دکنی ادب کی بازیافت صدی کچھ تجاویز

پروفیسر م ن سعید
قارئین کرام ! آپ کو یاد ہوگا کہ ایک صدی پہلے ، یہی زمانہ تھا جب دکنی ادب کی دریافت کا عمل شروع ہوا تھا ۔ یہ دکنی ادب کی بازیافت کی صدی ہے ۔ ہم ادبی شخصیتوں کی صد سالہ تقریبات مناتے رہتے ہیں ۔ لیکن یہ ایک نادر صورت حال ہے جس میں ہمیں ایک پورے باثروت ادبی دور کی صدی منانے کا موقع فراہم ہورہا ہے ۔ یہ ایک پورے عہد کا جشن ہوگا اور اس کی تقریبات شایان شان طریقے سے منائی جانی چاہئیں ۔ اس موقع کی مناسبت سے ضروری ہے کہ ہم دکنی ادب کی بازیافت کی گزشتہ ایک صدی کا احتساب کریں کہ ہم نے کیا کھویا ہے ، کیا پایا ہے اور اس کے فروغ و اشاعت کے آئندہ عظیم الشان امکانات کو نشان زد کریں۔
اس سلسلے میں پہلے ایک معروضی جائزہ لینا بہت ضروری ہے جس سے یہ واضح ہوسکے کہ گزشتہ صدی میں دکنی ادب کے کون سے سنگ میل سر کئے گئے اور نفع نقصان کا گوشوارہ ترقی و تنزلی کی کیا داستان سناتا ہے ۔ جب تک اس حقیقت سے بھرپور آگہی حاصل نہ کی جائے ، حقیقی ضرورتوں کا نہ صحیح اندازہ ہوگا اور نہ ہی ایک حقیقت اساس لائحہ عمل کا تعین کیا جاسکے گا ۔

دکنی ادب کی اولین دستیاب کتاب ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ 1421-1435 ء کے درمیان تصنیف کی گئی ۔ 1421ء سے 2015ء تک اردو ادب کو کوئی چھ صدیوں کا عرصہ ہوا ۔ اس عرصے کے پہلے نصف یعنی تین صدیوں میں دکنی میں سینکڑوں تصانیف لکھی گئیں ۔ کون سا موضوع ہے جو اس میں برتا نہیں گیا ۔ تصوف ، داستان ، مرثیہ ، رزم ، طب، معاشرتی مسائل ، تاریخ  ، دینیات ، دھرم ، مہم جوئی  ،موسیقی ، نسائی شاعری ، جنسیات ، فوجی نظم و نسق ، دستورِ فرماں روائی ، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس پر تصنیف و تالیف نہ کی گئی ہو ۔ دکنی ادب میں ایک زندہ معاشرے کی زندہ ضروریات کی تکمیل کا سارا اہتمام کیا گیا ہے  ۔دوسرے نصف یعنی 1722ء میں ولی کے دورۂ دہلی سے آج تک عصری اردو کا ادب وجود میں آیا ۔ عصری اردو کے تین سو سالہ عرصے میں ہماری ادبی اور تہذیبی زندگی اس قدر ثروت مند ہوگئی کہ ہماری تحریر و تقریر عصری اردو کے شعروں ، ترکیبوں ، کنایوں ، استعاروں ، محاوروں ، تلازموں اور اس نوع کے حوالوں کے بغیر قائم ہو ہی نہیں سکتی ۔ اردو ہماری سانسوں اور ہماری رفتار و گفتار کا ناگزیر حصہ بن گئی ہے ۔ اتنے ہی عرصے یعنی تین صدیوں پر محیط دکنی ادب کے کتنے حوالے ہماری روزمرہ گفتگو اور تحریر و تقریر کو زینت بخش رہے ہیں  یادداشت پر بہت زور دیجئے تو دکن سا نہیں ٹھارسنسار میں یا پیاباج پیالہ پیا جائے نا یا جو بے ربط بولے توں بیتاں پچیس کے دو تین آبدار موتیوں کو چھوڑ کر ایک ہو کا عالم ہے ۔ تین صدیوں کے ادب کا حاصل تین حوالے ! صرف تین حوالے ۔
