دنیا کو سوچنا ہوگا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں ترک وزیر خارجہ کا فکر انگیز خطاب

محمد ریحان
نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ کی دو مساجد مسجد النور اور لن ووڈ مسجد میں سفید فام آسٹریلیائی دہشت گرد کے حملوں میں 51 مسلمان شہید ہوئے جن میں کمسن بچے اور خواتین بھی شامل تھیں ۔ ساری دنیا نے ان دہشت گردانہ واقعات کی مذمت کی اور مذمت کرنے والے ملکوں میں ترکی، اس کے صدر رجب طیب اردغان آگے آگے رہے۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا اجلاس 2 اپریل کو منعقد ہوا جس میں نیوزی لینڈ میں دہشت گردانہ حملوں کی شدید مذمت کی گئی ۔ اس موقع پر ترکی کے وزیر خارجہ مولود جاویش اوغلو نے بھی ایک تاریخی خطاب کیا جس میں انہوں نے عالمی برادری کو دہشت گردی کے مسئلہ پر دوغلے پن سے گریز کرنے اور اس خطرہ کا متحدہ مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ذیل میں ان کے خطاب یا تقریر کے اقتسابات پیش کئے جارہے ہیں: جناب صدر، … وزراء ، معزز نمائندو ، آج ہم اس ایک چھت تلے جمع ہوئے ہیں جسے ضمیر انسانی کے پارلیمنٹ کی حیثیت سے قائم کیا گیا تھا تاکہ ہم تمام کیلئے بڑھتے خطرہ سے نمٹنے کی تدابیر و حکمت عملی تیار کی جاسکے اور تمام کیلئے درپیش اس ایک خطرہ کے خلاف متحدہ و مشترکہ موقف کا مظاہرہ کرسکیں۔

آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہم تمام کو انسانی زندگی کی حرمت کے تحفظ کیلئے جمع کیا ہے اور جہاں تک انسانی زندگی کی حرمت اور اس کی نفاست و پاکیزگی کا سوال ہے یہ ہمارا بنیادی اثاثہ ہے لیکن اس بنیادی اثاثہ کو دہشت گردوں اور دہشت گردی سے خطرہ لاحق ہے۔15 مارچ 2019 کو نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ میں جب ایک فاشسٹ و درندہ صفت دہشت گرد جو ذہنی طور پر انتہائی منظم تھا اور اس کے پیچھے ایک غیر معمولی منصوبہ بندی کی گئی تھی نے دہشت گردانہ حملہ کرتے ہوئے 51 مسلمانوں کو شہید کردیا اس درندہ نے صرف مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا صرف انہیں ہی شہید نہیں کیا بلکہ اس نے ان حملوں کے ذریعہ انسانیت کے مشترکہ اقدار کو نشانہ بنایا۔
آج ہم یہاں ان دہشت گردانہ حملوں کے خلاف بہت ہی بامعنی اتحاد و یگانگت کا اظہار کررہے ہیں۔ اس اسلام دشمن ، انسان دشمن حملے کی مذمت کرنے اور حملوں میں اپنی زندگیوں سے محروم افراد کی یاد منانے جمع ہوکر دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ انسانیت ہی سب سے بالاتر ہے۔ ہم تمام دہشت گردوں کے خلاف متحدہ و مشترکہ اور سخت موقف رکھتے ہیں اور دنیا کو خـبردارکرتے ہیں ساتھ ہی دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ تم نفرت کی چکروں اور گتھیوں میں اُلجھ کر دھندلا کر ختم ہورہے ہو۔ تم جو دنیا میں نفرت و خوف اور تشدد پھیلانے کی کوشش کررہے ہو اس میں تمہیں کبھی کامیابی نہیں ملے گی۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے چھت تلے تمام مذاہب و عقائد کے ماننے والوں، دنیا کے ہر علاقہ کے رہنے والوں، ہر طبقہ و نسل اور قومیت کے حامل نمائندوں کا عزم تمہاری گندی سوچ و فکر اور نظریات رکھنے والے حملوں کا انتہائی بامعنی ردعمل کا مظہر یا عکاس ہے۔

