دعاء میں صیغہ کی تبدیلی

دعاء میں صیغہ کی تبدیلی
سوال : بعض حضرات کو دوران دعاء صیغہ، دعاء میں تبدیلی کرتے دیکھا جاتاہے۔ ایسے ہی ہمارے امام صاحب بھی ہے جو بڑے شریف النفس ہے۔ رہا سوال یہ کہ قرآن پاک میں لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ لکھا ہے۔ لیکن ہمارے مسجد کے امام صاحب نماز کے بعد دعا کرتے وقت لا الہ الا انت سبحنک انا کنا من الظلمین پڑھتے ہیں۔ ان دونوں دعاؤں میں کونسی دعا پڑھنا درست ہے۔ براہ کرم ہمیں شرعی طور پر اس مسئلہ کا درست حل دیجئے مہربانی ہوگی ؟
نام ندارد
جواب : ’’ انی کنت من الظلمین ‘‘ میں ’’ انی کنت ‘‘ واحد متکلم کا صیغہ ہے جس کے معنی میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں اور ’’ انا کنا ‘‘ کے ساتھ پڑھیں تو اس وقت معنی یہ ہوں گے کہ ہم اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ امام صاحب دعاء میں ’’ انا کنا ‘‘ پڑھتے ہیں تو مصلیوں کو اس میں شامل کرتے ہوئے جمع کا صیغہ پڑھتے ہیں جو کہ درست ہے اور اگر قرآن میں جو الفاظ واحد متکلم کے ساتھ آئے ہیں اس سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ جب قرآنی آیت میں واحد متکلم کے صیغہ کو جمع کے ساتھ بطور دعاء پڑھتے ہیں اور مصلیوں کو شک و شبہ پیدا ہورہا ہے تو بہتر یہی ہے کہ قرآنی آیت کو بلفظہ پڑھا جائے۔

رمضان میں تہجد باجماعت پڑھنا
سوال : مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ ماہِ رمضان میں ہمارے یہاں نماز تہجد اور اجتماعی دعاوؤں کا اہتمام ہوتا ہے۔ نماز تہجد کی جماعت بھی ہوتی ہے ۔ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا ایسی دعاؤں اور نماز میں شرکت کرنا جائز ہے ؟
محمد مرشد، ورنگل
جواب : رمضان میں تہجد کی نماز باجماعت ادا کی جاسکتی ہے کیونکہ رمضان میں صحابہ کے نفل نماز باجماعت پڑھنے کا ثبوت ہے ۔ مذکور السوال دعاء اورنماز تہجد میں شرکت کی جاسکتی ہے۔

تراویح جماعت سے ادا کرنا
ترویحہ میں خلفاء راشدین کا نام لیناو تسبیح پڑھنا
سوال : تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ بعض حضرات اس کے مخالف ہیں اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر تسبیح پڑھنا بھی ہو تو آہستہ آہستہ پڑھا کریں، اس قدر زور سے نہیں پڑھنا چاہئے ۔ علاوہ ازیں ہر چار رکعت کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے نام لئے جاتے ہیں کیا قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت ہے ۔ میں ہمیشہ تراویح کے بیس رکعات باجماعت ادا کرتا ہوں۔ بسا اوقات کسی مصروفیت کی وجہ سے جماعت چھوٹ جاتی ہے تو کیا ایسی صورت میں گھر میں تراویح پڑھ سکتے ہیں ؟
نام …

جواب : تراویح میں ہر چار رکعات کے بعد اسی قدر مقدار میں بیٹھنا مستحب ہے اور اسی کو ترویحہ کہتے ہیں۔ نمازیوں کو اختیار ہے کہ نفل پڑھیں یا قرآن مجید کی تلاوت کریں یا تسبیح پڑھیں یا خاموش بیٹھیں رہیں۔ اہل مکہ طواف کرتے اور دوگانہ طوفا پڑھا کرتے تھے اور اہل مدینہ چار رکعت نماز علحدہ علحدہ پڑھا کرتے تھے ۔ نیز ہندوستان میں قدیم سے تسبیح پڑھنے کا رواج ہے جو فقہی کتابوں سے ثابت ہے اس کی مخالفت صحیح نہیں۔ عالمگیری میں ہے ۔ ’’ و یستحب الجلوس بین الترو یحتین قدر ترویحۃ ثم ھم مخیرون فی حالۃ الجلوس ان شاء و اسبحوا و ان شاء و اقعدوا ساکتین و اھل مکۃ یطوفون و یصلون واہل المدینۃ یصلون اربع رکعات فرادی ‘‘ مصلیوں کو اختیار ہے وہ جو صورت چاہیں اختیار کریں۔
-2 تراویح کے ہر چار رکعت کے بعد اگر بلند آواز سے تسبیح پڑھتے ہیںتو شرعاً جائز ہے ۔ بزازیہ میں ہے ’’ ان الذکر بالجھر فی المسجد لا یمنع احترازا عن الدخول تحت قولہ تعالی و من اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ ‘‘ تاہم ایسی بلند آواز سے نہ پڑھی جائے جس سے دوسرے مصلیوں کو خلل ہو۔
– 3 ہر چار رکعت کے بعد تسبیح پڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفاء راشدین کے اسماء گرامی جو لئے جاتے ہیں اس کی کوئی سند نہیں۔ تاہم اگر اس خیال سے کہ تراویح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور جماعت خلفاء راشدین کی سنت ہے ۔ اس کی یاد تازہ رہے اور تعداد رکعات معلوم ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

