دنیا ، یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

میرا کالم             سید امتیاز الدین
ہر ملک میں کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت ہوتی ہے جس پر سارے ملک کو ناز ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کو جس ہستی پر فخر ہے وہ بابائے قوم مہاتما گاندھی ہیں۔ مہاتما گاندھی ہندوستان کی پہچان ہیں۔ گاندھی جی پر جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں شاید ہی کسی کے بارے میں لکھی گئی ہوں۔ دیہاتوں سے لے کر بڑے شہروں کے چوراہوں پر شاید ہی کوئی جگہ ایسی ہو جہاں ان کا مجسمہ نہ لگا ہو۔ ہرمدرسہ، کالج، سرکاری دفتر، عدالت، پولیس اسٹیشن، اسمبلی، پارلیمنٹ میں ان کی تصویر لگی ہے۔ ان کی سمادھی راج گھاٹ پر کروڑوں لوگ عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ ہر ملک کا پرائم منسٹر یا صدر جب ہندوستان آتا ہے تو وہ ضرور اُن کی سمادھی پر حاضری دیتا ہے۔ انہوں نے انگریزی حکومت کے خلاف پُرامن جنگ  لڑی اور کئی بار جیل گئے۔ آج دہشت گردی کا زمانہ ہے لیکن گاندھی جی کا ہتھیار ستیہ گرہ تھا۔ گاندھی جی کی شناخت چرخے سے ہوتی تھی۔ انہوں نے چرخے کو قومی سطح پر عام کیا۔ ان کا یوم پیدائش 2 اکٹوبر قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے اور یوم وفات 30جنوری کو سارا ملک 11بجے خاموشی مناتا ہے۔ ہماری کرنسی پر اُن کی تصویر ہوتی ہے۔ کھادی سے اُن کی دلی وابستگی کے پیش نظر کھادی گرام ادیوگ کے کیلنڈر پر ان کی تصویر ہوا کرتی تھی، آج کل ملک کی ہوا اور فضاء بدلی ہوئی ہے۔ اس سال روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس کیلنڈر پر گاندھی جی کی بجائے پردھان منتری نریندر مودی کی تصویر چھاپی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ملک کے سمجھ دار عوام اس تبدیلی سے ناخوش ہیں اور صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔ ستم بالائے ستم پنجاب کے ایک رکن اسمبلی نے اس نازیبا تبدیلی پر اپنی طرف سے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ان کی منطق  یہ ہے کہ گاندھی جی کی تصویر کی وجہ سے کھادی انڈسٹری ڈوب رہی تھی بلکہ کرنسی نوٹوں پر گاندھی جی کی شبیہہ کی وجہ سے روپے کی قدر و قیمت بھی گھٹ رہی تھی۔ جب ان کے بیان پر طرف سے مذمت ہوئی تو انھوں نے بیان واپس لے لیا۔ کمان سے نکلا ہوا تیر اور منھ سے سے نکلی ہوئی بات کبھی واپس نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک میں یہ وباء عام ہوگئی ہے کہ لوگ نامناسب بات کہہ دیتے ہیں اور جب صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے تو بیان واپس لے لیتے ہیں۔

کہتے ہیں مجھ کو ہوش نہیں اضطراب میں
ان کی پارٹی اپنی بے تعلقی کا اظہار کرکے پلہ جھاڑ لیتی ہے۔ یہ کھیل عرصے سے چل رہا ہے ۔ ایک بار مہاتما گاندھی کی خدمت میں ایک انگریز نے بحری سفر میں ایک شخص کا خط پیش کیا تھا جس میں ان کے بارے میں گالیاں لکھی ہوئی تھیں۔ وہ خط دو صفحات پر مشتمل تھا اور خط کو ایک پن لگا ہوا تھا۔
گاندھی جی نہ غصہ میں آئے اور نہ خفگی کا اظہار کیا۔ صرف کاغذات کو لگی ہوئی پِن اپنے پاس رکھ لی اور اتنا کہا کہ اس خط میں کام کی چیز صرف یہی ایک پِن تھی ، اور خط کوڑادن میں ڈال دیا۔ ایسے صبر و تحمل کا اظہار گاندھی جی ہی کرسکتے تھے۔ مہاتما گاندھی نے مرتے وقت اپنے قاتل کو نمستے کہا تھا۔ آج اسی قاتل کے نام لیوا نت نئے طریقوں سے اذیت پہنچانے میں لگے ہیں اور ساری قوم حیرت زدہ ہے۔
امریکی قوم آج بھی ابراہام لنکن کو پورے احترام سے یاد کرتی ہے جبکہ لنکن کو گزرے ہوئے صدیاں بیت گئیں۔ جمہوریت کی تعریف کیلئے لنکن کا جملہ govt for the people, of the People and try the people استعمال کیا جاتا ہے۔
سر ونسٹن چرچل کے جنازہ میں جتنا ہجوم دیکھا گیا ویسا ہجوم برطانیہ میں اس سے پہلے دیکھاگیا اور نہ اس کے بعد۔

