ذات پات کی تحریک ، گجرات سیاست کے اصل دھارے میں شامل

نئی دہلی 29 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) گزشتہ سال کے نصف آخر میں مہاراشٹرا میں مسلسل قابل دید زبردست تحریکیں دیکھی گئیں ، یہ مراٹھا ذات کا عروج تھا۔ یہ ایک وقتی تحریک تھی جس کی وجہ ایک نوجوان خاتون کی عصمت ریزی اور بعدازاں اُس کا قتل تھا۔ جس کی وجہ سے مہاراشٹرا ذات اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ مبینہ طور پر جولائی 2016 ء میں 2 دلت نوجوانوں نے اِس جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ کیا ہمارے حقوق نہیں ہیں، ہم اپنا اظہار کیوں نہیں کرسکتے؟ برادری کے ایک شاکی شخص نے سوال کرتے ہوئے کہاکہ ہماری ذات پر ہمیشہ جبر ہوتا رہا ہے۔ تحریک کے تحت خاموش جلوس نکالے گئے جو 57 قصبوں اور شہروں سے گزرے۔ سیاسی قائدین کو تقریروں کی یا شہ نشین پر آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اِس لئے اِسے روایتی اقتدار کی سیاست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ سماجی ۔ معاشی انصاف پر مبنی مطالبات تھے جو مہلوک لڑکی کے لئے طلب کئے جارہے تھے۔ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں تحفظات کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔ اعداد و شمار کے بموجب تقریباً 30 ہزار افراد آخری اور قطعی جلوس میں شریک تھے جو ممبئی کے آزاد میدان پہونچ کر اگسٹ میں جلسہ عام میں تبدیل ہوگیا۔ ہر سیاسی پارٹی نے اِس جلوس کی تائید کی لیکن کوئی بھی اِس پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ برادری نے ایک یادداشت چیف منسٹر دیویندر فرنویس کو پیش کی اور منتشر ہوگئے۔ اُس وقت سے اِس کے بارے میں کچھ بھی نہیں سنا گیا۔ کیا یہ زیرزمین چلی گئی ہے یا پھر میدان چھوڑ کر بھاگ گئی ہے۔ پڑوسی ریاست گجرات میں 3 نوجوانوں نے ایسی تحریکیں شروع کی تھیں۔ وہ اپنے مقاصد پر اٹل ہیں۔ ہاردک پٹیل نے اُس وقت کے چیف منسٹر کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے لئے تحریک شروع کی تھی حالانکہ وہ تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں پٹیل برادری کے لئے تحفظات چاہتے تھے لیکن یہ ایک ایسی تحریک میں تبدیل ہوگئی جس نے اپنی ذات کو سیاسی طور پر ظاہر کیا۔ جگنیش میوانی نے برادری کے لئے انصاف طلب کیا۔ دلت (جنھیں دیگر پسماندہ طبقات اور اعلیٰ طبقات نشانہ بناتی ہیں۔ الپیش ٹھاکر نے نچلے طبقے کی ضمنی ذاتوں کو جن کا تعلق دیگر پسماندہ طبقات سے تھا، درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائیل کے ساتھ متحد کرنے کی اور اُن کا ایک وفاق بنانے کی کوشش کی۔ اِس کے واضح طور پر ایک دوسرے سے مقاصد وابستہ تھے لیکن کانگریس انھیں متحد کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ نومبر میں گجرات کے اسمبلی انتخابات میں انھیں یکجہت کیا جاسکے۔ سب سے پہلے انھیں ایک مقام پر جمع کیا گیا۔ الپیش ٹھاکر نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی وہ کون ہیں؟ وہ اہم کیوں ہوگئے؟ اور کیا اُن میں اتنا صبر ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ سیاسی اقتدار کے نظام میں ماوراء ہوکر ثابت کرسکے۔ حالانکہ اقتدار سے باہر رہ کر اُسے دھمکیاں دے سکیں۔ ٹھاکر دیگر پسماندہ طبقات کے خود ساختہ قائد بن کر اُبھر رہے ہیں۔ جب اُنھوں نے گزشتہ سال شراب کی عادت کے خلاف شمالی گجرات میں مہم چلائی تھی تو اِس سے اُن کے والد کھوڑا بھائی پٹیل جو ایک کانگریسی رکن تھے، کو فائدہ پہنچا تھا۔ اُنھوں نے شتریہ ٹھاکر سینا 6 سال قبل قائم کی تھی۔ جس کے 60 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ ارکان ہیں۔ بعدازاں اُنھوں نے دیگر پسماندہ طبقات، درج فہرست قبائیل، درج فہرست ذاتیں، ایکتا منچ قائد کیا۔ جس کا دعویٰ ہے کہ یہ طبقات ایک پرچم تلے جمع ہوچکے ہیں۔ اِن میں سے 70 فیصد رائے دہندے ہیں۔ گجرات ملک کے کسی بھی دیگر علاقے کی طرح ذات پات پر منحصر ایک ریاست ہے جو مایوسی کا شکار ہے۔ جس کی خود اعتمادی ختم ہوچکی ہے۔ یہ ریاست احمدآباد کی سیاست سے متاثر ہے۔ انا یاگنک نے مبینہ طور پر کہاکہ یہ ایک آمیزہ ہے جو احتجاج کررہا ہے۔ اِس میں نوجوان اور مایوس افراد شامل ہیں جن کو ملازمتوں کا تیقن دیا گیا تھا لیکن ملازمتیں فراہم نہیں کی گئیں۔ یہ لوگ نوٹوں کی تنسیخ سے اور جی ایس ٹی کے نفاذ سے بُری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ اِس ریاست میں زرعی بحران بھی پیدا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے کہاکہ کیا ٹھاکر کا انحراف کسی کی مدد یا اُن کی مجبوری تھی۔ شمالی گجرات میں شراب کی عادت کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوگئے تھے۔ یہ اپنے اظہار کی، خود اعتمادی اور شناخت کی جنگ تھی۔ مراٹھا موؤ مورچہ احتجاج سوائے مہاراشٹرا کے کہیں بھی سنا نہیں گیا جبکہ گجرات میں ٹھاکر کی طاقت اور اُن کے ساتھیوں کی طاقت ہنوز جانچی نہیں گئی۔ سماجی تحریک کے طور پر جو بہتر انداز میں کام کررہی ہے، ٹھاکر ماڈل کے طور پر نہیں اور نہ اُس کے باہر اور نہ مراٹھا موؤ مورچہ کے نمونے پر لیکن چند اعتبار سے ہمیں ڈسمبر میں اِس کا پتہ چل جائے گا کہ ذات پات کی سیاست گجرات میں کتنی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