دکنی زبان کی قواعد پروفیسر حبیب ضیاء کی کتاب

پروفیسر اشرف رفیع
پروفیسر حبیب ضیاء سے اردو والے پہلے پہل بحیثیت مزاح نگار متعارف ہوئے ’’گویم مشکل‘‘ ’’انیس بیس‘‘ اور ’’اور جو مژگاں اٹھایئے‘‘ سے اس سنجیدہ خاتون کی شگفتہ بیانی ، زندہ دلی ، خوش بیانی ، سماجی بے قاعدگیوں پر ان کی تیکھی نظر ، تیز مشاہدے کا اندازہ ہوتاہے ۔ خصوصاً نسوانی سماج کے نشیب و فراز ، ادلتی بدلتی طبیعتیں ، مزاجوں کی بوقلمونی ، تصنع ، بناوٹ ، نمود و نمائش وغیرہ کو جوصرف عورتوں ہی سے منسوب نہیں ، بہت دلیری ، سمجھ داری ، تہہ داری ، ہمدردی و خوش اسلوبی سے طنز کو مزاح کی چاشنی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔اکثر ان کا مزاح طنز پر حاوی رہتا ہے ۔ انہیں پڑھ کر جہاں قاری تبسم زیرلب پر مجبور ہوجاتا ہے وہیں فکر و احساس کے دریچوں پر ایک آہٹ بھی محسوس کرتا ہے ۔

ڈاکٹر حبیب ضیاء نے ’’دکنی زبان کی قواعد‘‘ لکھنے کا بیڑہ اٹھایا اور یہ ارادہ کرکے چلیں کہ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے ۔ 1963 کے اس کام کو انہوں نے وہیں نہیں چھوڑا۔ چالیس سال کے اس عرصہ میں وہ اس قواعد پر نظرثانی کرتی رہیں اس طرح اس میں خاطر خواہ اضافے ، ترک و ترمیمات سامنے آئیں ۔ پچھلی صدی کے تیسرے دہے میں مولوی عبدالحق نے جو قواعد کی کتاب لکھی تو انہوں نے اس زمانے کی ترقی یافتہ اردو کی قواعد لکھی تھی ۔ اسی قواعد کی نہج پر حبیب ضیاء نے اپنے قواعد کا خاکہ بنایا ہے ۔ اپنے قواعد کو انہوں نے آٹھ ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ آغاز میں صرف و نحو کا مختصر سا تعارف ہے ۔ اس کے بعد اسم اور اسم کی قسمیں ، جنس ، تعداد ، اسم کی حالت ، اسما کی تصغیر و تکبیربیان کی ہے ۔ اسم عام اور اسم خاص کی تعریف ایک مستقل تعریف ہے ۔ اسم کیفیت میں بعض مثالیں بڑی دلچسپ دی ہیں جیسے دشمن سے دشمنائی ، کڑواہٹ کی بجائے کڑوائی ، کڑواس اور نرم سے نرمائی ۔ جانداروں کی تذکیر و تانیث کے قاعدے میں دکنی میں بڑی دلچسپ مثالیں ملتی ہیں ۔

حبیب نے ان سب مثالوں کے ذریعہ واضح کیا ہے اور کہیں تو ان کی تبدیلیاں ، تبدیلیوں کی لسانی وجوہات بھی بتلائی ہیں ۔ اس باب میں پہلے ایڈیشن سے ہٹ کر بھی مثالیں تلاش کرکے اضافہ کی گئی ہیں ۔ صفت کے بارے میں صفت کی تذکیر و تانیث اور جمع والا حصہ مختصر مگر مفید ہے ۔ جمع بنانے کے جو طریقے دکنی ادب میں ملتے ہیں ۔ آج بھی دکن کے مختلف علاقوں میں جوں کے توں مستعمل ہیں ۔ دکنی میں ضمیر کی جتنی قسمیں ملتی ہیں ان میں سے اکثر دکن کے دیہاتی علاقوں اور آندھرا کے اکثر حصوں میں جیسے کے تیسے استعمال ہوتے ہیں مثلاً ہمنا ، ہمے ، تمنا ، تمے ، تمارا ، انوں ، اینوں ، ان ، اُن ۔ حبیب ضیاء نے ضمیر کے ان مختلف روپ کی مثالیں پیش کی ہیں ۔ دکنی میں فعل اور متعلقات فعل کی بھی مختلف صورتیں سامنے آئی ہیں ۔