دکنی ادب کی بازیافت کا سلسلہ شروع ہوا تو ہمارے بزرگوں نے اس کے تحفظ ، اس کی بقا اور اس کی اشاعت میں اپنا وقت ، اپنے سرمائے اور اپنے سارے وجود کو اس کے لئے وقف کردیا ۔ حکیم سید شمس اللہ قادری ، بابائے اردو مولوی عبدالحق ، سید محی الدین قادری زور ، عبدالقادر سروری ، نصیر الدین ہاشمی ، اکبر الدین صدیقی وغیرہم نے دکنی ادب کے دفینے سے جو خزانہ برآمد کیا ، اس کے رکھنے کے لئے زمین اتنی تنگ ہوگئی کہ وجہی کے محاورے میں ’’زمیں ٹھار منگتی ہے اَسمان کن‘‘ کا عالم ہوگیا ۔ گزشتہ صدی کے نصف اول میں دکنی ادب کے کئی شاہکار شائع ہوگئے ۔ پروفیسر سیدہ جعفر دکنی ادب کی تنہا اسکالر ہیں جنھوں نے اس سلسلے کو تاحال باقی رکھا ہے ۔ اس طرح بہمنی ، قطب شاہی اور عادل شاہی دور کے اکثر قیمتی متون محفوظ ہوگئے ۔ یہ ایک عظیم الشان خدمت تھی ۔ مخطوطات کو مطبوعات کا منصب عطا کرنا کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا ۔ دکنی ادب کی گراں مائیگی اور اس کے تیئں احساس افتخار کے ولولے نے ہمارے بزرگوں کو آخری سانس تک سرگرم رکھا ۔

دکنی شاہکاروں کے متون کا ذخیرہ فراہم اور محفوظ کرنے کے بعد دکنی کے تیئں سرفروشانہ جذبے اور جوش کو قائم رکھنے کے لئے اگلا مرحلہ دکنی ادب کی تشریح ، تفسیر اور تعبیر کا تھا  ۔یہ کام جس علمی بصیرت کے ساتھ اور جس عالی شان پیمانے پر ہونا تھا ، نہیں ہوا ۔ اس کا مرحلہ اولین دستیاب دکنی متون کو قرأت دوست بنانا تھا ، مشتاقان ادب کے لئے بھی جو اردو کے ادبی اور تہذیبی ورثے کی قدر و قیمت سے آگاہ ہیں ، دکنی متون کا مطالعہ ایک آزمائش سی ہے ۔ دکنی متن اور عصری اردو کے متن کی ظاہری مشابہت کے باوجود الفاظ کی قدامت ، جملوں یا مصرعوں کی ساخت ، قواعد کے اصول ، مسلمہ تلفظ سے انحراف ، ایسی ناہمواریاں ہیں کہ شوق کی سانسیں پھولنے لگتی ہیں ۔ ان کٹھن راہوں میں تلفظ ، لغت اور قرأت کی بیرونی دست گیری کے بغیر پرشوق دلچسپی بھی دم توڑ دیتی ہے ۔

دکنی کے متون جب شائع ہونے لگے تو جوں کے توں چھاپے گئے اور اب تک اسی طرح تہی اعراب و علائم چھپ رہے ہیں ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ دکنی متون کے بیشتر مرتبین دکنی کے لسانی ماحول کے پروردہ تھے ۔ دکنی ان کے مزاج میں رچی بسی تھی اور وہ اس کے مزاج و منہاج سے یوں واقف تھے جیسے مچھلی اپنے پانیوں سے واقف ہوتی ہے ۔ ان کے لسانی شعور میں دکنی اردو اور عصری اردو کے دو نظام ہائے تلفظ الگ الگ خانوں میں کارفرما تھے ۔ اس خوش بختی کے باعث وہ دکنی اور اردو کی متبادل قرأت بیک وقت کرسکتے تھے ۔ ان کے حاشیہ ٔ خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ اردو کا جو متن وہ مرتب کررہے ہیں ، بیرون دکن قاری صرف اردو کے نظام تلفظ کی مدد سے اس کی صحیح قرأت کرنے کے قابل نہیں ہے ۔ اسے دکنی کی قرأت کے لئے تربیت رہ نمائی اور وسائل قرأت تینوں کی ضرورت ہے ۔لیکن شائع شدہ دکنی متون میں یہ سہولت حاصل نہیں تھی ۔
دکنی متن جب تک اس کے خود مختار نظام تلفظ کے چوکھٹے میں رموز علائم قرأت سے مزین نہ کیا جائے ، دکنی سے ناواقف قاری کے لئے قابل مطالعہ نہیں ہوسکتا ۔ اردو اور دکنی کے مشترک رسم خط اور کثیر لفظی اشتراک نے ایسا بھرم قائم کیا کہ اردو اور دکنی کے ملفوظی اختلاف کو سائنسی طریقہ کار کے ذریعے لسانی سطح پر سلجھانے کے بجائے قدامت کا نام دے کر گھوڑے اور گدھے کو ایک ہی گاڑی میں جوت دیا گیا ۔ اس طرح دکنی متن کی حقیقی قرأت سے صرف نظر کرتے ہوئے مانوس الفاظ سے اٹکل پچو مفہوم برآمد کرلینا مسلمہ طریق کار قرار پایا ۔

دکنی ادب کا مطالعہ تاریخ ادب اردو کا دقیع حصہ رہا ہے اور اس کی تہذیبی ، لسانی اور ادبی دین کا انکار ممکن ہی نہیں ۔ دکنی سے صرف نظر کرکے اردو کی ادبی تاریخ نرادھار بھی ہوجائے گی اور نادار بھی ۔ دکنی ادب کی تفہیم وتحسین اس پائے کی نہیں ہوئی کہ وہ اردو کے تہذیبی مزاج میں سرایت کرسکے ۔ دکنی ادب کے سرمائے پر نظر ڈالی جائے تو دکنی متن کو ادبی یادداشت کا حصہ بنانے کا خاص اہتمام نظر نہیں آتا ۔ شعر وادب اسی صورت میں یادداشت کا حصہ بنتا ہے ، جب وہ بہ تکرار مطالعے میں رہے اور اس کے لئے ادبی خط اور فکری اساس دونوں ضروری ہیں ۔ مطالعے کی شرط اولین یہ ہے کہ متن قابل مطالعہ ہو اور اہل ذوق اس پر بار بار لپکتے رہیں ۔ دکنی کے سیاق میں متن کے قابل مطالعہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قرأت بے تکلف کی جاسکے ۔ اس کی خطی صورت یہ ہوگی ۔

قرأت … تفہیم … تحسین … تعین قدر
آپ کو یاد دلادوں کہ قومی یکجہتی کا پہلا تصور دکنی ادب میں ملتا ہے ۔ اب سے کوئی چھ صدیوں پہلے شاہ میران جی شمس العشاق ، جن کی پیدائش مکہ معظمہ میں ہوئی تھی ، حضورؐ سے بشارت پا کر ہندوستان تشریف لائے ۔ یہاں کی زبان سیکھی ۔ یہاں کے مذاہب اور ویدک فکر و فلسفے کا علم حاصل کیا اور اسلامی اور ویدک نظریات کے انضمام سے ایک نئے مکتبۂ تصوف کی بنیاد رکھی ، جس میں السامی تصورات کو ویدک تصورات سے ہم آہنگ کرنے کا کامیاب تجربہ کیا جس کی گونج آئندہ تین صدیوں تک باقی رہی ۔ کیا کسی نے میراں جی اور ان کے خانوادے کی ان عظیم الشان خدمات کا اعتراف کیا ہے ؟ یہ کام جنگی پیمانے پر ہونا چاہئے اور صرف دکنی یا اردو کے اسکالر اس کا حق ادا نہیں کرسکتے ۔ ہندی اور سنسکرت کے اسکالروں کے اشتراک کے بغیر خانوادۂ امینیہ کے تصوف کو کماحقہ سمجھا نہیں جاسکتا ۔
