دوسروں کو تکلیف دینا

سوال : آج کے پر آشوب دور میں مسلمان روز بروز دینی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اسلامی فکر اور مزاج سے ناواقف ہوتے جارہے ہیں۔ شریعت میں کسی کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں ہے لیکن آج کل مسلمان دانستہ و نادانستہ اس میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ بعض حضرات کسی کارخیر کو نیک سمجھ کر دوسروں کو تکلیف دے رہے ہیں۔ کیا اسلام میں اس بات کی اجازت ہے کہ ہم کار خیر کرتے ہوئے کسی مسلمان یا کسی کو بھی ایذا و تکلیف پہنچائیں ۔ اس بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو واضح کریں تو مہربانی ۔
مصطفی صدیقی، لکڑی کا پل
جواب : آپؐ ہمیشہ اس بات کا شدت سے اہتمام فرماتے تھے کہ آپؐ کی کسی بات یا کسی طرز عمل سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے ، آپؐ کا ارشاد ہے : ’’ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے اس کے مسلمان بھائی محفوظ رہیں (البخاری) ۔اسی بناء پر آپؐ کو اگر کسی شخص میں موجود برائی کا ذکر کرنا ہوتا تو اس کا نام کبھی نہ لیتے، البتہ یہ فرماتے : لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں (ابو داؤد ، 143:5 ، حدیث 4788 ) ۔ ام ا لمؤمنین حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا : ’’ اللہ کے نزدیک سب سے برا شخص وہ ہے جس کی برائی کے ڈر سے لوگ اسے چھوڑدیں (البخاری (الادب) ، مسلم (البر ) 2002:24 ، حدیث 2591 ، مالک : موطا ، (حسن الخلق) ، احمد بن حنبل : مسند) ۔ آپؐ اپنے صحابہ کی بابت بھی یہ التزام فرماتے تھے کہ ان کی زبان اور کلام سے بھی کسی کا دل مجروح نہ ہو۔ ا یک موقع پر ام المومنین حضرت زینبؓ نے بتقاضائے بشریت ام المومنین حضرت صفیہؓ کو غلط انداز میں یاد کیا ۔ آپؐ کو اس سے سخت صدمہ ہوا اور کئی دن تک حضرت زینبؓ سے کلام نہ فرمایا (ابو داؤد ، 9:5 ، حدیث 4602) ۔ ایک مجلس میں ایک شخص حضرت ابوبکر ؓ کے سامنے ان کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور حضرت ابو بکر ؓ خاموش تھے لیکن جب وہ حد سے بڑھا تو حضرت ابو بکر ؓ نے اسے جواب دیا ۔ یہ دیکھ کر آپ مجلس سے ا ٹھ کر چل دیئے ۔ حضرت ابوبکرؓ نے وجہ پوچھی تو فرمایا : پہلے تمہاری طرف سے جواب دینے پر ایک فرشتہ مامور تھا ، مگر جب تم نے جواب دیا تو وہ چلا گیا اور اس کی جگہ شیطان نے لے لی اور میں کسی ایسی مجلس میں نہیں ٹھہراسکتا جہاں شیطان ہو (ابو داؤد ، 204:5 ، حدیث 4896 ) ۔ ایک مرتبہ حضرت ابو ذرؓ نے ایک صحابیؓ (حضرت بلالؓ) کو ’’ حبشی کا بیٹا‘‘ کہہ دیا ۔ آپؐ کو پتہ چلا تو فرمایا : اے ابو ذر ! ابھی تم میں جاہلی عادات باقی ہیں اور پھر انہیں معاملہ صاف کرنے کا حکم دیا ۔ (ابو داؤد ، 359:5 ، حدیث 1557 ) ۔ متذکرہ تفصیلات سے واضح ہے کہ اسلام میں مومن کے اکرام و احترام کی کافی اہمیت ہے اور کسی کی دل شکنی دل آزاری کسی صورت میں روا نہیں ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایسے کاموں سے بچیں جس سے دوسروں کو ایذاء و تکلیف پہنچتی ہو ۔