وجہی کی سب رس میں متعلقات فعل زیادہ ترقی یافتہ ہیں ۔ ابن نشاطی کی ’’پھول بن‘‘ میں جدید و قدیم کا ایک حد تک امتزاج ملتا ہے ۔ اس کے پاس ’تھا‘ کے لئے ’اتھا‘ بھی ملتا ہے ۔ جسکی مثالیں حبیب نے دی ہیں ۔ یہی حال نصرتی کا ہے وہ ’ہے‘ کے لئے ’اہے‘ بھی باندھتا ہے ۔ افعال ناقص میں ان گنت صورتوں کو تلاش کرکے پیش کرنے میں خوب محنت کی گئی ہے ۔ یہ ایک خوشگوار کام ہے مگر کبھی کبھی بار بھی محسوس ہوتا ہے لیکن محقق جیسے جیسے جستجو کرتا جاتا ہے حقائق سامنے آتے جاتے ہیں یا گوہر مطلوب ہاتھ آتا ہے تو ساری کلفتیں دور ہوجاتی ہیں یک گونہ سکون ، مسرت اور انبساط کی کیفیت میں ڈوب جاتا ہے ۔ دکنی میں حروف علت کے ساتھ عجیب برتاؤ ہوتا ہے کبھی وہ گرادیا جاتا ہے کبھی بڑھادیا جاتا ہے ۔ ابن نشاطی نے ’’تو‘‘ میں ’’ی‘‘ کا اضافہ کرکے اسے تعظیمی شکل دے دی ہے ۔ اس کی مثال حبیب ضیاء نے ابن نشاطی کی پھول بن سے ہی یوں دی ہے ۔
خبر بارے اول شہزادے کالیو
تمیں منگتے ہیں جیوں بعد از سزا دیو

’’نہیں‘‘ بنانے کے قاعدے میں آج بھی ہم دکنی نہ ، نہیں اور مت کی جگہ غیر شعوری طور پر ’نکو‘ استعمال کرجاتے ہیں ۔ دراصل یہ مراٹھی کا اثر ہے جیسے چاہنے کے لئے ’ہونا‘ لیا گیا ہے ۔ دکنی زبان کی قواعد میں وجہی کی قطب مشتری اور ابن نشاطی سے ’نکو‘ کی ایک اور صورت ’نکوں‘ بھی دی گئی ہے ۔ یہ کوئی مستقل علامت نہیں ۔ نہ ، نہیں اور نا بھی دکنی ادب میں مل جاتے ہیں ۔ متعلقات فعل کا باب مختصر سہی مگر بڑی دیدہ ریزی کا باب ہے ۔ متعلقات فعل کی گیارہ قسموں میں سے کیفیت و حالت معلوم کرنے یا بتانے کی دکنی میں تقریباً دس بیس سے زیادہ الفاظ مل جاتے ہیں جس میں سب سے زیادہ ’ٹک‘ کا استعمال ہوا ہے جیسے وجہی کہتا ہے

جو باتاں میں دو نار ٹک آئے گی
ہتیلی میں لیا بہشت دکھلائے گی
یہی ’ٹک‘ میر تقی میر نے بھی استعمال کیا ہے ۔ جھوٹ موٹ کی جگہ ’و‘ گراکر جھٹ مٹ ہم دکنی والے آج بھی بولتے ہیں اس سے پہلے بھی کہا گیا ہے کہ دکنی میں حروف علت کا گرانا ایک عام بات ہے ۔ اس کی مثال ہاشمی سے حبیب ضیاء نے دی ہے ۔ آہستہ کی بجائے ’ہلو‘ آج بھی مستعمل ہے جو کل بھی تھا ۔ اسی طرح ’لگالگ‘ کا معاملہ بھی ہے جو اطراف دکن میں رائج ہے ۔ متعلق فعل زماں میں اتّا ، اُتّا ، اُتاں اور ایتاں بھی آتا ہے ۔ ان میں اِتاّ اور اُتّا آج بھی مستعمل ہے ۔ فعل مکاں میں دکنی الفاظ کے کئی روپ ہیں جن کی کئی مثالیں فراہم کی گئی ہیں ۔فعل استفہام میں ’کائی کو‘ ’کائی کوں‘ کی کس دھات آتے ہیں ساتھ ساتھ کیوں ، کیا ، کاہے کو کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ متعلق فعل ایجاب و انکار میں دکنی کا مشہور ’ھو‘ ہے وجہی بھی کہتا ہے

