دو تلگو ریاستوں کی حکومتیں الگ، مسائل وہی

تلنگانہ/ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں کو شائد اندازہ نہیں کہ لوگ ان کی کارکردگی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ 10 ماہ میں سب کچھ بدل جانے کی کوشش کرانے والی ان حکومتوں کو اپنے وعدوں کو فراموش کرنے کی جرات نہیں کرنی چاہئے۔ دونوں ریاستوں میں بدعنوانیوں اور کرپشن کا منبع ختم نہیں ہوا ہے کہ عوام خاص کر موٹر رانوں پر ٹیکس کا بوجھ ڈال دیا جارہا ہے۔ بین ریاستی وہیکل ٹیکس پر آندھراپردیش اور تلنگانہ میں رسہ کشی کے بعد پٹرول اور ڈیزل کی ٹیکس شرحوں پر تو تو میں میں ہونے کو ہے۔ تلنگانہ میں جہاں ایندھن کی قیمتیں کم ہیں، حکومت کو مالیہ کی شکل میں بھاری نقصان ہوگا اور آندھراپردیش نے پٹرول اور ڈیزل پر 4 فیصد تک اضافی قدر ٹیکس (ویاٹ) میں کمی کرنے کا ارادہ کیا ہے اس طرح دو پڑوسی ریاستوں کے درمیان مالیاتی جنگ اور برتری کا مظاہرہ شروع ہوگا تو اس سے عوام الناس کو مسائل پیدا ہوں گے اس سے سرکاری خزانے پر بھی اثر پڑے گا خاص کر تلنگانہ میں جہاں کی پسماندگی حکومت کے وعدوں کو منہ چڑا رہی ہے۔ ماہ مارچ کے اختتام پر ریونیو ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ریاستوں تلنگانہ اور آندھراپردیش ریونیو میں مالیاتی خسارہ ہوا ہے۔ دونوں ریاستوں میں پانچ لاکھ لیٹر ڈیزل فروخت ہوا اس سے آندھراپردیش کو 20 کروڑ اور تلنگانہ کو 10 کروڑ کا نقصان ہوا۔ تلنگانہ کو اس خسارہ کے علاوہ ریاست کی پسماندگی کو دور کرنے کے معاملوں میں دیگر مشکلات کا بھی شکار ہونا پڑرہا ہے۔

نئی ریاست کے قیام کے بعد بھی تلنگانہ کے اضلاع میں غربت اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے اور معصوم بچے فروخت کرکے ماں باپ اپنا پیٹ پالتے ہیں تو یہ حکومت کی پالیسیوں پر دھبہ ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کی کارکردگی پر قومی میڈیا نے بھی نظر رکھی ہے۔ حال ہی میں ٹی وی چینل نے ضلع نلگنڈہ میں شیرخوار بچیوں کو فروخت کرنے کے ریاکٹ کا انکشاف کیا تھا۔ غریب ماں باپ اپنی بچیوں کو 3000 سے بھی کم قیمت پر فروخت کرنے کے لئے مجبور بتائے گئے ہیں۔ ریاست تلنگانہ کی قبائیلی پٹی جب پسماندگی کا شدید شکار ہے تو غربت انتہا کو پہنچے گی۔ غریب ماں باپ اپنے گھر پیدا ہونے والی لڑکیوں کو فروخت کرکے خاندان کا پیٹ پالنے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں تو اس سے حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں پر آنچ آتی ہے۔ اس طرح کے واقعات میں روز مرہ اضافہ سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر ضلع نظم و نسق لاپرواہ کیوں ہوتا جارہا ہے۔ تلنگانہ کی غربت اور بے چارگی کا ساری قوم نے مشاہدہ کیا ہے۔ اس کے بعد ٹی آر ایس کی بلند بانگ دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت یا کلواکنٹلہ خاندان صرف اپنے لئے ’’بنگارو تلنگانہ‘‘ بنارہا ہے۔ ریاست سے ماباقی عوام کے حصہ میں غربت پر پریشانیاں اور لاچاری آرہی ہے۔