آج کل جواہر لعل نہرو پر کیچڑ اُچھالنے کا سلسلہ بھی زوروشور سے جاری ہے حالانکہ نہرو نے بھی ملک کی بے لوث خدمت کی ۔ نہرو نے بھاکڑانگل اور کئی پراجکٹس بنوائے، سائینس لیباریٹریز، پنچسالہ منصوبوں کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ہندوستان کو امن کا پیامبر بنایا اور ساری دنیا میں اس کی عزت بڑھائی۔ اپنی بیٹی کو ملک کے اگلے وزیر اعظم کے طور پر نامزد نہیں کیا۔ نہرو کے انتقال کے بعد اندرا گاندھی کو وزیر بنایا گیا، پھر کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ وہ وزیر اعظم بن گئیں۔ہم ہندوستانی اپنے محسنوں کو بہت جلد فراموش کردیتے ہیں۔ حیدرآباد کے آخری حکمران عثمان علی خان نے حیدرآباد کو کتنی بلندیوں پر پہنچایا، جامعہ عثمانیہ، عثمانیہ ہاسپٹل، عدالت العالیہ، کئی مدارس اور کالجس، محکمہ آرائش بلدہ، کئی یادگار عمارتیں، ملک کے مختلف اداروں کو فراخدلانہ عطیے، آب رسانی کا انتظام، ڈرینج کا لاجواب انتظام،لاسکی ریلوے کا جال جو سارے ملک میں مشہور تھا، لیکن آج اس بادشاہ کو کون یاد کرتا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں کرسکتا۔ بحیثیت وزیر تعلیم ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی سادگی اپنی مثال آپ تھی۔ وہ ایک بے مثال ادیب تھے، ایک شعلہ بیان مقرر تھے۔ وزیر تعلیم کی قابلیت اور علمیت کا جو معیار ہونا چاہیئے، مولانا اس پر پورے اُترتے تھے۔ آج مولانا کا نام کوئی نہیں لیتا۔

ہندوستان پچاس کی دہائی میں غذائی بحران کا شکار تھا۔ پرل بک نے اپنی شاہکار کتاب ” Good Earth” میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ امریکہ میں اُن دنوں غلہ اتنی بڑی مقدار میں پیدا ہوتا تھا کہ بہت سا غلہ یا تو جلادیا جاتا تھا یا دریا میں بہادیا جاتا تھا۔ امریکہ کے ایک سنیٹر نے تجویز رکھی تھی کہ ایسے فاضل غلے کو ہندوستان بھیج دیا جائے جہاں اجناس کی قلت ہے۔ اور تو اور سعودی عرب نے امداد کے طور پر کھجور بڑی تعداد میں روانہ کئے تھے۔ ان دنوں کے ایم منشی ہمارے وزیر زراعت تھے، انہوں نے تجویز رکھی تھی کہ عوام ہفتے میں ایک دن برت رکھیں۔ ایسے میں رفیع احمد قدوائی کو زراعت کا قلمدان دیا گیا۔ رفیع احمد قدوائی نے زراعت کا قلمدان سنبھالا اور اتنے کامیاب ہوئے کہ چند ہی برسوں میں غذائی قلت دور ہوگئی اور راشننگ برخواست ہوگئی۔ اسی طرح وزیر مواصلات یعنی پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف کے وزیر کی حیثیت سے بھی وہ بہت کامیاب رہے تھے۔ آج کے دور میں ایک معمولی سا آفیسر بھی لاکھوں کروڑوںکا مالک ہوتا ہے لیکن رفیع احمد قدوائی کے انتقال کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مقروض بھی تھے۔ ایسے کامیاب اور مخلص خادم قوم کے بارے میں کوئی نہ کچھ جانتا ہے اور نہ ان کا نام لیتا ہے۔

اندرا گاندھی کے قتل کو آج تیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج لوگ اپنے مفاد کی خاطر انہیں ہدف ملامت بناتے ہیں حالانکہ انہوں نے بھی ملک کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی غلطی ایمرجنسی کا نفاذ تھا۔ لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ الیکشن ہار جائیں گی انہوں نے وقت پر انتخابات کروائے اور الیکشن ہار گئیں۔ ان کی حرکیاتی شخصیت کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے تھے۔ جب ان کا قتل ہوا تو ایک مشہور انگریزی اخبار نے شہ سرخی لگائی تھی What a Women آج لوگ اندرا گاندھی کو ہر غلطی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جبکہ ان سے بڑی غلطیاں ہم دیکھ رہے ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ پچھلی صدی میں ہمارے لیڈرس اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوا کرتے تھے۔ خود گاندھی جی اور نہرو بیرسٹر تھے۔ آج کے رہ نما اپنے استاد آپ ہیں۔ بہر حال مہاتما گاندھی کی توہین ایک شرمناک واقعہ ہے جس سے ہر سمجھدار آدمی کو خبردار ہوجانا چاہیئے۔ کیونکہ یہ بظاہر ایک غیر اہم واقعہ آنے والے دنوں کی ایک جھلک ہے۔