ھو تو بھی کتا ہے سو اس میں مانا ہے
مرکب متعلق فعل یعنی جس میں فعل کی وضاحت کی جاتی ہے ۔ دکنی میں اس کے لئے کئی الفاظ ہیں جو جب بھی تھے اور اج بھی رائج ہیں جیسے کاں کاں ، جاں جاں ، پھر پھر کو ، کئیں ۔ ان کے مقابل بعض ایسے الفاظ بھی دکنی ادب میں آئے ہیں جو صرف دکنی کے لوازمات میں سے ہیں ۔ جیسے ساندرے ، چوندھر ، چوندھیر ، چوکڈھن ، کدھیں ،مدھیں وغیرہ جن کی مثالیں ڈھونڈ کر لانا روئی کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ حروف کے باب میں ، حروف عطف میں اورکی جگہ ھور ، ہور ، حروف استدراک میں ولے ، پن ، اما ، لگن ، بلکو ، فارسی کا اما ،بھاشا کا پرنتو ، حروف شرط و جزا میں سنسکرت کا یدی ، تلگو کا اُر ، حروف تخصیص میں ہر ایکس ، براں ، بی ، بونچہ ، ویسائچ وغیرہ دکنی کی امتیازی شناخت رکھنے والے حروف ہیں۔ حروف تشبیہ میں ، من ، نمن ، نمنے ، ناد تحسین و آفرین کے لئے جہاں واہ واہ کا استعمال ہوا ہے وہاں اھاھا ، واچ جیسے حروف بھی آئے ہیں ۔ نحو کے باب سے پہلے اور صرف کے بیان کے آخر میں کر اور سو کے استعمال ، اور مرکب الفاظ میں سابقے اورلاحقے کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔ نحو وہ علم ہے جس سے کلمات کو ترتیب دینے اوران کو جدا جدا کرنے کا ڈھنگ اور ایک کلمہ کا دوسرے کلمہ سے تعلق معلوم ہوتا ہے ۔ ترتیب کلمات میں جس غلطی سے مطالب میں خلل پیدا ہوتا ہے اس سے کلام کو بچانا اور مطلب کو درست طریقے سے پیش کرنا نحو کا مقصد ہوتا ہے ۔ یہ باب اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے اس پر بحث سے اور طوالت کا اندیشہ ہے اس لئے اس موضوع سے صرف نظر کیا جاتا ہے ۔

دکنی زبان بقول پروفیسر مسعود حسین خاں اردو کی ایک قدیم مگر سیال شکل ہے اس کی صرف و نحو اور قواعد کا تعین مشکل کام ہے ۔ صرف و نحو میں بہت کچھ سماعت کا دخل ہوتا ہے ۔ زبان کے مسائل کو سمجھنے کی اصل بنیاد سماعت ہی ہے اور قیاس کی اصل بنیاد سماعت ہی پر ہے ۔ دکنی کی صرف و نحو سماعت پر منحصر نہیں ، یہ حروف حروف غلطاں ہونے کا کام ہے ۔

پروفیسر حبیب ضیاء نے پہلے ایڈیشن کے مقابلے میں متعلقات فعل اسم اور حروف کے باب میں کئی اضافے کئے ہیں جو مثالیں دی ہیں ان میں قطب شاہی اور عادل شاہی ادب کے فن پاروں سے استفادہ کیا ہے ۔ لسانیاتی تجزیہ نہ کتاب کا موضوع تھا نہ انہوں نے ایسا کیا ہے ہاں بعض بعض جگہوں پر دیگر زبانوں کے اثرات کی نشاندہی ضرور کی ہے ۔ کتابیات کی طویل فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ اس سلسلے میں کتنا وسیع رہا ہے ۔

‘‘دکنی زبان کی قواعد‘‘ کا یہ دوسرا ایڈیشن ہے تو ضمیمہ کے طور پر دکنی محاورات ، ضرب الامثال اور دکنی محاوروں کو بھی شامل کیا جاتا تو سونے پہ سہاگہ ہوتا ۔
دکنی تو دکنی اردو کی کوئی کتاب لاکھ تصحیح کیجئے کمپوزنگ کی غلطیاں پھر بھی کہیں نہ کہیں رہ جاتی ہیں ۔ دکنی زبان کی قواعد میں ڈھونڈے سے بھی کمپوزنگ کی کہیں کوئی غلطی نہیں ملتی ۔ مطلوبہ الفاظ اور حروف کو بالاستیعاب خط کشیدہ کیا گیا ہے ۔ حبیب ضیاء کی یہ قواعد دکنی زبان پر لسانی تحقیق کرنے والوں کے لئے بہت ساری سہولتیں فراہم کرتی ہے ۔ مگر دل میں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ اب دکنی زبان و ادب سے دلچسپی لینے والے نئی نسل میں کون ہیں ؟