دو تلگو ریاستوں کا ایک سلور میڈل

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
حکمرانوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں اور جب دو تلگو ریاستوں کے حکمراں ہوں تو ان کی ہر ادا بھی دو قسم کی ہوتی ہے۔ اول وہ جو خدمت کیلئے اقتدار حاصل کرتے ہیں اور دوم وہ جو اپنی ذات کیلئے اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے حصولِ ریاست تلنگانہ کے حق میں تحریک چلاکر عوام کی خدمت کیلئے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی، بعد ازاں ان کی حکمرانی خالص اپنی ذات کے اِرد گِرد گھومتی دکھائی دینے لگی۔ اس طرح آندھرا پردیش پر حکومت کرنے والے چیف منسٹر میں خدمت اور ذات دونوں گُن ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ تلنگانہ کی ہر شئے پر اپنا حق جتانے کی کوشش کرنے والے چندرا بابو نائیڈو نے اب کھلاڑیوں کو بھی اپنا بنانے کی خاطر بے دریغ مہربانیاں کی ہیں، ریو اولمپکس میں سلور میڈل جیت کر آنے والی پسرلا وینکٹا سندھو کو آندھرا پردیش کی ہردلعزیز بیٹی قرار دیا۔ سندھو نے جیسے ہی سلور میڈل جیتا نائیڈو نے کابینی میٹنگ طلب کرکے سندھو کو 3کروڑ روپئے کا انعام اور آندھرا پردیش کے ہونے والے دارالحکومت امراوتی میں 1000 گز کا پلاٹ دینے کا اعلان کیا۔ جب چندرا بابو نائیڈو کی اس فراخدلی کا علم ہوا تو چیف منسٹر تلنگانہ نے اپنے اعلان کردہ انعام ایک کروڑ کی رقم کو بڑھا کر 5کروڑ کردیا۔ ایک اتھیلیٹ کی خاطر دو ریاستوں کے چیف منسٹروں کی فراخدلی میں بھی دوڑ دکھائی دیتی ہے تو پھر عوامی خدمت کا جذبہ دراصل ذات کی نفی ہوتا ہے کیونکہ ذات کی نفی کے بغیر یا اپنی ذات کو خدمت کے جذبے کے تابع کئے بغیر خدمت کے تقاضے پورے نہیں کئے جاسکتے۔ دونوں چیف منسٹرس کو خوشی ہے کہ انہوں نے اپنے حصہ کے طور پر اتھیلیٹ کو بھرپور نوازا ہے۔

اب سوال اس کھلاڑی کی وطنیت کا ہے کیونکہ آندھرا پردیش سندھو کو اپنی دختر بتارہا ہے تو تلنگانہ کی بیٹی حیدرآباد کی سپوت ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان اثاثہ جات کی تقسیم کی طرح اس کھلاڑی کو بھی دو علاقوں کے درمیان مرغی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت تلنگانہ نے تو سپریم کورٹ میں اثاثہ جات کی تقسیم کا کیس ہار دیا ہے تو پھر اثاثہ جات میں سندھو کو شمار کرکے چیف منسٹر کے سی آر کو کیا ملا، البتہ انہوں نے تلنگانہ کو 27 اضلاع دینے کا وعدہ کرکے تلنگانہ کو ہندوستان کی 29ریاستوں کے مقابل کھڑا کردیا ہے۔ اگر ہندوستان میں جملہ 29ریاستیں ہیں تو تلنگانہ میں 27 اضلاع ہوں گے۔ چھوٹے چھوٹے اضلاع زیادہ سے زیادہ کام کا جذبہ رکھنے والے چیف منسٹر کو اپنے فیصلہ پر یقین ہے کہ اس سے ریاست میں ترقیاتی کام مؤثر طریقہ سے انجام دینے میں مدد ملے گی۔ حکومت نے نئے اضلاع کے نام سے متعلق عوامی رائے حاصل کرنے کیلئے تجاویز طلب کی تھیں، عوام کی جانب سے مجوزہ نئے اضلاع کے قیام پر کوئی خاص اعتراض بھی نہیں کیا گیا۔ تلنگانہ حکومت ایک طرف نئے اضلاع بنانے جارہی ہے تو دوسری طرف بنیادی سہولتوں کے فقدان کی شکایات کو دور کرنے پر دھیان نہیں دیا جارہا ہے۔
اولمپک میں سلور میڈل حاصل کرنے والی کھلاڑی کے حق میں کروڑہا روپئے جاری کردیئے گئے مگر سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولتیں حتیٰ کہ بیت الخلاء تک موجود نہیں ہیں جبکہ اسپورٹس کی حامی ہونے کا دعویٰ کرنے والی یہ حکومت اپنے سرکاری اسکولوں میں اسپورٹس انسٹرکٹرس تک نہیں رکھتی۔ یہ بات جان کر حکومت کی لاپرواہی کا اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کے 4577 سرکاری اسکولوں میں 1720 اسکول ایسے ہیں جہاں فزیکل ٹیچر نہیں ہے۔ درحقیقت ان 4577 سرکاری اسکولوں میں صرف 645 اسکول اسسٹنٹ برائے فزیکل ٹیچر کی جائیدادیں منظور کی گئی ہیں اور اس میں بھی تقریباً 300 جائیدادیں خالی پڑی ہیں۔ جن اسکولوں کے لئے اسکول اسسٹنٹ یا پی ٹی عہدے منظور ہوئے ہیں وہاں تقررات عمل میں نہیں لائے گئے۔ وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ریاست کے لئے نئی اسپورٹس پالیسی بنانے کا اعلان کیا ہے۔

