
جواب : اللہ تعالیٰ کا سورۃ المائدۃ کے آغاز میں ارشاد ہے : یایھالذین آمنوا اوفوا بالعقود (سورۃ المائد ہ) اے ایمان والو تم اپنے عہد و پیمان کو مکمل کرو اور سورہ بنی اسرائیل میں ہے : واوفوا بالعھد ان العھد کان مسؤلا (سورۃ الاء 34/ ) تم اپنے عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے بابت تم سے سوال کیا جائے گا۔
لہذا حسب وعدہ ہندہ اپنے لڑکے کی شادی، زید کی لڑکی سے انجام دیدے۔ دو سال کی مہلت کے بعد مزید دو سال کی مہلت طلب کرنا لڑکی والوں کیلئے نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے ۔اگر وہ ٹال مٹول کرتی ہے تو یقیناً وہ گنہگار ہے اور آخرت میں وہ اور اس کا لڑکا دونوں ماخوذ ہوں گے۔

صبح سویرے اٹھنا
سوال : مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلم نوجوان کاہل و سست ہوگئے ہیں، وہ رات دیر گئے دوست و احباب کے ساتھ گفتگو کرتے رہتے ہیں، دیر سے سوتے ہیں، نتیجے میں دیر سے اٹھتے ہیں، کئی نوجوان لڑکے تعلیم یافتہ ہیں، کمانے کے قابل ہیں لیکن وہ سستی و عفلت میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں ، کماتے دھماتے نہیں، دکان عموماً دیر سے کھولتے ہیں، آپ سے گزارش ہے کہ اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رہنمایانہ ارشادات سے رہبری فرمائیں۔
شمیم الزماں قادری، ملے پلی
جواب : صبح سویرے جلد اٹھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا اور صبح خیزی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پسند ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح سویرے اٹھنے والوں کے حق میں دعاء خیر فرمائی ہے۔ ’’ اے اللہ ! میری امت کو صبح کے اٹھنے میں برکت دے ‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ رزق کی تقسیم صبح سویرے ہوتی ہے۔
حضرت صخر ایک تجارت پیشہ صحابی تھے ، وہ ہمیشہ اپنا سامان تجارت صبح سویرے روانہ کرتے اور فرماتے ہیں کہ اس کی برکت سے مال کی اتنی کثرت ہے کہ رکھنے کو جگہ نہیں ملتی۔ (ابو داود، 3 ، 8 ، کتاب الجہاد 26-6 ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات صبح سویرے ہی لشکر روانہ فرماتے اور سفر بھی و دیگر اہم کاموں کو رات کے آخری حصے میں انجام دینے کی ترغیب فرماتے۔
لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ فجر کی نماز کے ساتھ ہی اپنے کام و کاج کاروبار و تجارت و دیگر اہم امور کی انجام دہی میں مشغول ہوجائیں۔ رات میں زیادہ دیر تک بلا وجہ جاگنا پسندیدہ نہیں ہے، اس سے فجر کی نماز جو کہ فرض ہے چھوٹ جانے کا ندیشہ رہتا ہے اور رزق کی تقسیم کے وقت وہ خواب غفلت میں رہتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں جلد سونے اور صبح جلد اٹھنے کی ترغیب دی ہے اور بعد نماز عشاء باہمی گفتگو و قصہ گوئی سے منع فرمایا ۔ پس فجر کی نماز ترک کرنا اور صبح دیر گئے تک سونا منحوسی ہے۔

دیور موت ہے
سوال : زینب کے شوہر بیرون ملک روزگار کے سلسلہ میں قیام کئے ہوئے ہیں ۔ زینب اپنے سسرال والوں کے ہمراہ رہتی ہے ۔ زینب کا ایک دیور بھی ہے جو بیرون ملک برسر خدمت تھا لیکن اب اپنے والدین کے پاس ہی رہتا ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ زینب کا مذکورہ دیور اپنی بھاوج کے ساتھ بے تکلفی کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتا ہے ۔ بے باکانہ کمرہ میں داخل ہوجاتا ہے اور انداز کلام بھی بے باکانہ و نامناسب رہتا ہے۔ اپنے دیور کے نازیبا و ناشائستہ طرز عمل کی اطلاع زینب نے اپنے شوہر کو کئی مرتبہ فون کے ذریعہ دے چکی ہے ۔ شوہر محترم بھی اس کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تمہارا دیور ہے تم اس کی بھاوج ہو۔ دیور و بھاوج کا ایک دوسرے سے مذاق کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ ان حالات میں زینب کو سخت خوف ہے کہ خدانخواستہ کہیں کوئی غلطی کا ارتکاب نہ ہوجائے۔ اس لئے زینب کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہئے ۔
مسکین احمد، ملک پیٹ
جواب : رشتہ دار دو طرح کے ہیں ، ایک محرم دوسرے غیر محرم ، محرم رشتہ دار وہ ہوتے ہیں جن سے ابدی طور پر نکاح حرام ہوتا ہے، جیسے والد بھائی ، چچا ، ماموں ، بھانجہ ، بھتیجہ وغیرہ ان سے خواتین کو پردہ کرنا نہیں ہے ۔ غیر محرم وہ رشتہ دار کہلاتے ہیں جن سے رشتہ نکاح ابدی طور پر حرام نہیں۔ جیسے دیور و دیگر رشتہ کے بھائی و دیگر رشتہ کے بھانجے ، بھتیجے و دیگر رشتہ کے ماموں چچا و غیرہ و دیگر اجانب کو ان سے رشتہ نکاح جائز ہے اس لئے ان سے پردہ کرنا شرعاً ضروری ہے۔ غیر محرم رشتہ داروں میں ’’ دیور‘‘ سے خاص طور پر احتیاط برتنے کی شریعت نے تاکید کی ہے کیونکہ اس سے زائد فتنہ کا اندیشہ ہے اس لئے حدیث پاک میں اس کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ خاص طور پر تنہائی کے مواقع میں اس دیور کا بھاوج سے ملنا ، بات چیت کرنا شرعاً درست نہیں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایاکم والد خول علی النساء فقال رجل یا رسول اللہ افرأیت الحمو قال الحمو الموت ۔ (بخاری شریف) (مشکوٰۃ ص : 268 ) اس کے حاشیہ ص : 5 میں ہے ۔ قولہ الحموالموت ھذہ الکلمۃ یقولہا العرب للتنبیہ علی الشدۃ والفظاعۃ … والمراد تحذیر المرأۃ منھم فان الخوف من الاقارب اکثر والفتنۃ منھم اوقع لتمسکھم من الوصول والخلوۃ من غیر نکیر۔
اس لئے دیور پر شرعاً مذکورہ در سوال امور سے سخت اجتناب لازم ہے۔ کیونکہ تنہائی کے موقع پر بھاوج کے کمرہ میں داخل ہونا و دیگر قابل اعتراض برتاؤ (مذکورہ در سوال) سخت گناہ ہے۔ بھاوج کو چاہئے کہ ہر طرح اپنی حفاطت کا بندوبست کرے جب بھی دیور گھر میں رہے وہ اس وقت اپنی ساس کے ساتھ رہے۔ شوہر پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کو غیر شرعی امور کے ارتکاب سے بچنے کی ہدایت کرے۔ اگر دیور اس کے باوجود اپنے طرز عمل سے باز نہ آئے تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیوی کی حفاظت اور اس کو باعصمت رکھنے کا مناسب انتظام کرے۔