امام سے پہلے مقتدی کا رکوع و سجود سے سر اٹھانا
سوال : بعض وقت دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اس قدر جلدی میں ہوتے ہیں کہ امام کے رکوع سے اٹھنے کا انتظار نہیں کرتے اور اس سے قبل اٹھ جاتے ہیں ۔ شرعی لحاظ سے اگر کوئی امام سے قبل رکوع اور سجدہ سے سر اٹھالے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ :
خالد صدیقی، عطاء پور
جواب : مقتدی پر امام کی پیروی کرنا لازم ہے۔ اگر کوئی مقتدی امام سے قبل رکوع اور سجدہ سے ا پنا سراٹھالے تو فقہاء نے صراحت کی کہ اس کے لئے دوبارہ رکوع اور سجدہ میں چلے جانا مناسب ہے تاکہ امام کی اقتداء اور اتباع مکمل ہوسکے اور امام کی مخالفت لازم نہ آئے ۔ دوبارہ رکوع اور سجدہ میں جانے سے تکرار متصور نہیں ہوگی ۔ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 171, 170 میں ہے : من الواجب متابعۃ المقتدی امامہ فی الارکان الفعلیۃ فلو رفع المقتدی رأسہ من الرکوع اوالسجود قبل الامام ینبغی لہ ان یعود لتزول المخالفۃ بالموافقۃ ولا یصیر ذلک تکرار!

زمانۂ ماضی میں سونا منگوانے پر آج کی قیمت لینا
سوال : آج سے تقریباً چودہ (14) سال قبل سن 1997 ء میں ایک خاتون نے اپنی دیورانی صاحبہ سے ڈھائی تولے سونا سعودی عرب سے منگوایا تھا ۔ اس رضامندی پر کہ جب پیسے کی سہولت ہوگی حسب سہولت روپئے ادا کردیئے جائیں گے اور اس وقت دیورانی صاحبہ رضامند ہوکر تقریباً ڈھائی تولے سونا لے آئیں، اس وقت سونے کی قیمت کچھ کم و بیش ساڑھے تین ہزار تا چار ہزار روپئے فی تولہ کے حساب سے تھی اوران دونوں کے درمیان یہ بات طئے نہیں پائی تھی کہ جس وقت بھی روپئے ادا کئے جائیں گے وہ اس وقت بازار کی موجودہ قیمت کے حساب سے دیئے جائیں گے ۔
اب اکتوبر 2011 ء میں دیورانی صاحبہ کا اصرار یہ ہونے لگا کہ فی الوقت بازار کی موجودہ قیمت کے حساب سے روپئے ادا کردیئے جائیں جبکہ موجودہ قیمت بہت زیادہ 26,660 فی تولہ ہے ۔ بہرحال سونا منگانے والی خاتون نے اس وقت کی موجودہ قیمت فی تولہ 26,660 کے حساب سے جملہ ڈھائی تولے کی قیمت مبلغ 66,650 روپئے بتاریخ 17-10-2011 بذریعہ بینک چیک نمبر 72509 ادا کردیئے ہیں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ دیورانی نے جو زیادہ قیمت کا مطالبہ کیا یہ شرعاً درست ہے یا نہیں۔
فاروق احمد، مراد نگر
جواب : سوال میں اس امر کی وضاحت نہیں کی گئی کہ دیورانی نے سونا لاکر اس کی مقررہ قیمت بیان کردی تھی یا نہیں؟ تاہم خاتون نے حسب سہولت پیسے دینے کا وعدہ کیا تھا تو جس قیمت میں دیورانی نے ڈھائی تولے سونا خریدا تھا۔ وہی قیمت ادا کرنا اس خاتون پر لازم رہا ۔ دیورانی کا آج کی قیمت کا مطالبہ شرعاً درست نہیں۔ ہاں وہ خاتون اگر بوقت ادائی جو سونے کی قیمت ہوگی وہ ادا کرنے کا وعدہ کرتیں تو حسب وعدہ ان کو موجودہ سونے کی قیمت ادا کرنا لازم ہوتا۔دیورانی کو چاہئے کہ وہی قیمت لے جس قیمت میں اس نے 14 سال قبل سونا لایا تھا۔

