دِلّی، سنگ دِلی اور زندہ دِلی

میرا کالم مجتبیٰ حسین
جب کسی قلمکار یا فنکار کی زندگی میں شام کے سائے گہرانے لگتے ہیں تو اس کے معصوم بہی خواہ اپنی اکثر شامیں محض اس خوش فہمی میں اسے سونپ دیتے ہیں کہ پتہ نہیں کب اور کس گلی میں ان کے ممدوح کی آخری شام آجائے۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا ہے جب ان کا ممدوح اپنی تاریخِ پیدائش سے بہت دور نکل آتا ہے اور تاریخِ وفات اس کے قریب پہنچ رہی ہوتی ہے۔ حالانکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اسے نہ تو صبحوں اور شاموں سے کوئی سروکار ہوتا ہے اور نہ ہی اسے ان کا انتظار ہوتا ہے۔ اردو کے طرح دار شاعر، میرے دوست مصحف اقبالؔ توصیفی نے غالباً ایسے ہی کسی موقع اور کیفیت کے اظہار کے لئے کیا خوب کہا تھا :
جس سے لی تھیں اُسی کو لوٹا دیں
یہ رہی صبحیں، یہ تری شامیں
اردو کے عہد ساز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے میرے ایک اور مزاح نگار دوست عطا الحق قاسمی کے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے کہ کسی جلسہ گاہ کے اطراف اردو کے کچھ ادیب اور شاعر آ جا رہے تھے۔ ایسے میں مشتاق احمد یوسفی کا اتفاقاً اُدھر سے گذر ہوا تو انہیں اس بھیڑ میں عطا الحق قاسمی بھی نظر آئے۔ یوسفی نے عطا ؔ سے پوچھا : ’’کہو بھئی! اندر آڈیٹوریم میں کیا ہورہا ہے؟‘‘
عطا ؔنے کہا : ’’حضور! یہاں ایک چوہے کو شراب پلائی جارہی ہے‘‘۔
یوسفی ؔنے حیرت سے پوچھا : ’’چوہے کو شراب پلائی جارہی ہے! کیا مطلب ہے؟‘‘

عطا نے جواب دیا : ’’اندر ایک استادالاساتذہ قسم کے ایک شاعر کی شام منائی جارہی ہے۔ اس کے شاگرد اس کی شان میں اتنے قصیدے پڑھ چکے ہیں کہ وہ تعریف کے نشے میں دھت ہوچکا ہے‘‘۔
سچ پوچھئے تو کسی کی شام منانا دراصل چوہے کو شراب پلانے جیسا ہی کام ہے۔ یوں بھی شام مناتے وقت مقررین اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ دروغ گوئی اور تعریف دونوں میں کوئی حدِ فاصل برقرار نہ رہے، بھلے ہی جھوٹ پر تعریف کا گمان ضرور ہو لیکن تعریف پر کسی کو جھوٹ کا گمان نہ ہونے پائے۔ شام کی کاریگری اسی کو کہتے ہیں۔
یادش بخیر! ہمیں اس وقت ایک اور ادبی شرابی چوہے کی یاد آ گئی جو ایک میکدے میں خونخوار بِلّی سے بچنے کی خاطر دیوانہ وار دوڑ لگا رہا تھا۔ چوہا آگے آگے اور پیچھے پیچھے بِلّی کہ یکبارگی چوہا ایک ایسے گلاس میں جاگرا جو شراب سے بھرا ہوا تھا۔ چوہے نے چار پانچ ڈبکیاں لگانے کے علاوہ شراب کے چار پانچ گھونٹ بھی پی لئے۔ پھر کچھ دیر بعد گلاس کے کنارے پر چڑھ کر چوہے نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک ہچکی لی اور بہ آوازِ بلند چیخا ’’اری او ڈرپوک بِلّی! کہاں چھپ گئی۔ ہمت ہے تو سامنے آ۔