سلور میڈل جیت کر آنے والی سندھو کے لئے کروڑہا روپئے نچھاور کرنے والی دونوں تلگو ریاستوں کی حکومتوں کی اصل پالیسی اسپورٹس سے بہت دور ہے۔ 16سال قبل 2000 میں اس وقت کی آندھراپردیش حکومت نے اسپورٹس پالیسی کے لئے جی او جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ ہر ایک اسکول کیلئے فزیکل انسٹرکٹر رکھنا ضروری ہے لیکن سرکاری اسکولوں میں پی ٹی جائیدادیں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ ریاست کے دارالحکومت حیدرآباد میں تقریباً 3000 اسکولس میں سے نصف تعداد میں ایسے اسکول ہیں جہاں بچوں کو کھیلنے کیلئے میدان بھی نہیں ہے، پھر بھی حکومت کو اسپورٹس پالیسی پر فخر ہے۔ جن سرکاری اسکولوں میں طلبہ کیلئے مناسب کلاسیس نہیں، مناسب اسپورٹس میں جمناسٹکس کے سازو سامان نہیں، تیراکی یا ٹینس کیلئے سہولتیں نہیں ہیں وہاں کے چیف منسٹر نے اسپورٹس کے بارے میں اپنے اُمنگ بھرے جذبات کا موقتی اظہار کیا ہے۔ یہ اکثر ایسا ہوتا آرہا ہے، سرکاری اسکولوں سے ہٹ کر خانگی اسکولوں کو بھی مسلمہ قرار دیا جارہا ہے جہاں پلے گراؤنڈس نہیں ہیں۔ شہر میں 3000 ایسے خانگی اسکولس ہیں جہاں پلے گراؤنڈس نہیں اور یہ اسکول تنگ و تاریک علاقوں میں چلائے جاتے ہیں۔

ریاست تلنگانہ کے موجودہ حکمرانوں اور سابق حکمرانوں خاص کر سقوطِ حیدرآباد سے قبل اسکولوں اور تعلیمی اداروں کیلئے حضور نظام عثمان علی خاں کی پالیسی طلبہ کیلئے ہر میدان میں روشن مستقبل کی نشانی ہوا کرتی تھی۔ گزشتہ ہفتہ نواب میر عثمان علی خاں کی50 ویں برسی کے موقع پر اگر حکومت تلنگانہ کی جانب سے تعلیمی، سماجی سطح پر کچھ پالیسی اعلانات کئے جاتے تو مرحوم سابق حکمراں کی یاد میں ایک شاندار خراج ہوتا۔ مگر تلنگانہ حکومت بنانے سے قبل حضور نظام کی مدح سرائی کرنے والے چیف منسٹر نے نواب میر عثمان علی خاں کی 50 ویں برسی کے موقع کو فراموش کردیا، اُن کے دور کے تعلیمی ادارے اور کھیل کود کے میدانوں کی ہی دین ہے کہ آج حیدرآباد میں اور تلنگانہ میں تعلیمی سطح پر کئی شخصیتوں نے نام کمایا ہے جن میں کئی سابق مرکزی اور ریاستی وزراء بھی شامل ہیں۔ دراصل ہر حکمراں کو ایماندار اور دیانتدار ہونا ہوتا ہے، حاکم ایماندار، ایثار و قربانی کا اعلیٰ نمونہ اور خدمات مثالی ہوں تو اس کا نہ صرف بیوریو کریسی بلکہ پوری ریاست اور ملک پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ جب سیاستداں خدمت کے جذبے کے بجائے ذات کیلئے اقتدار حاصل کریں تو ایسا ہی ہوگا۔
kbaig92@gmail.com