سجدہ سہو
سوال : تین یاچار رکعت والی نماز میں اگر دوسری رکعت کا قعدہ اگر بھول جائے اور غلطی سے تیسری رکعت کیلئے ٹھہر جائے تو کیا حکم ہے ۔
محمد وسیم الدین، کاچی گوڑہ
جواب : نماز میں بعض چیزیں فرض کا درجہ رکھتی ہیں اور بعض واجب کا ، اگر کوئی فرض ترک ہوجائے تو نماز نہیں ہوگی اور اگر واجب چھوٹ جائے تو اس کی پابجائی سجدہ سہو کے ذریعہ ہوسکتی ہے ۔ صورت مسئول عنہا میں قعدہ اولی واجبات نماز میں سے ہے اگر یہ بھول جائے اور تیسری رکعت میں مکمل ٹھہرنے سے پہلے یاد آجائے تو دوبارہ قعدہ میں چلے جانا چاہیے’ اور اگر مکمل طور پر کھڑا ہوجائے تو پھر نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرلیں ۔

بعد وفات آنکھ، گردہ سے متعلق وصیت کرنا
سوال : آپ سے معلوم کرنا ہے کہ کیا کوئی مسلمان اپنی زندگی میں اپنے لواحقین کو وصیت کرسکتا ہے کہ بعد انتقال اس کی آنکھیں ، گردے وغیرہ دوسروں کے استعمال کے لئے یعنی لگانے کیلئے دیئے جائیں۔ Donate) کرنے کیلئے) اس بارے میں شرعی احکام کیا ہیں۔ کیا ایسا عمل ثواب کا کام ہوگا یا گناہ ؟ برائے مہربانی معلوم کریں۔ غیر مسلمین میں یہ رواج ہے کہ دواخانوں کو پہلے سے کہہ دیا جاتاہے اور وہ ڈاکٹرز بعد مرنے کے اسے لے جاتے ہیں اور ضرورت مند لوگوں کو آپریشن کے ذریعہ لگاتے ہیں۔
محمد حامد رشید
جواب : جس چیز کی وصیت کی جارہی ہے، وصیت کنندہ کا اس کا مالک ہونا ضروری ہے ۔ اگر کوئی شخص غیر مملوکہ چیز کی وصیت کرے تو وہ شرعاً باطل ہے ۔ وصیت کا مفہوم یہ ہے کہ وصیت کنندہ تاحیات جس چیز کا مالک و متصرف ہے بعد وفات وہ چیز موصی لہ ، (جس کے حق میں وصیت کی جارہی ہے) کی ملک ہوگی۔ ازروئے شرع انسان کو اپنی حین حیات اپنے اعضاء فروخت کرنے کا حق نہیں۔ حتی کہ بوقت ’’ اضطرار ‘‘ مردار بھی حلال ہوجاتا ہے لیکن ایسے وقت میں کوئی پیشکش کرے کہ میرا ہاتھ کاٹ لو اور کھاکر اپنی جان بچاو، ایسے وقت بھی انسان کا عضو کاٹ کر استعمال کرنا مباح نہیں۔ حاشیہ ابن عابدین جلد 5 ص : 215 میں ہے : وان قال لہ : اقطع یدی وکلھا لایحل لان لحم الانسان لایباح فی الاضطرار و لکرامتہ ۔ فتاوی خانیہ جلد 3 ص : 404 میں ہے: مضطری یجد المیتۃ وضاف الھلاک فقال لہ اجل : اقطع یدی وکلھا لا یسعہ الامر ۔ اعضاء انسانی سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں۔ فتاوی عالمگیری جلد پنجم ص : 354 میں ہے : الانتفاع باجزاء الآدمی لم یجز قیل للنجاسۃ وقیل لکرامتہ وھو الصحیح ۔ نیز انسان کے انتقال کے ساتھ ہی اس کی مملوکہ ہر چیز میں اس کے ورثہ کا حق متعلق ہوجاتا ہے لیکن مرحوم کے جسم اور اس کے اعضا پر اس کے ورثہ کا کوئی حق ثابت نہیں ہوتا کیونکہ وہ اللہ کی امانت ہے ۔ بعد انتقال آدمی جس کا مالک و متصرف نہ رہے ، اس کے متعلق وصیت کرنا شرعاً باطل ہے۔ لہذا اگر کوئی اپنی آنکھ ، گردہ و دیگر اعضاء بعد وفات دوسرے ضرورتمندوں کو دینے کی وصیت کرے تو ایسی وصیت ناقابل نفاذ ہے ۔ بظاہر اس میں انسانی ہمدردی معلوم ہورہی ہے لیکن در حقیقت یہ انسانی عظمت و احترام کے قطعاً منافی ہے۔