آج تو میں تجھے کچا چبا جاؤں گا‘‘۔ (دیکھا آپ نے شراب اور تعریف دونوں کا نشہ کتنا زود اثر ہوتا ہے) تاہم میں بڑے ادب کے ساتھ اپنا معروضہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ بھلے ہی شاعر اور چوہے کو ضرورتِ شعری کے تحت شراب پلائی جاسکتی ہو لیکن ایک مزاح نگار کو بشرطیکہ وہ سچا مزاح نگار ہو، شراب پلا کر مدہوش کرنا ناممکن سا امر ہے۔ اس لئے کہ مزاح نگار ہمیشہ زمین سے جڑا رہتا ہے اور اپنی اصلیت کو خوب پہچانتا ہے۔ وہ مدہوشی اور سرشاری کے عالم میں ہوا میں نہیں اڑتا بلکہ ایک ذرۂ ناتحقیق بن کر خاک میں مل جاتا ہے اور اپنے آپ ہی گل و گلزار ہوجاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ دنیا کی نظر سے بھی خود کو دیکھنے اور پرکھنے کا اہل ہوتا ہے۔ آپ اسے چھوٹا منہ بڑی بات نہ سمجھیں تو عرض کروں کہ ایک اچھے مزاح نگار کا بنیادی منصب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ وقفہ وقفہ سے سماج کے ان نشے بازوں اور میخواروں کا نشہ اتارتا رہے جو صرف شراب کے نشے کے عادی نہیں ہوتے بلکہ جنہیں اقتدار، دولت، حرص، ہوس، رعونت اور شہرت کے نشے کی عادت پڑ جاتی ہے

اور یہ وہ نشہ ہے جو خود سے نہیں اترتا بلکہ اسے اتارنا پڑتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اچھا مزاح نگار ایک معصوم آدمی ہوتا ہے لیکن سماج کے بدمعاش اور بدکردار عناصر کو بے نقاب کرنے کے معاملے میں وہ خود بدمعاشوں سے بھی کہیں زیادہ بدمعاش بن جاتا ہے۔ وہ ایسے کرداروں کی اوچھی حرکتوں اور کرتوتوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے لیکن خود سے ان حرکتوں پر عمل پیرا ہونے کو ضروری نہیں سمجھتا۔ اس کی حالت کنول کے اس پھول کی سی ہوتی ہے جو گندگی میں پنپنے کے باوجود خود کو گندگی سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ ظالم کے خلاف مظلوم کے حق میں، طاقتور کے خلاف کمزور کے حق میں، ناانصافی کے خلاف انصاف کے حق میں، اندھیرے کے خلاف اجالے کے حق میں اپنی آواز بلند کرتا رہتا ہے۔ میں نے ایک بار کہیں لکھا تھا کہ ظرافت نگاری کیلئے آدمی کا ظریف ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کا باظرف ہونا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔ ایک مزاح نگار کا ظرف ہی اس کی ظرافت کو جانچنے کا اصل پیمانہ ہے۔

حضرات! یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ملک بھر میں جگہ جگہ اردو اکادمیاں بکھری ہوئی ہیں جن کی اوٹ پٹانگ سرگرمیوں کو میں نے ہمیشہ اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے لیکن اردو اکادمی دہلی وہ واحد اکادمی ہے جسے میں اپنے مذاق کا موضوع نہ بناسکا بلکہ میرا تو جی چاہتا ہے کہ میں اپنی طرف سے خود اردو اکادمی دہلی کی ایک یادگار شایانِ شان شام مناؤں۔ اس لئے کہ اردو اکادمی دہلی سارے ملک کی ایسی اکیلی ہنس مکھ، زندہ دل اور بذلہ سنج اردو اکادمی ہے جس نے طنز و مزاح کی اہمیت کو ہمیشہ تسلیم کیا اور اس کیساتھ اچھوتوں کا سا سلوک روا نہیں رکھا۔ مجھے یاد ہے کہ اردو اکادمی دہلی کے بانی میرے کرم فرما جناب شریف الحسن نقوی نے بیس برس پہلے دہلی میں اردو طنز و مزاح نگاروں کا ایک یادگار سہ روزہ اجتماع منعقد کیا تھا جس میں ملک بھر سے طنز و مزاح سے متعلق بیسیوں نثر نگاروں اور شاعروں نے شرکت کی تھی۔ ابھی پچھلے سال (2004) میں اکادمی کے موجودہ سکریٹری مرغوب حیدر عابدی کی نگرانی اور ڈاکٹر خالد محمود کی رہنمائی میں مارچ میں ایک سہ روزہ سمینار ’اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت‘ کے موضوع پر منعقد ہوا تھا۔ وہ غالباً سارے ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا سمینار تھا جس میں اردو طنز و مزاح کے سارے گوشوں کا بھرپور جائزہ لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر خالد محمود نے ابھی حال میں اس سمینار میں پڑھے گئے سارے مضامین کو اکٹھا کرکے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس ضخیم کتاب کو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ حوالے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

