دو مائیں دو بچیاں اور ان کی خودکشیاں

محمد مصطفیٰ علی سروری
چاندنی بیگم عمر 22 سال ہے ، چار سال پہلے اس کی شادی ہوئی تھی ۔ اس کی بڑی لڑکی تقریباً تین سال کی اور دوسری لڑ کی دیڑھ سال کی ہے ۔ چاندنی کا شوہر مرغی کی ایک دوکان پر کام کرتا ہے ۔ شادی کے بعد سے ہی چاندنی کا شوہر جب جب پیسوں کی ضرورت محسوس کرتا سسرال والوں سے مانگتا تھا ۔ رفتہ رفتہ یہ عادت مستقل ہوگئی اور چار برسوں میں دو لڑکیاں بھی ہوگئی لیکن چاندنی کے شوہر کا اپنے سسرال سے مانگنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ گزشتہ مہینے 27 مارچ کو چاندنی کے چھوٹے بھائی کا رسم مقر ہوا تھا ۔ اپنے بھائی کی رسم کی دعوت میں چاندنی اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ موجود تھی ۔ چاندنی کا شوہر بھی اپنے سالے کے رسم کی تقریب میں موجود تھا ۔ وہ تو تاک میں ہی لگا تھا کہ سسرال میں ہو نے والی اس دعوت میں سب کے سامنے اس نے پیسے مانگے اور شکایت کرنے لگا کہ جب وہ پیسے مانگتا ہے تو ہاتھ بہت تنگ ہے کہتے ہیں اور سالے کی رسم کی تقریب میں خوب پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ چاندنی کے شوہر کی اس ہنگامہ آرائی سے سارے مہمانوں کے روبرو اس کے گھر والوں کو شرمندگی ہورہی تھی ۔ گھر میں دعوت کا موقع تھا ، وہ تو سوچ رہا تھا کہ اس کے سسرال والے اس کی بات کو فوری طور پر مان لیں گے لیکن چاندنی کے مائیکے والے مجبور بھی تھے اور غریب بھی، ان لوگوں نے کچھ مہلت مانگی کہ گھر میں شادی اور رسم کے کام چل رہے ہیں۔ چاندنی کے شوہر نے اپنے مطالبات کو فوری طور پر پورا نہ ہوتے ہوئے دیکھ کر دھمکی دے ڈالی کہ اب وہ چاندنی کو اسی وقت اپنے گھر واپس لے جائے گا ۔ جب چاندنی کے ماں باپ اس کے مالی مطالبات کو پورا کردیں گے ، اپنے بھائی کی رسم کی تقریب میں اس طرح کی صورتحال کو دیکھ کر چاندنی بڑی پریشان ہوئی ۔ وہ تو جانتی تھی کہ بھائی کی شادی کیلئے پہلے ہی سے بہت سارے اخراجات ہیں اور اب اس کے شوہر کیلئے مزید پیسوں کا انتظام بہت مشکل تھا ۔ دو دنوں تک چاندنی بہت پریشان تھی، تیسرا دن جمعہ کا دن تھا ، وہ مسلسل سوچتی رہی کہ اس کا بھائی بڑی مشکل سے اپنی شادی کے پیسے جمع کئے تھے ، اب وہ مزید پیسے کہاں سے لائے گا ۔ بوڑھے باپ اور کمزور ماں کے چہرے کے سوالات بھی چاندنی کو سکون سے محروم کر رہے تھے ۔ جمعہ کے دن کو چاندنی نے بڑا اچھا دن سمجھا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بھائی اور اپنی لڑکیوں کے لئے ایک بڑا فیصلہ لے لیا ۔ اپنی دونوں لڑکیوں کو تیار کیا ۔ بڑی لڑکی کا ہاتھ پکڑا ، چھوٹی لڑکی تو تھی ہی دیڑھ سال کی اس کو گود میں اٹھایا اور گھر والوں کو بولا کہ وہ کچھ کام کے سلسلے میں پڑوس میں جاکر آئے گی ۔ گھر سے نکل کر چاندنی نے سیدھے اسٹیشن کا رخ کیا ۔ ریلوے اسٹیشن پہنچ کر انکوائری کے کاؤنٹر پر گئی اور پوچھا کہ اگلی ٹرین کب آئے گی ۔ انکوائری آفیسر نے پوچھا کہ کہاں جانا ہے تو چاندنی بولی کہ صاحب آپ بتاؤ تو سہی ، چاندنی کا انتظار جلد ہی ختم ہوگیا ، دور سے ہی اس کو ٹرین آتی ہوئی نظر آرہی تھی ، چاندنی نے پلیٹ فارم چھوڑ دیا اور جلدی جلدی ٹرین کی طرف دوڑنے لگی ۔ گود میں بچی کو بھی سنبھال رہی تھی اور ہاتھ میں اپنی بڑی لڑ کی کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھی ۔ ٹرین اسٹیشن پر پہونچتی اس سے پہلے چاندنی ٹرین کے قریب پہونچی ، پہلے اپنی بڑی لڑکی کو پٹریوں پر لٹایا اور خود گود میں چھوٹی بچی کو پکڑے پٹریوں پر لیٹ گئی ، یہ سب کچھ اتنی تیز رفتاری کے ساتھ ہوا کہ اسٹیشن پر کھڑے لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوا کہ برقعہ پہنی جو خاتون کچھ دیر پہلے پلیٹ فارم پر تھی اچانک کہاں چلی گئی۔ وہ تو زور زور سے آوازیں آنے پر لوگوں نے دیکھا کہ پٹریوں پر دو چھوٹی بچیاں ہیں جو بری طرح زخمی ہیں اور زور زور سے چلا رہی ہیں، ان دونوں کے قریب میں ہی ایک برقعہ پوش خاتون ٹرین کے نیچے کچلے جانے کے سبب فوت ہوگئی تھی ، کی نعش پڑی تھی ۔ اسٹیشن ماسٹر دوڑا دوڑا آیا اور قریب کھڑے لوگوں نے زخمی لڑکیوں کو جو کہ ابھی سانس لے رہی تھی ، اٹھاکر (108) ایمبولنس سے دواخانہ منتقل کیا ۔ جہاں پر بعد معائنہ کے ڈاکٹرس نے 3 سال کی لڑکی کو مردہ قرار دے دیا لیکن دیڑھ سال کی کم سن جان پٹریوں اور ٹرین کے درمیان آنے کے باوجود زندہ تھی ۔ ڈاکٹروں نے اس کی خصوصی نگہداشت وارڈ میں علاج کی خاطر شریک کرلیا ۔ قارئین اکرام ایک مسلم خاتون کی اپنے دو لڑکیوں کے ساتھ خودکشی کے اس واقعہ کی خبر بنگلور کے اخبارات میں 31 مارچ کو شائع ہوئی ۔ ایک اخبار نے سرخی لگائی کہ ’’جہیز ہراسانی سے تنگ آکرا یک خاتون نے کی خودکشی‘‘ میں نے تو اس واقعہ کو بیان کرنے کے دوران خاتون کے اصلی نام اور پیشے کو مخفی رکھا ہوں ۔ بنگلور کے اخبارات نے تو مکمل تفصیلات کے ساتھ اس خبر کو جرائم کے کالم میں جگہ دی۔

قارئین آپ حضرات کے ذہنوں میں سوال ہوگا کہ آخر بنگلور کے قریب اس مسلم خاتون کی خودکشی کی خبر میں خاص بات کیا ہے جس کیلئے ہمیں توجہ دینی ہے ؟ دراصل اخبار سیاست کے ایک قاری نے میری توجہ شہر حیدرآباد میں ہوئے قتل کی اس واردات کی جانب مبذول کروائی جس میں انور خان نام کے 28 سال کے نوجوان کو منگنی کی تقریب صرف اس لئے قتل کردیا گیا کہ قاتلوں کی ٹولی جب رات دیر گئے کھانے کے ٹیبل پر بیٹھی تو انہیں چکن کا سالن نہیں ملا اور مرغ کے سالن کی عدم سربراہی پر شروع ہونے والے جھگڑے میں انور خان پر چاقووں سے اس قدر ضربات پہونچائے گئے کہ اس کی موت واقع ہوگئی۔ منگنی کی تقریب میں ہوئے اس قتل نے ہمارے سماج کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی اور ہر ایک نے اپنے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ۔ قارئین آیئے میں اب آپ حضرات کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں ۔ شادی سے پہلے کی تقریب میں مرغ کے سالن کے مسئلہ پر ہونے والا ایک قتل اگر آپ لوگوں کی توجہ اور فکر کا سبب بنتا ہے تو آپ اس واقعہ کو اس کے پورے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کیجئے ۔ شادی کے بعد بھی ہمارے سماج میں خاص کر لڑکیوں کو سالن بنانے سے لیکر کھانا کھانے تک صبح سورج طلوع ہونے سے لیکر رات دیر گئے تک ایسے ایسے طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے کہ ان مظالم سے تنگ آکر مسلمان عورتیں خودکشی کر رہی ہیں ۔ اگر منگنی کی تقریب میں مرغی کے سالن پر ہونے والے قتل پر آپ کو تشویش ہے تو آپ کو پورے مسلم سماج کے اس مزاج کو سمجھنا ہوگا جہاں لڑکی والوں سے اپنی بات منوانے کی خاطر لڑکے والے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور لڑکی والوں کو قدم پر قدم پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر بنگلور کی ایک خاتون کی خودکشی کا واقعہ آپ کو مسئلہ کی سنگینی نہیں بتلا رہا ہے تو اپنے شہر حیدرآباد کی ایک ایسی مسلم خاتون کی خودکشی کے بارے میں جان لیجئے جس کے متعلق 23 مارچ کو اخبار دکن کرانیکل نے خبر شائع کی ۔ رین بازار علاقے کی 24 سالہ خاتون کی شادی پانچ سال 2013 ء میں ہوئی تھی ۔اس خاتون کے بھی دو لڑکیاں ہیں۔ اخبار کے مطابق اس مسلم خاتون کیلئے مسائل کا آغاز اس وقت ہوا جب اس کا شوہر آٹھ ماہ قبل ملازمت کے سلسلے میں باہر چلا گیا اور ہر مہینے پیسے اپنی ماں کو بھیجنے لگا۔ اسی مسئلہ پر خاتون اور اس کے سسرال والوں کے درمیان خوب جھگڑا ہونے لگا ا ور اس لڑ ائی جھگڑے سے ہی تنگ آکر اس 24 سالہ خاتون نے 22 مارچ کو اپنے سسرالی گھر میں پھانسی لیکر خودکشی کرلی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق خودکشی کرنے سے قبل اس خاتون نے اپنے گلے پھانسی کا پھندا ڈالا اورایک تصویر لیکر اپنے شوہر اورماں کو بھیج دی۔ بعد میں اس خاتون کی نعش کو پولیس نے پوسٹ مارٹم کیلئے عثمانیہ دواخانے بھیج دیا۔ اس خاتون کی بھی دو لڑکیاں ہیں جو اپنی باقی کی ساری زندگی اب بغیر ماں کے گزارنے پر مجبور ہیں۔
قارئین کتنے واقعات ہیں جس کا میں یہاں ذکر کرسکتا ہوں ۔ میرا سوال تو یہ ہے کہ آپ منگنی کی تقریب میں سالن کے مسئلہ پر ہوئے قتل پر ضرور تاسف کا اظہار کیجئے مگر ہر اس قتل کی مذمت کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے جو ہمارے سماج میں ہورہا ہے ۔ کیا جہیز کے لئے ہراسانی کے سبب ہونے والے خودکشی کے واقعات ہماری توجہ کے مستحق نہیں ہے۔
اخبار دکن کرانیکل نے 5 اپریل کو ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کا اندازہ لگانے کیلئے اگر ہم نیشنل کرائم ریکارڈ بیوریو کے اعداد و شمار کو پیمانہ بناتے ہیں تو پتہ چلے گا کہ دہلی کے بعد حیدرآباد پورے ہندوستان میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں پر سب سے زیادہ خواتین کے خلاف جرائم کی پولیس میں شکایات موصول ہوئی ہیں۔ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ جنوری 2018 ء سے اب تک حیدرآباد سٹی پولیس کو ایسی کئی شکایات موصول ہوئی ہیں جس میں شادی شدہ خواتین اپنے سسرالی گھر میں مشتبہ حالت میں مری ہوئی ملی ہیں اور ان کی موت کے بعد خواتین کے گھر والوں نے پولیس میں اس بات کی باضابطہ شکایات درج کروائی کہ ان کی لڑکیوں کو سسرال میں مختلف حیلے بہانوں سے ہراساں کیا جارہا تھا اور سسرال کی ہراسانی سے تنگ آکر ہی ان کی بچیوں نے خودکشی کرلی۔ مسئلہ کی نشاندہی تو ہوچکی ہے اس مسئلہ کا حل کیا ہوسکتا ہے ، اس ضمن میں ایک صاحب نے بڑا اہم نکتہ اٹھایا۔ انہوں نے منگنی کی تقریب میں مرغ کے سالن پر ہونے والے جھگڑے اور قتل کی واردات کے متعلق بتلایا کہ قاتل اور مقتول دونوں ایک ایسے محلے کے مکین ہیں اور ایک ایسے گھر میں رہتے ہیں جس کی دیوار سے لگ کر ہی ان کے ہی محلے بلکہ صرف ایک دیوار کے پیچھے شہر حیدرآباد کا تاریخی اور قدیم دینی مدرسہ کام کرتا ہے ۔ دینی مدارس مسلم بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں ، مگر دین کی روشنی پھیلانے والے چراغ کے نیچے بلکہ پیچھے لوگ جہالت ، جرائم اور شراب نوشی کی بری عادتوں میں گلے تک پھنسے ہوئے ہیں ۔ ارباب مدارس کیلئے یہ واقعہ ایک خود احتسابی کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ جیسے میڈیکل کالج کے پڑوس مفت میڈیکل کیمپ لگایا جاتا ہے ۔ ایسے ہی دینی مدارس اپنے اطراف و اکناف کے محلوں میں دین کی اس روشنی کو عام کریں جس سے وہ بند دیواروں کے اندر طلباء کو آراستہ کر رہے ہیں۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور دینی مدارس دین اسلام کے قلعے میں تو ان محفوظ پناہ گاہوں میں ان مسائل کا حل بھی ملنا چاہئے جس کیلئے عام مسلمان پریشان ہیں۔ اگر آپ میرے تجویز کردہ حل سے مطمئن نہیں ہے ، تب بھی کوئی بات نہیں ، آپ فکرمند ہیں تو اپنی ذات اپنے وسائل اور اپنی دہانت کو بروئے کار لاکر خود حل ڈھونڈیں۔ مسلم عورتوں کو سسرال کی ہراسانی سے بھی بچائیں ، مسلم نوجوانوں کو شراب نوشی ، حرام خوری اور ہر طرح کے جرائم سے بچانے کے راستے تجویز کریں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے سب لوگوں کے درمیان آسانیاں بانٹنے والا بنائے ۔ آمین
sarwari829@yahoo.com