ایک کی خریدی پر ایک مفت
سوال : آج کل دکاندار گاہکوں کو اپنی طرف رجہانے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کر رہے ہیں ۔ بعض ایک کی خریداری پر دو چیزیں دیتے ہیں اور کوئی اس سے زیادہ کا آفر کرتے ہیں اور بعض کسی چیز کی خریدی پر ایک ٹوکن دیتے ہیں جس کے نام قرعہ اٹھ جائے اس کو انعام اور تحفہ میں قیمتی اشیاء مثلاً کار ، فریج وغیرہ دیتے ہیں تو شرعی نقطہ سے ایسی خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں ؟اس میں کہیں سود تو نہیں؟
مذکر خان، فتح دروازہ
جواب : مالکین تجارت گاہکوں کو اپنی مصنوعات کی طرف راغب کرنے کیلئے ایک کپڑے کی خریدی پر مثلاً دو یا تین کپڑے کا پیشکش کرتے ہیں۔ شرعاً اس کے لینے میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور نہ ہی اس میں سود یا حرمت کا شائبہ ہے۔ سود کا اطلاق بلا عوض زیادتی پر ہوتا ہے ، اس قسم کی خریداری میں فروخت کنندہ اپنی مبیع (بیچے جانے والی چیز) کی قیمت کو کم کردیتا ہے اور ایک کی قیمت میں دو یا اس سے زائد دیتا ہے۔ اور مالک کو اپنی چیز اپنی قیمت خرید سے کم میں فروخت کرنے اور بلا قیمت دینے کا اختیار ہے، اس لئے اس قسم کی خریداری میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔
اسی طرح جو تجارتی ادارے اپنے خریداروں کو خریدی پر ٹوکن دیتے ہیں اور نام آنے پر نقد رقم یا قیمتی ساز و سامان گاڑی وغیرہ دیتے ہیں، شرعاً یہ مالک کی طرف سے انعام ہے اس لئے اس کے لینے میں شرعاً کوئی امر مانع نہیں تاہم اس قسم کے معاملات میں نفسِ خریدی کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔

رضاعی بھتیجی سے نکاح
سوال : ولی الدین نے اپنی حقیقی نانی بلقیس کا دودھ پیا اور اب وہ بلقیس کے فرزند عبدالقادر کی لڑکی امجدی یعنی بلقیس کی پوتری سے نکاح کرنا چاہتا ہے ۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
عبدالمقتدر ، بنجارہ ہلز
جواب : صورت مسئول عنہا میں ولی الدین اپنی نانی کے رضاعی بیٹے ہوگئے۔ ولی الدین کی نانی کی اولاد ان کی رضاعی بھائی بہن ہوگئے اور ان کی اولاد ان کے بھانجہ و بھتیجہ ہوئے۔ لہذا یہ نکاح درست نہیں جیسا کہ شرح وقایہ جلد 2 ص : 66 میں ہے۔ فیحرم منہ مایحرم من النسب ۔