دلوں کو صاف کرنے مسجدوں کا راستہ بھی صاف کریں

محمد مصطفیٰ علی سروری
جمعہ کا دن تھا، احمد بھائی حسب معمول اپنی کرانہ دکان پر بیٹھے تھے ۔ دوپہر بارہ بجے کے آس پاس انہیں فون آتا ہے ، فون کی دوسری طرف ان کے بچوں کا آٹو والا تھا ۔ آٹو والے نے بتلایا کہ اس کا آٹو اچانک خراب ہوگیا ہے اس لئے وہ احمد بھائی کی بچی کو ایس ایس سی کے امتحانی سنٹر سے واپس نہیں لاسکے گا۔ آٹو والے کا فون آنے کے بعد احمد بھائی نے فوری طور پر اپنی دکان کا شٹر بند کردیا ، ویسے بھی جمعہ کے دن ان کی دکان نماز کیلئے بندہی رہتی ہے لیکن اس جمعہ کو انہیں اپنی دکان جلد ہی بند کرنی پڑی۔ ٹولی چوکی سے انہوں نے نامپلی جانے کیلئے آٹو کرایہ پر لیا اور آٹو والے کو تیز چلانے کیلئے بولے کیونکہ سوا بارہ بجے بچی کا امتحان ختم ہونے والا تھا اور سوا بارہ بج چکے تھے ۔ حالانکہ ابتدائی امتحانات کیلئے وہ خود بھی بچی کو امتحان سنٹر چھوڑنے جایا کرتے تھے ، ان کی بچی بعد میں آٹو سے آنے جانے لگی تھی ۔ بہرحال کسی طرح وہ نامپلی پر بچی کے امتحانی سنٹر پہونچے ، بچی تھوڑی پریشان تھی اور کہنے لگی اجی ابا آج سائنئس کا پیپر اچھا گیا بولکے میں تو خوش تھی مگر آٹو والا ٹائم پر نہیں آیا تو میں پریشان ہوگئی تھی ، ایک آنٹی سے فون لیکر آپ کو ملائی تو آپ اٹھائے ہی نہیںپھرامی کوگھر پر فون کری تو معلوم ہوا کہ آپ دکان بند کرکے آرہے ہیں۔ میرا فون کیوں نہیں ریسیو کرے۔ احمد بھائی کو جلدی جلدی میں احساس ہی نہیں رہا کہ خود ان کے فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ خیر واپسی میں ایک دوسرے آٹو سے احمد بھائی اپنی بچی کو لیکر ٹولی چوکی روانہ ہوئے لیکن آ ٹو ڈرائیور نے ان کے بتائے ہوئے راستے سے چلنے کیلئے انکار کردیا اور نامپلی سے مانصاحب ٹینک اور وہاں سے مہدی پٹنم سے ہوتے ہوئے ٹولی چوکی کے راستے کو اختیار کیا ۔ احمد بھائی کو بڑا غصہ آیا ۔ انہوں نے آٹو ڈرائیور سے اپنے غصہ بھی اظہار کیا اور پوچھا کہ ارے بھائی جب نزدیکی راستہ موجود ہے تو پھر اتنا گھما پھرا کر کیوں لے جاتے ہو اور اس طرح مسافرین کو تکلیف دیکر تم لوگ پیسے کیوں کمانا چاہتے ہو وغیرہ وغیرہ ۔

احمد بھائی اپنے حلیہ سے اور بچی کے برقعہ سے واضح طور پر پہچانے جاتے تھے کہ وہ ایک مسلمان گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آٹو ڈرائیور مسلمان نہیں تھا لیکن اس نے احمد بھائی کے غصے کے جواب میں کہنے لگا کہ ارے صاحب آپ مسلمان ہیں ، تھوڑے پڑھے لکھے بھی لگتے ہیں۔ برا نہ مانے تو میں آپ کے سوال کا جواب دے سکتا ہوں۔ احمد بھائی کے چہرے پر ہلکی داڑھی اور سر پر ٹوپی تھی لیکن انہوں نے پینٹ شرٹ پہن رکھا تھا ۔ انہوں نے اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے آٹو والے سے اس کا نام پوچھا اور پھر کہا کہ بولو کیا وجہ ہے تمہاری اس طرح گھما پھرا کر طویل راستے سے لے جانے کی اور ساتھ کہا کہ تم لوگ پہلے تو میٹر سے چلتے نہیں اب OLA آگیا تو بھی لانگ روٹ کے ذریعہ زیادہ پیسے بٹورنا چاہتے ہو۔ آٹو والے نے احمد بھائی کی بات سننے کے بعد بولا صاحب پوری سٹی میں مجھے آپ ہی نہیں ملے کہ میں آپ سے ہی کمائی کروں، میرا دھندہ ہے آٹو چلانا ، آپ سننا چاہ رہے ہیں تو بتاتوں نہیں تو آپ کی مرضی دوسرا آٹو کرلو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ احمد بھائی کو دوبارہ احساس ہوا کہ وہ ایک غیر مسلم آٹو والے سے بات کر رہے ہیں تو انہوں نے اپنے لہجہ کو میٹھا بنایا اور پھر مسکراکر بولے ٹھیک ہے بھائی بولو کہ چھوٹا شارٹ کٹ راستہ ہونے کے باوجود لانگ روٹ استعمال کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ آٹو والے نے جواب دیا صاحب آج جمعہ ہے نا احمد بھائی بولے ہاں، آج جمعہ ہے تو آٹو والے نے کہا کہ صاحب آپ جس روٹ سے چلنے کیلئے بول رہے ہیں ، وہ میرا جانا پہچانا راستہ ہے اور اس راستے میںآپ لوگوں کی تین سے چار بڑی مسجدیں ہیں اور جمعہ کے دن مسجدوں کے پاس سے جانا بڑا مسئلہ رہتا ۔ کرایہ تو فکس ہوتا مگر رک رک کر چلنے میں ایک تو وقت بھی ضائع ہوجاتا ،دوسرا ہمارا پٹرول بھی جلتا رہتا اور مسجدوں کے پاس کی دکانیں اور بنڈیاں تو جگہ تنگ کردیتی مگر جو پارکنگ سڑک پر کردیتے ان کو ہم کچھ بھی بولے تو جھگڑا ہوجاتا ، ہماری غلطی نہیں بھی رہتی مگر مسجد سے نکلنے والا ایسا گھور کر دیکھتا اور مارنے کیلئے تیار رہتا کہ آپ پوچھو ہی نہیں۔ آٹو والا تو مسلسل بول رہا تھا ، احمد بھائی تو اپنے خیالوں سے تب جاگے جب بچی آٹو والے کو بولی کے برج کے نیچے سے رائیٹ جاناہے کہہ کر راستہ بتانے لگی ۔ احمد بھائی نے آٹو والے کو کرایہ ادا کرتے وقت معافی چاہی کہ بھائی میں تمہارے کو غلط سمجھ رہا تھا ۔ واقعی جمعہ کے دن مسجدوں کے پاس ٹریفک سے بڑا مسئلہ رہتا، اچھا کرے تم دور کے راستے سے لائے ، ہم لوگ بغیر ٹریفک میں پھنسے سیدھے گھر آگئے۔

قارئین اکرام یہ احمد بھائی اور آٹو والے کی کہانی تو آپ لوگوں نے پڑھ لی ، اب سب سے بڑا اور اہم سوال کہ اس کہانی سے ہمیں کیا سبق لینا ہے ، اس سے پہلے یہ جان لیجئے کہ بہت سارے قارئین میرے کالم کو پڑھنے کے بعد فون پر یا ای میل کے ذریعہ اپنے مشورے اور رائے بھیجتے ہیں، ایسے ہی ایک قاری نے آٹو والا کا یہ سارا قصہ لکھ بھیجا اور گزارش کی کہ اس مسئلہ پر میں عوامی رائے مبذول کراؤں کہ ہماری مساجد پوری دنیا میں مسائل کا حل پیش کرنے والی جگہوں کے طور پر جانی چاہئے، اس سلسلے میں واقعی ہم سبھی کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک غیر مسلم آٹو والا مسجدوں کے باہر خاص کر جمعہ کے دن کے ماحول کے بارے میں کہتا ہے کہ ہم لوگ (مسلمان) اتنی ٹریفک جام کردیتے کہ وہاں سے لوگوں کو اور ٹریفک کو گزرنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے، ہماری دکانیں اور سڑک پر کاروبار کرنے والے اور پھر نماز کیلئے آنے والوں کی گاڑیاں واقعی مسائل تو پیدا ہوتے ہیں، ہمیں سوچنا ہوگا لیکن قارئین یہ بھی تو ہے کہ ایک شخص جو مسلمان نہیں ہے اور وہ ہماری مساجد کے باہر کے ماحول کے بارے میں کچھ شکایت کر رہا ہے تو ہم مسلمانوں کو اس کے متعلق سوچنے کی کیا ضرورت ہے ۔ ہمارا جواب تو یہ ہونا چاہئے کہ ایک ہندو کو اور وہ بھی آٹو ڈرائیور ہے، اس کی باتوں پردھیان دینے کی کوئی ضرورت نہیں ویسے بھی آج کل بی جے پی اور آر ایس ایس والے ہر جگہ جھوٹ پھیلا رہے ہیں تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ارے سب جھوٹ ہے ہماری مسجدوں کے پاس ایسا نہیں ہوتا نہ ٹریفک جام ہوتی ہے اورنہ پارکنگ کا مسئلہ ہوتا اور نہ کوئی شخص کاروبار کی خاطر مسجد کے پاس سڑک کو گھیرتا ہے۔ ہم تو دیکھتے بھی ہیں کہ آج کل ٹریفک کا مسئلہ تو ہر جگہ ہے ۔ اگر مسجدوں کے پاس تھوڑی دیر کیلئے اور وہ بھی جمعہ کے دن ٹریفک جام ہوتی ہے تو اس پر کوئی شخص کیسے اعتراض کرسکتا ہے ۔ یہ ملک جتنا دوسروں کا ہے ، اتنا ہی مسلمانوں کا بھی ہے ، دوسرے لوگ اپنے پروگراموں کیلئے جب سڑکوں پر جگہ گھیر سکتے ہیں تو مسلمانوں کو کوئی کیسے روک سکتا ہے ۔ اگر آپ لوگ بھی ایسا سوچتے ہیں تو میں اس مسئلہ پر کوئی رائے دینا نہیں چاہوں گا ، ہاں میں اپنے قارئین سے یہ درخواست ضرور کروں گا ، وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں کہ اسلام کے متعلق جتنی غلط فہمیاں اور شکوک آج پھیل رہے ہیں،آج سے پہلے شائد ہی کبھی تھے ہوں گے ۔ ہم ہمیشہ سے کہتے رہے اسلام تو امن پسند مذہب ہے ،اسلام نے ساری عالم انسانیت کیلئے فلاح کا پیغام بھیجا ہے ۔ ہمارے مولوی صاحبان ، علمائے اکرام ، مفتیان اور خطیب حضرات اپنے بیانات اور خطبات میں اسلام کی سچی تعلیمات ہی تو سناتے رہتے ہیں مگر مسجد کے باہر رہنے والوں اوران لوگوں تک جو مسلمان نہیں مسجدوں کے باہر کا ماحول ہی ان کیلئے اسلام کا اور مسلمانوںکا تعارف ہے ، ہم چاہے لاکھ لٹریچر تقسیم کرلیں۔ تعارفی پروگرام منعقد کروالیں، ہماری مساجد کے در و دیوار اور اطراف و اکناف کا ماحول ان تعلیمات سے جب تک میل نہیں کھائے گا اور میاچ نہیں کرے گا ، ان کی اثر پذیری پر سوالیہ نشان رہے گا۔

ممبرا ممبئی کا ایک مشہور علاقہ ہے ، وہاں کے مسلمانوں نے بھی اس بات کو محسوس کیا کہ مسجدوں کے اندر کیا ہوتا ، مسلمان مسجد میں کیا کرتا ہے ۔ اس کے متعلق باہر کے (غیر مسلم) لوگوں کو صحیح نہیں معلوم وہ تو مسجد کے باہر کے ماحول کو اندر کے ماحول کا عکاس سمجھتے ہیں۔ اس پس منظر میں ممبئی کے علاقہ ممبرا کی مسجدکے ذمہ داروں نے اپنی مسجد کے دروازے غیر مسلموں کیلئے کھول دیئے ۔ ممبئی کے انگریزی اخبار Mumbai Mirror نے 18 مارچ 2018 ء کو جیوتی پنوانی کی ایک رپورٹ شائع کی ۔ رپورٹ کے مطابق الفرقان مسجدکے ذمہ داروں نے غیر مسلموں کیلئے ’’مساجد کا تعارف‘‘ پروگرام شروع کیا اور غیر مسلموں کو مسجد میں بلاکر وہاں مسلمان کیا کرتے ہیں کیوں کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں، یہ ساری چیزیں بتلائی گئی ۔ جماعت اسلامی کے رکن سیف کے حوالے سے اخبار نے لکھا کہ جب وہ لوگوں میں اسلام کا لٹریچر بانٹ رہے تھے تو ایک ہندو نے ان سے سوال کیا تھا کہ مسجد میں مسلمان کس کو پوچتے ہیں ؟ اور کیا مسجدوں میں تلواریں رکھی ہوتی ہیں ؟ ایسی بہت ساری غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کیلئے اب اس طرح کے پروگرام بڑھتے جارہے ہیں ۔ ہم کیا کریں مسجد کے اندر کے ماحول کو بھی صاف رکھیں اور باہر کے ماحول کا غیروں پر کیا اثر پڑتا ہے اور پڑ رہا ہے ، اس کے بارے میں بھی سوچیں اورایسا کوئی کام نہ کریں کہ غیروں کے ہاتھ میں پتھر آجائیں تو وہ مسجد کی طرف اٹھے۔ ذرا سوچئے جلوس کے دوران نامعلوم افراد آسانی سے کیسے قائل ہوجاتے ہیںکہ مسجد پر پتھر مارنا ضروری ہے ؟ کیا ہم اپنی مسجدوں سے اس کے اطراف کے محلوں میں اسلامی محبت کے پھول نہیں مہکاسکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے دل اور دماغ کے دروازے نہیں کھول سکتے ، جس اذان کے معنی و مطلب ہمارے بچے نہیں بتلا سکتے ہیں ، ان کو سن کر غیر مسلم کیا سمجھ پائیں گے۔ ا للہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین اسلام کی سچی تعلیمات کو سمجھنے ، سمجھانے اور دوسروں تک پہنچانے والا بنادے۔ ہماری مسجدوں کو عملی طور پر اللہ کا گھر اور مسجدوں کے باہر کے ماحول کو اسلام کی تعلیمات کا صحیح عکاس بنادے۔ (آمین)