دلچسپ ادبی حقائق

عارف لکھنوی
غزل کا ایک مشہور مطلع ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
عام طور سے مندرجہ بالا مطلع مولانا ظفر علی خان (1873-1956) کے نام سے مشہور ہے ، لیکن یہ مطلع ایک گمنام شاعر بسمل شاہجہانپوری کا ہے جس نے شاہجہانپور (یو پی) کے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی ، کم و بیش 1893 ء میں ہوش سنبھالنے کے بعد اس کے دل و دماغ میں یہ تڑپ تھی کہ وطن کو برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہونا چاہئے ۔ 1916ء میں ان کا رابطہ انہی خیالات کے حامل چند اور نوجوانوں سے ہوا ۔ 1918 ء میں ’’مین پوری‘‘ سازش کیس کے ایک اہم واقعہ میں بسمل بھی شریک تھے ۔ وہ کچھ عرصہ روپوش رہے جب فرنگی حکومت کے شاہی فرمان کے مطابق ان کے وارنٹ گرفتاری واپس لے لئے گئے تو وہ ریشمی کپڑے کا ایک کارخانہ کھول کر خاموش زندگی بسر کرنے لگے ۔

مگر یہ زندگی ان کی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی تھی ۔ 1922 میں رام پرشاد بسمل شاہجہانپوری ہندوستان سوشلسٹ ری پبلک اسوسی ایشن کا اہم کارکن بن گئے ۔ وہ ماہر نشانہ باز اور کارکردگی کے لئے مشہور تھے ۔ 9 اگست 1925ء کو انھوں نے کاکوری (لکھنؤ کا ایک مشہور قصبہ) ٹرین ڈکیتی کی واردات میں حصہ لیا ۔ یہ دراصل سیاسی نوعیت کی واردات تھی اس میں گرفتار ہوگئے ۔ کئی ماہ تک مقدمہ چلا آخرکار 19 دسمبر 1927 ء کو انھیں پھانسی دے دی گئی ۔ موصوف شعر و ادب کا اعلی ذوق رکھتے تھے ۔ ان کے مقدمے کی کارروائی کے دوران ان کی کئی نظمیں مشہور ہوئیں ۔ حکام نے بسمل کے کلام پر پابندی عائد کردی تھی مگر بقول کسے ’’نالہ بھی کہیں پابند نَے ہوا ہے‘‘ ۔
بسمل شاہجہانپوری کی جو نظمیں زمانے کی دست برد سے محفوظ رہ گئیں ، ان میں مشہور نظم یہی ہے ۔ نظم کے ابتدائی چار اشعار اور مقطع 1929 میں ’’بندے ماترم‘‘ نامی رسالے میں بقیہ اشعار اور مقطع اسی سال ’’کانگریس پشپانجلی‘‘ میں شائع ہوئے تھے ۔ مکمل نظم صفحہ قرطاس پر پیش خدمت ہے ۔
رام پرشاد بسمل شاہجہانپوری

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
رہرو راہ تمنا رہ نہ جانا راہ میں
لذت صحرا نوردی دوری منزل میں ہے
وقت آنے دے بتادیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
اے شہید ملک و ملت تیرے جذبوں کے نثار
تیری قربانی کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
ساحل مقصود پر لے چل خدارا ناخدا
آج ہندوستان کی کشتی بڑی مشکل میں ہے
دور ہو اب ہند سے تاریکی بغض و حسد
بس یہی حسرت یہی ارماں ہمارے دل میں ہے
وہ نہ اگلے ولولے ہیں اب نہ ارمانوں کی بھیڑ
ایک مٹ جانے کی حسرت اب دل بسمل میں ہے
میر انیس (1802-1874) ایک مرثیہ میں یہ دعائیہ مصرع کہہ چکے تھے ۔
یارب رسول پاکؐ کی کھیتی ہری رہے
مگر دوسرا مصرع حسب دل خواہ موزوں نہیں ہورا تھا ۔ دیر سے اسی فکر میں تھے ۔ میر انیسؔ کی اہلیہ اس طرف سے گذریں پوچھا کس سوچ میں بیٹھے ہیں ۔ موصوف نے اپنا مصرع پڑھا اور کہا دوسرا مصرع سوچ رہا ہوں ۔ بیوی نے بے ساختہ کہا یہ لکھ دو ۔
صندل سے مانگ ، بچوں سے گودی بھری رہے
میر انیس پھڑک اٹھے فوراً یہ مصرع لکھ لیا ۔ مطلع مکمل ہو کر زبان کی لطافت اور محاورے کی خوبی سے ضرب المثل ہوگیا۔

