دہشت گردانہ تشدد سے مذہب کا کیا لینا دینا؟

رام پنیانی
سال 2001ء میں 9/11 کے بھیانک واقعہ کے بعد جس میں تقریباً تین ہزار بے قصور افراد مارے گئے، امریکن میڈیا نے ایک نیا فقرہ ’اسلامی دہشت گردی‘ بنایا۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ دہشت گردانہ حرکت اور دہشت گردوں کو مذہب کا سابقہ حاصل ہوا۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے اسے اپنایا اور بعض فرقہ پرست عناصر نے اسے بڑی جدت کے ساتھ آگے بڑھایا۔ اس اصطلاح نے مسلمانوں کے تعلق سے منفی نظریات پیش کئے اور عالمی سطح پر اسلام سے خائف ہونے کے رجحان ’اسلاموفوبیا‘ کی بنیاد پڑی۔ اس کا تازہ ترین اثر نیوزی لینڈ سانحہ میں دیکھنے میں آیا جس میں تقریباً 50 مسلمانوں نے اپنی جانیں گنوائیں، جنھیں ایک سفید فام قوم پرست بندوق بردار نے بے رحمی سے گولیاں مار کر شہید کردیا۔
ہندوستان میں اس ٹھپہ نے طوفان مچایا کیونکہ پہلے ہی مسلمانوں کے تعلق سے منفی نظریات فرقہ پرستانہ سیاست کے ہاتھوں میں پروپگنڈے کے بڑے آلہ کار تھے۔ قرون وسطیٰ کے مسلم بادشاہوں کو مندر تباہ کرنے والوں اور تلوار کے زور پر مذہب تبدیل کرانے والوں کے طور پر بدنام کیا گیا۔ ایسے نظریات اس قدر چھاگئے کہ یہ نظریات جرائم سے پیشہ ورانہ انداز میں نمٹنے میں بھی حائل ہونے لگے اور کئی مرتبہ بے قصور مسلم نوجوانوں کو ایسی دہشت گردانہ کارروائیوں کیلئے گرفتار کرلیا گیا جن کا انھوں نے ارتکاب ہی نہیں کیا، بالخصوص مکہ مسجد، مالیگاؤں دھماکے سے متعلق مقدمات۔ حیدرآباد میں منعقدہ پیپلز ٹربیونل ’اسکیپ گوٹس اینڈ ہولی کاؤز‘ کی رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ کس طرح سلسلہ وار دھماکوں میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر سے لے کر سوامی اسیمانند تک ملوث ہوئے، جبکہ ان واقعات کیلئے مسلم نوجوانوں کو پکڑ لیا گیا۔ یہی وہ وقت ہے جب عام نظریہ ’تمام دہشت گرد مسلمان ہیں‘ تحقیقاتی حکام کے ذہن پر غالب تھا۔ ہیمنت کرکرے کی قیادت میں مہاراشٹرا اے ٹی ایس کی جانب سے تحقیقات پر ان میں سے کئی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیئے گئے جو ہندو قوم پرستی کے نظریہ کے معاونین سے تعلق رکھتے ہیں۔
مرکز میں 2014ء میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ تحقیقات کا رُخ بدل گیا اور اب ان میں سے کئی کو ضمانت عطا کردی گئی یا پھر بری کردیا گیا ہے۔ اس طرح بری ہونے کے ایک معاملے پر دو بڑے ردعمل سامنے آئے۔ سوامی اسیمانند کو بری کرنے والے جج جگدیپ سنگھ نے کہا، ’’اس فیصلے کو گہرے دکھ کے ساتھ ختم کرنا پڑرہا ہے کیونکہ تشدد کی بزدلانہ حرکت قابل بھروسہ اور قابل قبول ثبوت کے فقدان کی بنا سزا پانے سے ہنوز بچ رہی ہے۔ استغاثہ کے ثبوت میں خامیاں ہیں اور دہشت گردانہ حرکت کی بدستور یکسوئی نہیں کی گئی ہے۔‘‘
دوسری طرف مرکزی وزیر فینانس مسٹر جیٹلی نے اُس وقت کی برسراقتدار کانگریس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی کہ یو پی اے II اقتدار میں تھی جس نے پرگیہ ٹھاکر اور اسیمانند جیسے افراد کو ماخوذ کرنے کی کوشش کی، جو بہ الفاظ دیگر یوں ہے کہ کانگریس قائدین ہندوؤں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ یہ دانستہ اور بڑے پیمانے پر عمومیت والا ردعمل رہا، جب دہشت گردی کے مذہب کو اُجاگر کیا گیا۔
اس میں مزید شدت پیدا کرتے ہوئے اپنے روایتی انداز میں وزیراعظم نریندر مودی نے بیان کیا کہ کانگریس نے ووٹ بینک سیاست کی خاطر ہندوؤں کو دہشت گردی کے واقعات میں نشانہ بنایا اور یہ کہ ہندو قوم امن اور بھائی چارہ کیلئے معروف ہے۔ تاریخ میں کہیں آپ نہیں پائیں گے کہ وہ اس طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوئے ہیں۔ اور پھر انھوں نے معاملے کو مزید گرماتے ہوئے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش میں کہا کہ سوامی اسیمانند کو چونکہ بری کیا جاچکا ہے، اس لئے راہول گاندھی کو محسوس ہوا کہ ہندو اُن سے نفرت کرتے ہیں، چنانچہ انھوں نے وائناڈ (لوک سبھا حلقہ) سے چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا جہاں ہندو اقلیت میں ہیں۔ اس طرح ان کا پورا بیان جھوٹ پر مبنی ہے۔