اسی طرح دکنی کی تنقیدی تاریخ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ہمارا قرضہ اتارا ہے اور تاحال دکنی ادب کی اس سے بہتر تاریخ موجود نہیں لیکن ایک تو اس دوران دکنی زبان و ادب پر کافی نیا مواد آگیا ہے جس کی روشنی میں بعض حقائق کی نئی تعبیر ممکن ہوگئی ہے ۔ دوسرے ، تنقیدی تاریخ کا حق وہی ادا کرسکتا ہے جو دکنی کے مزاج و منہاج سے اہل زبان کی سی واقفیت رکھتا ہو ۔ یہ ایک عظیم الشان منصوبہ ہے جس کی تکمیل کا باربہرحال اہل دکن کو ہی اٹھانا ہوگا ۔
مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ دکن کی یونیورسٹیوں کو دکنی ادب کی اشاعت کی افزود ذمے داری قبول کرنی چاہئے ۔ دکنی ادب کے بارے میں ابھی تک شمال اور جنوب کی خلیج باقی ہے ۔ شمال کے اسکالر دکنی زبان و ادب کے مطالعے اور تفہیم کے مشتاق ہیں ، لیکن ان کے پاس اس کے ضروری وسائل موجود نہیں ہیں ۔ یہ وقت ہے کہ جنوب کی یونیورسٹیاں ان کی دستگیری کو پہنچیں ۔ اگر دکن کی یونیورسٹیاں ایک ایسا ایکسچنج پروگرام وضع کریں جس میں دکنی کے مختصر مدتی کورس متواتر چلائے جاسکیں تو اس خلیج کو پاٹنا اور دکنی اور عصری اردو کو قریب لانا ممکن ہوسکے گا ۔
شیدائیان دکنی کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دکنی ادب کی بازیافت کو ایک صدی ہونے کو آرہی ہے ۔ میں اسے دکنی بازیافت صدی کا نام دینا چاہوں گا ۔ ہمیں پورے منصوبہ بند طریقے سے دکنی بازیافت صدی کے استقبال کی تیاریاں شروع کردینی چاہئیں ۔ کئی بازیافت صدی کی تقریباتی کمیٹی کا قیام ابھی ہوجانا چاہئے تاکہ آئندہ کاموں کا ثمر آور منصوبہ بنایا جاسکے ۔ ہرکام کی تکرار نہ ہو بلکہ ضروری کاموں کی تخصیصی مجلسیں شناخت کی جائیں ۔ دکنی ادب کی بازیافت صدی کا یہ اولین ترجیحی پروگرام ہونا چاہئے کیوں کہ ہر دوسرے پروگرام کی اساس قرأت دوست متن کی دستیابی پر قائم ہے ۔ مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے خوشی ہے کہ دکنی کے باتلفظ متون کی تیاری کا ایک منصوبہ میں نے کرناٹک اردو اکاڈمی کو پیش کیا تھا ۔ ہمارے باذوق ہمدم دیرینہ جناب عزیز اللہ بیگ صاحب آئی اے ایس کی بے مثال تائید اور اکاڈمی کی بے حد فعال چیرپرسن ڈاکٹر فوزیہ چودھری صاحبہ کی منظوری سے یہ منصوبہ شروع ہوگیا ہے ۔ میری خواہش ہے کہ دکن کی دوسری اکاڈمیوں کو بھی دکنی بازیافت صدی میں پورے جوش اور مکمل مالی تعاون کے ساتھ شریک ہونا چاہئے ۔ مجھے امید ہے کہ یہ صدی دکنی کے فروغ میں ایک نئی تاریخ رقم کرسکے گی ۔