یارب رسول پاکؐ کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ ، بچوں سے گودی بھری رہے
پہلا مصرع میر انیس کا دوسرا ان کی بیوی نے مکمل کیا ۔
خاندان مغلیہ کے نامور حکمراں اورنگ زیب عالمگیر (متوفی 1707) نے جو پابند شریعت حکمران تھا ایک دفعہ حکم جاری کیا کہ تمام طوائفیں فلاں تاریخ تک نکاح کرلیں ورنہ انھیں کشتی میں بھر کر دریا برد کردیا جائے گا ۔ بہت سی طوائفوں نے نکاح کرلئے اور شریفانہ زندگی بسر کرنے لگیں مگر بہت سی رہ بھی گئیں ۔ یہاں تک کہ مقررہ تاریخ میں ایک دن باقی رہ گیا ۔ اس زمانے میں شیخ کلیم اللہ دہلوی مشہور بزرگ تھے ۔ ایک طوائف روزانہ آپ کی خدمت میں حاضری دیا کرتی تھی ۔ جب آپ وظائف سے فارغ ہوتے وہ سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ۔ آپ نظر اٹھاتے تو خاموشی سے سلام پیش کرکے چلی جاتی ۔ اس تاریخ کو وہ حاضر خدمت ہوئی تو سلام کرتے وقت یہ الفاظ کہے ۔ آج خادمہ کا آخری سلام قبول ہو ۔ شیخ موصوف نے حقیقت حال دریافت فرمائی تو طوائف نے سارا حال گوش گذار کردیا ۔ آپ نے فرمایا تم حافظ شیرازی کا یہ شعر یاد کرلو۔
در کوئے نیک نامی مارا گزر نہ دادند
گر تو نمی پسندی تغیرٔ کن قضارا
(نیک نامی کے کوچے میں ہمیں نہیں جانے دیا گیا اگر تو پسند نہیں کرتا تو قضا کو بدل ڈال) اور یہ فرمایا مقررہ دن دریا کی طرف جاتے ہوئے سب مل کر بلند آواز سے یہ شعر پڑھتی ہوئی جانا ۔ مقررہ دن جو طوائفیں یہ شعر سوز و رقت سے باآواز بلند پڑھتی ہوئی دریا کی جانب روانہ ہوئیں تو ایک سماں سا بندھ گیا ۔ سب لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور سڑکوں پر جمع ہوگئے ۔ بادشاہ کو اطلاع ملی تو وہ بھی اس نظارے اور شعر سے متاثر ہوا اور اس نے طوائفوں کو ڈبوئے جانے کا حکم منسوخ کردیا ۔ یہ واقعہ منشی محمد دین فوق (1877-1945) نے اپنی تصنیف ’’وجدانی نشتر‘‘ میں درج کیا ہے ۔

میر تقی میر (متوفی 1810ء) کی شاعری کے اعتراف میں مرزا غالب (1797-1869) کا ایک مقطع ناسخ متوفی 1838ء کے حوالے سے مشہور ہے ۔
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بہ قول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
یہ سب جانتے ہیں لیکن ناسخ کا مکمل شعر کیا ہے ؟ بہت سے حضرات کو نہیں معلوم ہوگا چند محققین کے سوا شاید ہی کسی کو معلوم ہو ۔ یہ مقطع مندرجہ ذیل ہے ۔
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
شیخ امام بخش ناسخ لکھنوی کے بھی کئی درج ذیل اشعار ان کی مشکل پسندی کے باوجود ضرب المثل ہیں ۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد
سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین محمد بابر ء اپنی مادری زبان فارسی کا اچھا شاعر تھا ۔ اس کا ایک مصرع کم و بیش 496 سال سے ضرب المثل ہے ۔

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
مصرع اولی بہت کم صاحبان ذوق کومعلوم ہوگا
ہندوستان پر حملے (1526ء) سے پہلے بابر نے کابل پر ایک مرغزار میں حوض بنوایا جو شربت ارغوان سے ہمیشہ لبریز رہتا ۔ وہاں اپنے خوش طبع دوستوں کے ساتھ بزم عیش و عشرت منعقد کرتا تھا اسی مناسبت سے درج ذیل شعر کہہ کر حوض کی منڈیر پر کندہ کرایا تھا۔
نو روز و نو بہار مئے ودلبرِ خوش است
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
(نئے سال کا جشن ہو ، موسم بہار میں تازہ شربت ارغوان ہو اور حسن و جمال مرصع معشوق ہو ۔ بابر عیش کے اس خزانے کو خوب خرچ کرلے کیونکہ یہ زندگی دوبارہ پلٹ کر نہیں آئے گی)