حکومت سے یہ بھی سوال کیا جارہا ہے کہ آخر وہ حسین ساگر کے پانی کو صاف کرنے کے پراجیکٹ پر لاکھوں روپئے کیوں خرچ کررہی ہے جبکہ اس پانی میں گنیش وسرجن کرکے گندگی پھیلائی جاتی ہے۔ حسین ساگر کی صفائی پراجیکٹ پر کروڑہا روپئے خرچ کرنے کے بجائے اگر وہ تلنگانہ کے اضلاع میں عوام کو صاف ستھرا پینے کا پانی سربراہ کرنے کو یقینی بنائے خاص کر ضلع نلگنڈہ میں فلورائیڈ پانی سے عوام کو چھٹکارا دلایا جاتا ہے تو یہ مستحسن کام ہوگا۔ حیدرآباد میں وائی فائی زون بنانے کی فکر رکھنے والی حکومت کو تلنگانہ کے پسماندہ علاقوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر پہلے توجہ دینے کی ضرورت ھی۔ ہر سطح پر سیاسی بالغ نظری سے کام لینے کی ضرورت تھی۔ حکومت کا یہ بھی پہلا سال ہے اس کو بجا طور پر اپنی پوری مدت کے دوران اچھے کام انجام دینے میں ہوشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ حکومت اور خود چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو ان کے فرزند و دختر کو اپنی حکومت کی کارکردگی پر خاص کر توجہ دینی ہوگی۔ بہت سی صورتوں میں ظاہری پہلو کے ساتھ ساتھ بلند تر اخلاقی پہلوئوں اور سیاسی کارکردگی کا بھی خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ حکمراں پارٹی ریاست کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہوتی ہے۔ اس کی بہتر کارکردگی کے اثرات ریاست کے کونے کونے تک پہونچنے چاہئے۔ مگر حکومت اور اس کے کارندوں کو اس میں کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دیتی۔ بعض امور میں کے چندر شیکھر رائو نے چندرا بابو نائیڈو سے سبقت حاصل کرلی ہے اس لئے آندھراپردیش کے عوام برملا کہنے لگے ہیں کہ چندرا بابو نائیڈو کو بھی آندھرا کے لئے کچھ کرنا چاہئے کیوں کہ نائیڈو نے اب تک بیرونی دوروں کو ہی ترجیح دی ہے۔ ریاست آندھراپردیش کے اضلاع اور دیہات ان کی توجہ کے منتظر ہیں۔

چندر بابو نائیڈو کو اندازہ ہونا چاہئے کہ عوام سے رابطہ رکھنے سے گریز کرنے ، مسائل پر دھیان نہ دینے ، کسانوں کے مسائل پر توجہ نہ دینے کے نتائج کیا برآمد ہوں گے۔ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر پر تنقیدیں کرنے والے آندھرائی نوجوانوں نے کے سی آر کی کارکردگی کی ستائش کی ہے تو تلنگانہ میں پہلے سے زیادہ بہتر حالات کا مشاہدہ کرنے والے یہ لوگ تلنگانہ کے پسماندہ علاقوں کی کیفیت سے ناواقف ہیں اس میں شک نہیں کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو دیہی کارکردگی سے زیادہ شہری کارکردگی کو ترجیح دے رہے ہیں اس لئے آج 15 سال میں پہلے مرتبہ تلنگانہ کی صنعتوں کو برقی کٹوتی کا سامنا نہیں ہے۔ اب تک حکومت تلنگانہ برقی سربراہی کو معقول بنانے کی کوشش کی ہے۔ صنعتی ادارے خوش ہیں کہ سابق کی طرح انہیں اس مرتبہ اپنی پیداوار گھٹ جانے کی فکر لاحق نہیں ہے۔