دنیا کے مختلف اقوام کے قابل قدر و معزز نمائندہ و ترک عوام کی جانب سے میں ان معصوم و بے قصور لوگوں کے غمزدہ ارکان خاندان سے قلب کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اظہار تعزیت کرتا ہوں جن کا عبادت کے مقدس مقامات پر انتہائی بیدردانہ انداز میں قتل کیا گیا اور پھر ایک بار ہم نیوزی لینڈ کی حکومت اور اس کے عوام سے بھی اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ کرائسٹ چرچ کی مساجد میں دہشت گردانہ حملوں کے فوری بعد ہمارے صدر محترم رجب طیب اردغان نے ہمارے ملک کے نائب صدر اور مجھے نیوزی لینڈ کا دورہ کرنے کی ہدایت کی تاکہ وزیر اعظم محترمہ جسیندا آرڈرن اور ان کی زیر قیادت حکومت کے ساتھ یگانگت کا اظہار کیا جاسکے۔ ہم نے نیوزی لینڈ میں بچشم خود عوام کے درمیان پائے جانے والے مضبوط اتحاد اور ان کے وقار کا مشاہدہ کیا ہے اور یہ بھی دیکھا کہ کس طرح وہ لوگ اپنے ملک میں رہنے والی مسلم کمیونٹی کو اپنائے ہوئے ہیں۔
جیسا کہ آپ تمام جانتے ہیں کہ ترکی ایک ایسا ملک ہے جہاں برسوں سے دہشت گردی کی تمام اشکال کے خلاف پورے عزم و جوانمردی کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر مقابلہ کیا ہے آج ہم داعش اور پی کے کے ، پی وائی ڈی، وائی پی جی دونوں کے ساتھ ساتھ ڈی ایچ کے پی سی اور FETO کے خلاف اس عزم و حوصلہ کے ساتھ بے تکان جدوجہد کررہے ہیں۔ جہاں ہم دہشت گرد تنظیموں اور ان کے دہشت گردوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ساتھ ہی عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف مقابلہ کی کوششوں کو مستحکم بھی بنارہے ہیں اور اس لڑائی میں ترکی اولین ترجمان میں شامل رہے گی۔ اس باہمی سمجھ بوجھ کے ساتھ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن، سمٹ کے صدر نشین کی حیثیت سے ہم نے 22 مارچ کو استنبول میں تنظیم اسلامی تعاون کی مجلس عاملہ کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا اور ہم نے اپنے مشترکہ بیان میں ساری دنیا پر یہ واضح کردیا کہ بلا لحاظ ان کے مقاصد کس نے کہاں دہشت گردی کا ارتکاب کیا اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان لوگوں نے کس کو نشانہ بنایا۔ دہشت گردوں کی کس کارروائی کو منصفانہ قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی معاف کیا جاسکتا ہے۔ دہشت گردی صرف دہشت گردی ہے۔ کرائسٹ چرچ حملوں کے المیہ نے دنیا کو دکھادیا ہے کہ عدم تحمل ، عدم برداشت، نسل پرستی، اسلامی فوبیا اور اجنبیوں سے نفرت ENOPHOBIA کی کیفیت یا رجحان انسانیت کیلئے سب سے بڑے خطرات ہیں اور ان خطرات کی سنگینی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خطرات ساری انسانیت کو برباد کررہے ہیں اور یہ ایسے حقائق ہیں جو بلا شبہ اکثر اسلامی فوبیا اور نسل پرستی سے مربوط ہوتی ہیں اور گتھیوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔ ان گتھیوں کو سلجھانا ضروری ہے۔ نسل پرستی، اجنبیوں اور دوسرے اقوام سے نفرت، اسلام دشمن بیانات اور تشدد کو کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ان ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی یا پہلوتہی نہیں کرسکتی۔ آج دنیا کیلئے دوسری اقوام سے نفرت اور نسل پرستی کے خلاف انسانیت کی مشترکہ آواز کو سننا ضروری ہوگیا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہر اس پلیٹ فارم اور تمام انسانیت کے تحفظ کا عہد ہو اور اس کیلئے ہم تمام کو انسانیت کے ایک حصہ کی حیثیت سے متحدہ طور پر کھڑا ہونا چاہیئے۔