خاندان مغلیہ کے نامور حکمران شاہجہاں جب سریر آرائے سلطنت ہوئے تو اس وقت کے شاہ ایران نے بذریعہ قاصد ایک خط روانہ کیا اور اعتراضاً لکھا کہ آپ تو ہند کے فرماں روا ہیں ، ہند کو آپ نے جہاں کس طرح تصور کرلیا ہے ۔ اعتراض معقول تھا ۔ بادشاہ کو متردد دیکھ کر اعیان سلطنت بھی پریشان ہوگئے ۔ شاہجہاں نے پورے اپنے زیر قبضہ ملک میں ڈھنڈورا پٹوادیا کہ جو صاحب بھی اس کا مدلل جواب دینا چاہیں بلاتکلف دہلی تشریف لائیں ۔ انھیں منہ مانگا انعام دیا جائے گا ۔ ہر شخص عوام وخواص میں غور وفکر کرنے لگا لیکن معقول جواب کسی کی سمجھ میں نہ آسکا ۔ پنجاب میں ’’چینوٹ‘‘ ایک علاقہ ہے وہاں ایک اوسط درجے کے زمیندار سعداللہ نے بھی یہ اعلان سنا اور ایک نکتہ اس مسئلہ کے حل میں سوجھ گیا ۔ وہ فوراً دہلی پہنچے اس وقت شاہجہاں کے درباری شاعر ملک الشعرا ابوطالب کلیم تھے ، ان سے سعداللہ کی ملاقات ہوگئی ۔ وہ بھی اسی فکر میں تھے ، ان دنوں ہر طرف اسی بات کا تذکرہ تھا چونکہ سعد اللہ کی شخصیت اس وقت گمنام تھی انھوں نے کہا میں جواب دے سکتا ہوں ۔ کلیم کو تعجب ہوا اور خوشی میں پوچھا کس طرح؟ سعداللہ نے صرف دو سطریں کاغذ پر لکھ کر دے دیں تاکہ کوئی اور نہ جان سکے ۔

ابوطالب کلیم نے اسی وقت شاہجہاں کی طرف سے دعا سلام کے بعد ایک شعر اسی مضمون کوسمیٹتے ہوئے جو سعداللہ نے بتایا تھا فی البدیہہ موزوں کیا ، صفحہ قرطاس پر رقم کرکے ریشمی غلاف میں لپیٹ کر شاہجہاں سے مہر لگوا کر قاصد کے ہاتھ شاہ ایران کو بھیج دیا ۔ اس وقت شاہجہاں کو بھی تفصیل نہیں بتائی ۔ بس اتنا کہا مدلل جواب ہے ۔ آپ اطمینان رکھیں ، جلد شکریہ کا خط آئے گا۔ چند دن میں قاصد واپس آگیا ۔ شاہ ایران نے لکھا تھا جس نے بھی یہ مضمون تلاش کیا اگر آپ کے یہاں وہ کوئی حیثیت کا حامل نہیں تو بھیج دیں میں اس کو وزیراعظم بناؤں گا وہ اس کا مستحق ہے ۔اب شاہجہاں نے اس خوشی کے موقع پر دربار سجایا ۔ ملک الشعراء ابوطالب کلیم اپنے ساتھ سعداللہ خاں کو لے کر دربار میں پہنچے ۔ شاہجہاں نے کلیم سے دریافت کیا اس خریطے میں کیا لکھ کر روانہ کیا تھا ۔ ابو طالب کلیم نے سعداللہ کا تعارف کراتے ہوئے کہا ۔ یہ صاحب آپ کا اعلان سن کر چینوٹ سے تشریف لائے تھے ۔ انھوں نے ایسی مدلل بات بتائی جسے میں نے ایک شعر میں موزوں کرکے بھیج دیا تھا ۔ وہی شعر پھر لکھ کر پیش کردیا ۔

ہند وجہاں زروئے عدد چوں برابر است
برما خطاب شاہجہاں زان مسلم است
(حساب ابجد کے طریقے سے ہند و جہاں ہم عدد ہوتے ہیں ، دونوں کے عدد ’’59‘‘ ہوتے ہیں اس لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہند لکھوں کہ جہاں) شاہجہاں نے اس نکتے کی بہت تعریف کی ، کلیم کو انعام سے مالا مال کردیا اور جس نے یہ نکتہ بتایا اس کو پورے چینوٹ کا نواب کردیا اور اپنا وزیراعظم ۔ یہ تھے نواب سعداللہ خاں جو ساری عمر شاہ جہاں کے وزیراعظم رہے ۔ شاعر فکر اور جذبے کا موجد ہوتا ہے ۔ وہ اپنی اس گراں قدر طاقت سے شاعرانہ چشمکوں میں خوب کام لیتا ہے اور اپنے فکری تدبر کے وہ نمونے پیش کرتا ہے کہ جن کی تعریف سے زبان قاصر ہے ۔
(بہ شکریہ کتاب نما نئی دہلی فروری 2001)