آخر کسی طرح ٹوئٹر نے اپنی غیرمتوقع عقل و ہوش سے کام لیتے ہوئے مودی کے بیان پر تنقیدیں کیں۔ مخصوص نوعیت کا ردعمل یہی رہا کہ ’’دہشت گردی کا مذہب نہیں ہوتا ہے‘‘۔ لیکن چونکہ آپ نے دریافت کیا ہے، جناب وزیراعظم، آزاد ہندوستان کے سب سے زیادہ سفاکانہ دہشت گرد واقعہ کو فراموش نہ کیجئے۔ ’دی ٹیلی گراف‘ نے مودی کو ناتھورام گوڈسے کی یاددہانی کرائی جب پی ایم نے سوال کیا: ’’کیا ہندوؤں کی تاریخ میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ایک بھی واقعہ ہے؟‘‘ ٹیلی گراف جو کولکاتا سے شائع ہونے والا بڑا اخبار ہے، آگے آیا اور وزیراعظم کو یاد دلایا کہ آزاد ہندوستان میں دہشت گردی کی سب سے قابل نفرت حرکت سابق آر ایس ایس پرچارک اور ہندو مہاسبھا ورکر ناتھورام گوڈسے نے انجام دی تھی۔ ’ہندو دہشت گردی‘ کی اصطلاح سے مودی اس قدر مغلوب معلوم ہوئے کہ وردھا میں اپنی تقریر میں انھوں نے یہ الفاظ 13 مرتبہ استعمال کئے۔
مودی اور جیٹلی جیسے قائدین اسیمانند کو عدالت کی جانب سے بری کردیئے جانے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ حالات کو جزوی انداز میں دیکھ رہے ہیں کیونکہ فیصلہ سنانے والے اسی جج نے ناقص تحقیقات پر این آئی اے کی سرزنش کی کہ اس نے کیس کی مناسب انکوائری نہیں کی۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عدالتی فیصلے صرف قوانین اور ججوں کے طرزعمل پر منحصر نہیں ہوتے بلکہ نتیجہ کو طے کرنے والے بڑے عوامل میں انتظامی حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا، یہاں ایسا کیس ہے جہاں جج انتظامی جزو کو معاملے کی مناسب تحقیقات میں اس کی ناکامی پر سرزنش کررہا ہے، جو اسیمانند کو بری کرنے کا موجب بنی۔
موجودہ نظریات اور بیانات جو مذہب اور دہشت گردی سے متعلق پھیلائے جارہے ہیں، وقت کے دھارے ہیں۔ سوویت یونین بکھر جانے کے بعد عالمی سامراجیت نے اسلامی دہشت گردی سے لڑنے کی آڑ میں مغربی ایشیائی تیل کی دولت پر کنٹرول حاصل کرنے کا مقصد بنالیا ہے۔ امریکی میڈیا کی اختراع کردہ یہ اصطلاح اپنے سیاسی ایجنڈے کیلئے مذہب کی شناخت کے بے جا استعمال کی نہایت صریح حرکت ہے۔ دنیا نے دیکھا ہے کہ دہشت گرد مختلف مذاہب سے آئے ہیں۔ آئرش لبریشن آرمی، ایل ٹی ٹی ای، خالصتانی، اُلفا، سری لنکا میں بدھسٹ مونک تلڈوے سومراما تھیرو کا وزیراعظم سری لنکا بندرا نائیکے کو ہلاک کرنا، اور اینڈرس بہرنگ برویک جس نے ناروے میں 2011ء میں 86 نوجوان افراد ہلاک کردیا تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق تمام مذاہب سے رہا ہے لیکن وہ مذہب کے سبب دہشت گرد نہیں بنے۔ دہشت گردانہ حرکتوں کے پس پردہ سیاسی مقاصد کارفرما رہے ہیں۔
آج عالمی سطح پر القاعدہ، آئی ایس آئی ایس اور آئی ایس منظر پر چھائے ہوئے ہیں لیکن ہمیں جاننا چاہئے کہ امریکی فتنہ پردازی کے سبب القاعدہ کا فروغ ہوا، جو آگے چل کر مغربی ایشیا میں بڑے دہشت گرد گروپوں کی اجتماعی سربراہ تنظیم بن گئی۔ امریکہ نے اس دہشت گردی کیلئے 8,000 ملین ڈالر کے فنڈ فراہم کئے تھے اور القاعدہ کو مضبوط کرنے کیلئے سات ٹن اسلحہ و گولہ بارود دیئے تھے۔ دنیا کو زیادہ بڑا نقصان امریکی میڈیا کی اختراعی اصطلاح ’اسلامی دہشت گردی‘ سے پیدا شدہ نظریہ کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس اصطلاح کا ہر طرف شور ہے۔ مودی جیسے قائدین اسے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں اور اس عمل میں سچائی کو دبا رہے ہیں کہ کسی مذہب کا دہشت گردی سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، جو دراصل سیاسی عمل ہوتا ہے۔
ram.puniyani@gmail.com