یہ بھی اعلان کیا جانا چاہیئے کہ کسی بھی قسم کی نسل پرستی بشمول اسلام مخالف، یہود مخالف اور عیسائیت دشمن نسل پرستی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہمیں یہ بات اپنے ذہنوں میں رکھنی ہوگی دنیا میں جہاں ایک شخص تک محفوظ نہیں ہے ہم ایسے میں سے بھی کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اسی نکتہ سے اس مسئلہ کی تہہ تک پہنچنا چاہیئے اور اسے حل کرنا چاہیئے۔ یاد رکھیئے اگر ہم مشترکہ و متحدہ طور پر دہشت گردی ، نفرت و نسل پرستی کے خلاف شعور بیدار کریں گے اور مشترکہ عزم کا اظہار کریں گے تب ہی متحدہ طور پر ان مشترکہ خطرات سے نمٹ پائیں گے۔
عزت مآب وزراء ، معزز نمائندگان ، دنیا میں چاہے کہیں بھی ہوں بنیاد پرستی کا عمل ہی ہے جو دہشت گردی کو پروان چڑھارہا ہے۔ اور دہشت گردانہ کارروائیاں فریب نظر اور تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے علاوہ زہریلی سازشوں پر مبنی نظریات کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ یہ بھی ہمیں ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ لاپرواہ ، بے حس سیاستداں اور میڈیا اوٹ لییٹس جو اسلام کو دہشت گردی سے جوڑتے ہیں ان وجوہات میں شامل ہیں جن کے نتیجہ میں ہی دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوگیا ہے۔ ہم ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کا انکار اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم اس پلیٹ فارم کے ذریعہ اس قسم کے بے محل، غیر منصفانہ اور ہمارے شاندار و عظیم دین اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے اور اسے دہشت گردوں کا مذہب کہنے والوں کی ان کے بیانات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ساری دنیا کو بتادیں کہ اسلام کا مطلب خود امن ہے۔ امن اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ ہم تمام کو اسلامی دہشت گردی ، عیسائی دہشت گردی ، یہودی دہشت گردی اور بدھسٹ دہشت گردی کے تصورات و نظریات کو مسترد کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس کی کوئی زبان نہیں ہوتی، نسل اور قومیت نہیں ہوتی۔ دہشت گردی دراصل انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ میڈیاا ور سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سچائی کو اس حقیقت کو تسلیم کریں اور عالمی سطح پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان افہام و تفہیم اور باہمی سمجھ بوجھ کو فروغ دینے کا باعث بن جائیں۔ یہ بڑھتی ناانصافی، تعصب، امتیاز ، عدم رواداری نفرت پر مبنی جرائم اور منافرت پر مبنی تقاریر کو روکنے ان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کیلئے موثر اقدامات کرنے کا وقت ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ساری اقوام ان جرائم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔معاشروں کو نفرت و عداوت کے زہر سے بچائیں۔ ہمیں اس کے لئے معاشرہ کے تمام عناصر، نظریہ سازوں، سیاسی قائدین، میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذمہ داروں کو متحرک کرنا ہوگا اور جو عناصر دہشت گردی کا ماحول تیار کرتے ہیں دہشت گردوں کو مالیہ فراہم کرتے ہیں اور دہشت گردوں کی تائید و حمایت کرتے ہیں انہں کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔ نفرت پر مبنی جرم پر قابو پانا ہوگا۔

اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے جنرل اسمبلی کی صدر مس ایسپی کوسا نائب صدر سفیر الثانی ، رکن ممالک کے ارکان کا بطور خاص شکریہ ادا کیا اور تقریر کا اختتام حضرت جلال الدین رومی ؒ کے ایک قول کا حوالہ دیا جس میں مولانا روم لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ رواداری کے کانوں سے سماعت کریں، ہمدردی کی نظروں سے دیکھیں، محبت کی زبان بولیں …