تلنگانہ پاور جنریشن کارپوریشن (ٹی ایس جنکو) کے چیرمین ڈی پربھا کر رائو نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ اب تک ہم نے صنعتکاری کو برقی کٹوتی سے دوچار نہیں کیا ہے۔ برقی پیداوار میں بہتری لانے اور ٹرانسمیشن کی کارکردگی کو اہمیت دینے سے برقی صورتحال بہتر رہی ہے۔ ایسے میں دیگر پارٹیاں خاص کر کانگریس کو فکر لاحق ہورہی ہے کہ تلنگانہ میں اگر ٹی آر ایس حکومت کی کارکردگی سے عوام مطمئن ہوتے ہیں تو آئندہ اتخابات میں بھی اس کی ناکامی یقینی ہے اس لئے پارٹی کے نائب صدر راہول گاندھی کو تلنگانہ کے دورے پر مصروف رکھا جارہا ہے۔ اپنی 56 دن کی خود احتسابی اور پارٹی سرگرمیوں سے دوری کو ختم کرکے واپس ہوئے راہول گاندھی ماہ مئی میں تلنگانہ کا دورہ کریں گے۔ کسانوں سے ہمدردی جتانے کے سوا کانگریس اور ان کی پارٹی کے سینئر قائدین کے پاس کوئی دوسرا موضوع نہیں ہے۔ تلنگانہ میں وہ رعیتو سندیش یاترا نکال کر کیا سندیش دینے والے ہیں یہ ان کے دورے کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ اس بات پر توجہ دینا ضروری ہے کہ حالیہ غیر موسمی بارش نے تلنگانہ کے کسانوں کو بھاری نقصانات سے دوچار کردیا ہے۔ اگر راہول گاندھی کے دورے سے پریشان حال کسانوں کے مسائل حل ہوتے ہیں اور ٹی آر ایس حکومت ان کسانوں کے لئے امدادی اقدامات کرتی ہے تو کانگریس لیڈر کا دورہ سودمند ثابت ہوگا۔ ویسے ٹی آر ایس حکومت نے ریاست کے کسانوں کے مسائل پر توجہ دی ہے۔ حال ہی میں دہلی میں عام آدمی پارٹی کی ریالی کے دوران راجستھان کے کسان کی موت نے ملک کی ماباقی ریاستوں کے چیف منسٹروں کو بھی ہوش میں لایا ہے کہ کسانوں کے مسائل کی یکسوئی کے لئے اولین ترجیح دینی ہوگی۔

تلنگانہ میں ایک طرف غیر موسمی بارش سے کسانوں کو نقصان ہوا ہے تو دوسری طرف برڈفلو نے پولٹری صنعت کو تباہ کن صورتحال سے دوچار کردیا ہے تاہم پولٹری صنعت کی اسوسی ایشن کے صدر جی رنجیت ریڈی نے توقع ظاہر کی ہے کہ پولٹری اشیاء کی فروخت بہت جلد بحال ہوگی۔ تلنگانہ محکمہ صحت نے رنگاریڈی ضلع میں برڈفلو کی وبا کو روکنے کے لئے حفاظتی انتظامات کئے ہیں۔ برڈفلو کی خبروں کے باوجود چکن کی فروخت میں خاص گراوٹ نہیں آئی۔ گزشتہ اتوار کو ہی چکن سنٹرس کے ذریعہ فروخت ہونی والی پولٹری میں کمی آئی تھی لیکن اس مرتبہ 80 فیصد بہتری آئی ہے۔ تلنگانہ پولٹری صنعت پر سالانہ 10,000 کروڑ روپئے کی تجارت ہوتی ہے اور ہر ماہ 40 ملین کیلوگرام چکن سربراہ کیا جاتا ہے اس لحاظ سے انڈے بھی قابل لحاظ مقدار میں نکلتے ہیں جن کو پڑوسی ریاستوں میں سربراہ کیا جاتا ہے۔ حالیہ برڈ فلو کی وبا سے پولٹری صنعت کو ایک اندازے کے مطابق 30 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے اور توقع ہے کہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے 15 تا 18 کروڑ روپئے کا امدادی معاوضہ مل جائے گا۔ طے کرنے والا بنیادی سوال یہ ہے کہ تلنگانہ اور آندھراپردیش کو آنے والے دنوں میں شدید نوعیت کے حامل لا تعداد مسائل اپنے گھیرے میں لیں گے اور دونوں ریاستوں کو گوناں گوں داخلی و خارجی پریشانیوں کا سامنا ہوگا ایسے میں بعض سرکاری امور اور ٹیکس کے نفاذ زائد ٹیکس کی وصولی دونوں ریاستوں کے عوام کو پریشان کرنے والی پالیسیوں سے گریز کرنا چاہئے تاکہ وقت آنے پر دو تلگو ریاستیں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے اہل ہوسکیں۔
kbaig92@gmail.com