دہلی کے در ٹوٹنے لگے …

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ اپنے قیام کے پانچویں سال میں داخل ہوا ہے ۔ سنہرے تلنگانہ کا خواب سجانے والے پھر ایک بار انتخابات کی تیاری کررہے ہیں ۔ قومی قائدین کی نظریں تلنگانہ پر ہیں تو علاقائی قائدین کی آرزو قومی سیاست کے لیے اڑان بھرنے پَر تول رہی ہے ۔ سال 2019 کے آنے سے قبل ہر لیڈر کو انتخابی تیاری کرتے دیکھا جارہا ہے ۔ چند علاقائی لیڈر اپنا تنقیدی جائزہ لے رہے ہیں ۔ ڈریکولر جیسے باہر نکلتے ہوئے دانتوں کو منجن سے صاف کررہے ہیں ۔ ان دانتوں کو اپنے موٹے موٹے ہونٹوں کے پیچھے چھپانے کی مشق کررہے ہیں ۔ نشے میں سرخ آنکھوں پر سیاہ چشمہ پہن کر عوام کے سامنے جانے کی ریہرسل کررہے ہیں ۔ جرائم سے رنگے ہاتھوں پر دستانے چڑھا رہے ہیں ۔ کرپشن کا مال ڈکار کے نکلے ہوئے پیٹ کو ڈھیلے ڈھالے کھدر کرتے سے ڈھانپ رہے ہیں ۔ کوئی شیروانی ڈھیلی کررہا ہے تو کوئی کوٹ کے بٹن کھول رہا ہے ۔ غیر بی جے پی ، غیر کانگریس کا محاذ بنانے والے من مانی دورے کرتے ہوئے عوام ٹیکسوں کی مد میں داخل کردہ سرکاری رقومات پر راج کررہے ہیں ۔ جب ان سے آر ٹی آئی کے تحت سوال کیا جاتا ہے تو اسے مسترد کرتے ہیں ۔ ان سیاسی دوروں کے لیے پیسہ کہاں سے آیا اور کس نے خرچ کیا یہ اہم سوال ہے ۔ اپنے ذاتی سیاسی عزائم کو کامیاب بنانے کے لیے دیگر ریاستوں کے مختلف قائدین سے ملاقات کرنے کے لیے قیمتی سفر ، قیمتی رہائش انتظامات کے لیے بے دریغ رقم خرچ کی گئی ۔ بتایا جاتا ہے کہ چینائی میں ڈی ایم کے قائدین سے ملاقات کے لیے پہونچے ریاستی سربراہ کے لیے بڑی عمدہ شاندار لگثرری ہوٹل کا انتظام کیا گیا ۔ یہ ایسی فضول خرچی تھی جس کے بارے میں آر ٹی آئی کے تحت تفصیلات مانگے گئے تو اصلیت چھپانے کی خاطر درخواست کو مسترد کردیا گیا ۔ بات سیدھی بھی ہے اور سادی بھی ۔ کوئی سمجھنا چاہے تو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہئے ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ اور ان سے ناراض لوگ ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ انتخابات کا وقت ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کا وقت ہوتا ہے ۔

یہاں سب کچھ جائز ہوتا ہے ۔ چندر شیکھر راؤ کا احساس ہے کہ انہوں نے اپنے وعدے پورے کئے ہیں اور تلنگانہ کو برقی قلت سے پاک ریاست بنایا ہے ۔ اپوزیشن والے صرف سیاسی مخاصمت کی بنیاد پر حکومت کی اچھی کارکردگی کو خراب بتاکر گمراہ کررہے ہیں ۔ یہ انتخابات کا موسم زبان بند رکھنے کا نہیں ہوتا ۔ جس کی زبان جتنی کھلے گی اتنی کامیابی ملے گی ۔ قیام تلنگانہ سے قبل جو جذبہ تھا اب اس جذبہ کو حکمرانی کی راہداریوں میں ماند ہوتا دیکھا جارہا ہے ۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ آیا 2019 کے انتخابات 2014 کی طرح ہوں گے یعنی عوام اپنے لیڈروں کے باتوں میں آکر انہیں ہی ووٹ دیں گے ۔ یہ امر تو واضح ہوچکا ہے کہ تلنگانہ کا شہری رائے دہندہ اور دیہی ووٹر اپنے علاقوں کی ترقی کے بارے میں ٹھوس تجزیہ کے بعد ووٹ دے گا تو حکمراں پارٹی کانقصان ہوگا ۔ اگر اس نے آنکھ بند کر کے ووٹ دیا تو پھر قومی عزائم لگے ہوئے پروں کے ساتھ ریاستی لیڈر دہلی پہونچنے کی کوشش کرے گا ۔ اگر اس کی یہ کوشش ناکام ہوگی تو پھر وہ جرس کی طرح نالاں ہو کر رہ جائے گا ۔ یاد رکھنا دوستو اس سیاسی بزم میں کے سی آر کو اپنی منزل مقصود قریب نظر آرہی ہے تو تلنگانہ میں جاری اداسیوں کی رتیں چپکے چپکے بڑھتی جائیں گی ۔ اس لیے 2019 تک ٹی آر ایس حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج تلنگانہ کے رائے دہندوں کو پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملا کر رکھنے کا ہے ۔ تلنگانہ کا اقتدار سنبھالتے وقت کے چندر شیکھر راؤ کئی وعدے کئے تھے ان میں ریاست کی برقی قلت دور کرنے کا بھی وعدہ تھا وہ ریاست میں برقی پیداوار کو فاضل بنانا چاہتے تھے ۔ اب ریاست میں برقی سربراہی بلا خلل سربراہ کی جارہی ہے ۔ یہاں تک ایک منٹ کے لیے بھی برقی منقطع نہیں ہورہی ہے اور یہ منظر یکم جنوری 2018 سے دیکھائی دے رہا ہے ۔

