دھرنے والا شخص ، لیڈر بن گیا

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ خوش نصیب سیاستداں ہیں کہ ان کے سامنے کوئی مضبوط اپوزیشن نہیں ہے ۔ ریاست کے تمام اسمبلی حلقوں کے رائے دہندے ٹی آر ایس کو ہی اپنی پسندیدہ پارٹی تسلیم کرتے ہیں تو پھر آئندہ اقتدار بھی ٹی آر ایس کا ہی ہوگا ۔ سیاستدانوں کے تعلق سے اب تک کی جو بھی رائے پائی جاتی تھی اس میں چندر شیکھر راؤ کے تعلق سے بھی یہی رائے ہونی چاہئے ۔ مگر سیاسی قدروں کی پاسداری کرنے والوں نے سیاستدانوں کی درجہ بندی بھی کی ہے ۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو سیاستداں کو ناکام ہونے کا سرٹیفیکٹ بھی دیدیتے ہیں ۔ اس طرح کی سرٹیفیکٹ دینے والوں کی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کامیاب لیڈر کو ناکام اور ناکام کو کامیاب بنا دیتے ہیں ۔ ایسے ہی ماحول کے پیش نظر چیف منسٹر کے سی آر نے اپنی حکمرانی کی مقبولیت اور عوام کی رائے حاصل کرنے کے لیے 3 مختلف اداروں کے ذریعہ سروے کروائے ہیں ۔ اب تک تین کے منجملہ دو سروے رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ تلنگانہ اسمبلی کے 119 نشستوں کے منجملہ 100 اسمبلی حلقوں پر ٹی آر ایس کامیاب ہورہی ہے ۔ ان سروے ایجنسیوں نے تقریباً 10 لاکھ افراد سے انٹرویو لے کر ان کی آراء معلوم کی جس کے بعد سروے نگار نے ٹی آر ایس کو بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے کی پیشن گوئی کی ہے ۔ ایک رپورٹ میں ٹی آر ایس کو 105 نشستیں ملنے کا اشادہ دیا گیا ہے ۔ دوسری ایجنسی نے 103 حلقوں پر کامیابی کی قیاس آرائی کی ہے ۔ ابھی تیسری سروے ایجنسی کی رپورٹ آنا باقی ہے ۔ جن دو ایجنسیوں نے اپنی سروے رپورٹ دی ۔ اس میں ایک نے بی جے پی کا صفایا بتایا ہے جب کہ بی جے پی کے اس وقت تلنگانہ اسمبلی میں 5 ارکان اسمبلی ہیں ۔ اصل اپوزیشن پارٹی کانگریس کو صرف 7 یا 9 نشستیں ملیں گی ۔ اس طرح کے سروے کروا کر چیف منسٹر چین کی نیند سونے کی تیاری کررہے ہیں ۔ ریاست کے سیاسی حالات سے بھی اندازہ ہوجانا چاہئے کہ تلنگانہ میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کرنے والی بی جے پی بری طرح ناکام ہورہی ہے ۔ کانگریس کا وجود اگر 2019 کے انتخابات کے بعد ختم ہوجاتا ہے تو یہ افسوسناک واقعہ ہوگا ۔ تلنگانہ عوام کے لیے ہیرو بن کر کے سی آر نے اب تک کیا کارنامے انجام دئیے اس کا بھی ریکارڈ موجود ہے ۔ مگر رائے دہندوں کے لیے اگر ایک سیاستداں مسیحا اور ہیرو ہوتا ہے تو دوسرا سیاستداں ولن ہوتا ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ان دنوں کے چندر شیکھر راؤ کے فرزند کے ٹی راما راؤ عوام کے ہیرو کے طور پر ابھر رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنی حریف جماعت کانگریس اور اس کے صدر راہول گاندھی پر شدید تنقیدیں شروع کی ہیں ۔ صدر کانگریس راہول کو ’ ملک کا پپو ‘ قرار دے کر انہوں نے تلنگانہ سے کانگریس کے صفایا کا اشارہ بھی دیدیا ہے ۔ عوام بھی اصل اور نقل کی پہچان بھول کر ووٹ دیتے ہیں تو پھر آج جو ہیرو ہے وہ کل ولن بنا دیا جاتا ہے ۔ کے سی آر کے آگے ایک اور طاقت ابھرنے کی کوشش کرچکی ہے ادھر وہ طاقت پروفیسر کودنڈا رام ہیں جو تلنگانہ تحریک کے روح رواں تھے ۔ اب انہوں نے بھی اپنی سیاسی پارٹی قائم کرلی ہے ۔ مناسب وقت کا ادراک سیاستداں کو کامیابیاں دلاتا ہے اور بصورت دیگر بنا بنایا کھیل بگڑ بھی سکتا ہے ۔ اس کو انگریزی میں SENSE OF TIMING کہتے ہیں جو اس وقت کودنڈا رام کے لیے ضروری ہے ۔ ان کا فیصلہ غلط ہو تو فاصلے بڑھ جائیں گے اور درست ہو تو گوہر مراد ہاتھ آنے میں دیر نہیں لگے گی ۔ ٹی آر ایس ، برسر عام یہ الزام عائد کررہی ہے کہ کودنڈا رام کسی دوسری سیاسی طاقت کے اشاروں پر کام کررہے ہیں اور یہ طاقت اپوزیشن پارٹی کانگریس کی جانب اشارہ ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ہی کودنڈا رام کو تلنگانہ تحریک میں شامل کر کے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا ۔ اب اس تحریک کو چلانے میں ان کا کوئی آزادانہ رول نہیں رہا تو وہ بے چین ہوگئے ہیں ۔ کودنڈا رام نے اپنی نئی سیاسی پارٹی کے قیام کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ تلنگانہ کے حصول کے لیے اپنی جانیں دینے والے نوجوانوں اور شہیدوں کے خوابوں کو نہ صرف پورا کریں گے بلکہ نئے تلنگانہ حاصل کر کے عوام کو دھوکہ دینے والوں کو بھی سبق سکھائیں گے ۔ کے سی آر اور حکومت کو بیدخل کرنے کے لیے اس نئی پارٹی کے پاس کس حد تک جوش و ولولہ ہے یہ تو انتخابات کے دوران ظاہر ہوگا لیکن پروفیسر کودنڈا رام کو کانگریس پارٹی اپنی جانب کھینچ لینے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ اگر وہ کانگریس کے قریب ہوتے ہیں تو پھر کے سی آر کا یہ الزام درست ثابت ہوگا کہ پروفیسر کا جھکاؤ شروع سے کانگریس کی ہی جانب تھا ۔ عوام کے مسائل پر اگر کانگریس اور کودنڈا رام مل کر اپنا اپوزیشن گروپ بنالیتے ہیں تو پھر ریاست تلنگانہ میں بھی ایک مضبوط سیاسی اتحاد کے ذریعہ کے سی آر حکومت کو بیدخل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو سیاسی پارٹی میں تبدیل کرنے والے کودنڈا رام کو یقین ہے کہ وہ عام آدمی پارٹی کے تجربہ کا احیاء کریں گے ۔ کیوں کہ اروند کجریوال نے دہلی کے انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی کو شکست دی تھی ۔ دراصل دہلی کی سیاست اور تلنگانہ کی سیاست میں بہت فرق پایا جاتا ہے ۔ تلنگانہ میں اگر پروفیسر کے قدم ڈگمگا گئے تو پھر سیاسی رکاوٹیں کھڑی ہوجانے میں دیر نہیں ہوگی ۔ یعنی پھر پروفیسر کو ایک جھٹکے میں ان کے خوابوں کے پس پشت ڈال دیا جائے گا ۔ اس کے بعد خطرے ہی خطرے ہیں ، میرے واسطے کے نعرے کے ساتھ تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو بدلتے خیالات کے ساتھ شکست کا منہ بھی دیکھنا پڑ سکتا ہے ۔ سیاسی بصیرت کی کمی سے جو ناکامی ہوتی ہے اس کا درد بھی شدید ہوتا ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر کے سروے کے مطابق اگر ٹی آر ایس ہی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی تو دوسری مدت بھی مکمل کرلے گی ۔ تلنگانہ بھر میں ٹی آر ایس کا تشخیص عیاں ہوچکا ہے ۔ چیف منسٹر نے اپنے وعدوں کا نذرانہ دے کر ریاست میں اقتدار کو مضبوط کرلیا ہے تو اس پر زیادہ سیاسی اتھل پتھل کرنے والوں کو منہ کی ہی کھانی پڑے گی ۔ اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ جب برسر اقتدار پارٹی کا لیڈر طاقتور ہو کر ایک دروازے سے داخل ہوتا ہے تو اپوزیشن قائدین نیند پوری کرکے دوسرے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ ان کی نیند پوری کرلینے تک ریاست کے اندر کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ سیاسی روایات میں قریب انتخابات کی علامات اور نشانیاں بھی بتائی جاتی ہیں ۔ اس وقت کے سی آر نے اپنے سروے کے ذریعہ نشانیاں ظاہر کردی ہیں ۔ اس موضوع کا اصل نکتہ یہی ہے کہ پروفیسر کودنڈا رام کو اپنا غصہ نکالنا ہے کیوں کہ ان کا احساس ہے کہ ان کی وجہ سے تلنگانہ تحریک کامیاب ہوئی مگر اس کے بعد تحریک کے لیے دن رات ایک کرنے والوں اور شہیدوں کے لیے کچھ نہیں کیا گیا ۔ کودنڈا رام سیاسی مرکزی توجہ بننا چاہتے ہیں ان کی جانب سے ٹی آر ایس کو ووٹ ملے تھے اب ان کی مخالفت سے ٹی آر ایس کے ووٹ کم ہوجائیں گے ۔
kbaig92@gmail.com