صاحبو ! سب سے آخر میں خود دہلی کے حوالے سے ارباب اردو اکادمی دہلی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے مجھ جیسے کم سواد کی شام منا کر مجھے ایک گہرے تذبذب اور کشمکش کے دائرے سے باہر نکالا ہے۔ اس لئے کہ دو شہروں کی شہریت کے معاملے میں نہ صرف غیروں نے بلکہ خود میں نے بھی اپنے آپ کو مشکوک نظروں سے دیکھا۔ میں ہمیشہ اس مخمصے میں رہا کہ حیدرآبادی مجھے دہلی والا سمجھتے ہیں اور دہلی والے مجھے حیدرآباد کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس الجھن سے تنگ آ کر میں نے پچھلے سال یہ اعلان کردیا تھا کہ میں ایک ’’دو شہرا شہری‘‘ ہوں۔ نتیجہ میں اب میں دہلی اور حیدرآباد کے بیچ حالتِ سفر میں زیادہ پایا جاتا ہوں۔
یادش بخیر ! ایک زمانے میں قتیل شفائی مرحوم اکثر پاکستان سے ہندوستان آیا جایا کرتے تھے۔ میرے دوست کے ایل نارنگ ساقی نے ایک دن دوستوں کی محفل میں کہا : ’’قتیل بھائی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آپ ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘۔ اس پر میں نے قتیل شفائی سے کہا کہ ’’قتیل بھائی! آپ کو ہندوستان اور پاکستان کے بیچ پل کا درجہ پانا مبارک ہو لیکن خدا کے لئے اس پل پر سے کبھی کبھار دوسروں کو بھی آنے کا موقع دیجئے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ہمیشہ آپ ہی اس پل پر سے آتے جاتے رہتے ہیں‘‘۔
اسے اردو اکادمی دہلی کے ارباب مجاز کا کرم نہ کہوں تو اور کیا کہوں کہ انہوں نے جب دہلی کے سربرآوردہ اور ممتاز اہل قلم حضرات کے ساتھ شامیں منانے کا آغاز کیا تو اس سلسلے کی پہلی شام کے لئے استاذالاساتذہ پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی جیسے دل دہلانے والے دہلوی کا انتخاب فرما کر ثابت کیا کہ حق بہ حقدار رسید اسی کو کہتے ہیں لیکن اس کے فوراً بعد منعقد ہونے والی دوسری ہی شام کو اس کمترین سے منسوب کرکے فیض احمد فیضؔ کے اس مصرعے کی عملی تفسیر بھی پیش کردی کہ کوے یار سے نکل کر سوے دار جانا کس کو کہتے ہیں۔

حضرات ! میں نے اپنی زندگی کا سب سے لمبا عرصہ دہلی شہر میں ہی گذارا ہے کسی اور شہر میں نہیں۔ پورے 35 برس۔ اور ان بھرپور برسوں کو گذارنے کے دوران میں مجھ سے عملاً حساب کی وہ غلطی بھی سرزد ہوئی ہے جو غالبؔ سے بہت پہلے سرزد ہوئی تھی یعنی ہر برس کو 50 ہزار دنوں کا مانا۔ بلکہ دہلی کی کسی کسی شام کو تو میں 50 ہزار صدیوں کا مانتا ہوں۔ گویا لمحوں میں یہاں صدیوں کی زندگی بھی جی۔ اگر میں یہ گنانے پر اتر آؤں کہ اس شہر نے مجھے کیا کیا دیا ہے تو مجھ سے پھر حساب کی غلطی سرزد ہوجائے گی۔ میں کوئی فینانس منسٹر تھوڑا ہی ہوں کہ اتنا لمبا چوڑا حساب رکھتا پھروں۔ سنا ہے کہ دہلی سات بار اجڑی اور اسے ساتوں مرتبہ پھر سے بسایا گیا۔ کسی دل جلے نے کہا تھا کہ اس ظالم شہر کو جن لوگوں نے بار بار بسایا انہیں قرار واقعی سزاء دی جانی چاہئے کیونکہ جب یہ اجڑی تھی تو اسے اجڑی ہی رہنے دیتے، اسے پھر سے بسانے کی کیا ضرورت تھی۔ تاہم اس سلسلے میں میرا نظریہ یہ ہیکہ وہ ظالم، جابر اور سفّاک لوگ تھے جنہوں نے دہلی کو اجاڑا تھا لیکن جن لوگوں نے مل کر اسے پھر سے بار بار بسایا وہ ہماری ہی طرح کے معمولی، غیراہم، کم سواد مگر خوش دل، خوش باش، خوش ذوق اور خوش اطوار لوگ تھے جو سنگ دلی کا مقابلہ زندہ دلی سے کرنا جانتے ہیں اور میرے نزدیک دلّی دراصل زندہ دِلی کا دوسرا نام ہے۔
(’مجتبیٰ حسین کے نام ایک شام‘کے عنوان سے دہلی اردو اکادمی کی جانب سے منعقدہ محفل میں 11 ستمبر 2005ء کو پڑھی گئی تحریر)