حکومت کی تعریف میں چیف منسٹر تلنگانہ کے سی پی آر او دنم جوالار نرسمہا راؤ نے بہت کچھ لکھا ہے مگر شہری خاص کر حیدرآباد اور پرانے شہر کے عوام کو برقی خلل کا جو سبق مل رہا ہے وہ ماضی کی حکومتوں کی طرح ہی ہے ۔ رمضان المبارک کے موقع پر شہر میں جگہ جگہ برقی مسدودی کی شکایات عام ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ چیف منسٹر شہروں سے زیادہ دیہی علاقوں اور کسانوں کو برقی سربراہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں ۔ کیوں کہ سابق میں تلگو دیشم حکومت کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو نے اپنی حکمرانی کی توجہ شہری علاقوں پر مرکوز کی تھی خاص کر حیدرآباد کی ترقی پر ساری طاقت جھونک دی تھی تو دیہی رائے دہندے نظر انداز ہوجانے کا انتقام لیتے ہوئے تلگو دیشم حکومت کو بیدخل کردیا تھا ٹی آر ایس سربراہ کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر تلنگانہ کا دیہی رائے دہندہ ٹی آر ایس سے ناراض ہوجائے تو اقتدار کی برقراری مشکل ہوگی ۔ اس لیے انہوں نے اپنا سارا زور دیہی علاقوں اور کسانوں کی خوشنودی میں لگا دیا ہے ۔ 58 لاکھ کسانوں کے لیے 1.42 کروڑ ایکڑ پر فصل اگانے کا فائدہ پہونچایا جارہا ہے ۔ کسان کو 5 لاکھ روپئے کا انشورنس بھی دیا جارہا ہے ۔

فی ایکڑ 4000 روپئے رعیتو بندھو اسکیم کے ذریعہ کے سی آر نے اپنی کرسی مضبوط کرنے کا بندوبست کرلیا ہے ۔ کے سی آر کی یہ تمام کوششیں صرف 2019 کے انتخابات پر ٹکی ہوئی ہیں ۔ 2019 آنے سے پہلے ان کی وفاقی محاذ کی مساعی کو کسی نے بھی اہمیت نہیں دی ہے ۔ انہوں نے جن جن علاقائی قائدین سے ملاقات کی تھی ان تمام نے کے سی آر کا ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا کیوں کہ ہر علاقائی لیڈر قومی سیاست میں اہم رول ادا کرنے کا خواہاں ہے ۔ کے سی آر ایک طرف وفاقی محاذ کے لیے علاقائی پارٹیوں کا اتحاد بنانا چاہتے ہیں دوسری طرف مرکز کی بی جے پی حکومت کے سربراہوں سے ملاقات کر کے ریاست کی فلاح و بہبود کے لیے ان سے تعاون کی خواہش کرنا چاہتے ہیں لیکن وزیراعظم مودی نے ان کو ملاقات کا موقع ہی نہیں دیا ۔ یہ واقعہ نہ صرف کے سی آر کی توہین ہے بلکہ تلنگانہ عوام کی توہین کے مترادف بھی ہے ۔ کے سی آر نے چند دن قبل کئی ایک زیر التواء مسائل کی جانب وزیراعظم مودی کی توجہ مبذول کرانے ان سے ملاقات کرنے کا وقت مانگا تھا مگر انہوں نے دہلی میں ہوتے ہوئے بھی کے سی آر کو ملاقات کی اجازت نہیں دی ۔ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ پی ایم او سے یہ واضح سگنل ملنے کے بعد ہی کے سی آر دہلی پہونچے تھے کہ مودی سے ان کی ملاقات کا وقت طئے کیا گیا ہے لیکن جب کے سی آر دہلی پہونچے تو ان کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس واقعہ سے قومی عزائم کو تقویت پہونچنے والا جذبہ مزید قوی ہوجائے گا ۔ اگر کے سی آر کو وزیراعظم مودی کے اس رویہ میں اپنی اور اپنے عوام کی توہین نظر آئے تو وہ اپنے قومی سیاست میں قدم مضبوط کرنے کی کوششوں کو دو گنا چار گنا اضافہ کریں گے ۔