– 4 تراویح کو مسجد میں باجماعت ادا کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ اور اہل سنت والجماعت کا شعار ہے۔ اگر محلہ کی مسجد میں چند اشخاص بھی اس کو باجماعت ادا کرلیں تو بقیہ اہل محلہ کیلئے جماعت کی پابندی باقی نہیں رہتی۔ اور اگر اہل محلہ سے مسجد میں کوئی بھی تراویح باجماعت ادا نہ کرے تو تمام اہل محلہ گنہگار ہوں گے۔ تراویح کی جماعت ترک نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر کوئی جماعت سے نہ پڑھ سکے تو اس کو تنہا بیس رکعتیں پڑھنا چاہئے۔
مبسوط ج : 2 ، ص : 145 میں شمس الائمہ سرخسی فرماتے ہیں ’’ و ذکر الطحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ فی اختلاف العلماء و قال لا ینبغی ان یختار الانفراد علی وجہ یقطع القیام فی المسجد فالجماعۃ من سنن الصالحین و الخفاء الراشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین حتی قالوا رضی اللہ عنھم نور اللہ قبر عمر رضی اللہ عنہ کما نور مساجد نا والمبتدعۃ انکروا ادائھا بالجماعۃ فی المسجد فادائھا بالجماعۃ جعل شعارا للسنۃ کا داء الفرائض بالجماعۃ شرع شعار الاسلام ‘‘۔
تراویح میں تجوید کی رعایت کے بغیر قرآن پڑھنا
سوال : سارے ہندوستان میں تراویح میں مروجہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے جس میں دو تا دس پارے تراویح میں سنائے جاتے ہیں۔ دو پارے پڑھانے والی مسجد میں ہی قرآن سمجھ میں نہیں آتا ہو تو پھر 3 تا 10 پاروں کے سمجھنے کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔ اس طرح مساجد میں قرآن پڑھنے کا گویا مقابلہ ہوتا ہے اور جس تیزی سے قرآن پڑھ کر اللہ رب العزت کی نافرمانی کی جاتی ہے ۔ علماء کرام کو اللہ کے حکم رتل القران ترتیلا کے حوالے سے مساجد کے انتظامیہ کو انتباہ دیا جاتا تو تمام مومنین کو اس گناہ سے بچایا جاسکتا ہے ۔ یا پھر اس طرح قرآن کا تراویح میں پڑھنا جائز ہے ؟
ایک مخلص
جواب : ایک اہم بات کی طرف سائل نے توجہ مبذول کروائی ہے ۔ اور وہ تراویح میں تلاوت قرآن کا مسئلہ ہے ۔ کثرت سے تلاوت قرآن محمود و مقصود ہے لیکن اس کے حدود و آداب کے ساتھ۔ اگر قرآن تراویح میں تین پارے یا دس پارے یا اس سے زائد پڑھے جائیں اور امام اس قدر تیزی سے پڑھے کہ سامعین کو اچھی طرح سمجھ میں نہ آئے اور خود امام صاحب تجوید کی مراعات نہ رکھ سکیں تو ایسی صورت میں امام صاحب کا قرآن پڑھنا درست نہیں بلکہ حدیث شریف: بعض قاری قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت کرتا ہے کی وعید سے وہ بچ نہیں سکیں گے۔ اس لئے قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی کے لئے پڑھیں اور تراویح میں ہو یا انفرادی طور پر کثیر تلاوت محمود و پسندیدہ ہے۔ بشرطیکہ اس میں مخارج و ادائی کا مکمل پاس و لحاظ ہو اور عموماً کثیر تلاوت میں تجوید کی کامل مراعات مفقود ہوتی ہے۔

عقیقہ میں گائے ، بیل ، اونٹ ذبح کرنا
سوال : قربانی کیلئے گائے ، بیل اور اونٹ کی قربانی سات افراد کیلئے دی جاسکتی ہے اس طرح کیا عقیقہ کیلئے بھی بڑے جانور کو سات افراد کی طرف سے ذبح کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
محمد عمر کامل، جہانما
جواب : قربانی اور عقیقہ کے احکام یکساں ہیں جو شرائط و اوصاف قربانی کے جانور میں ضروری ہیں وہی عقیقہ کے جانور میں بھی ضروری ہیں۔
جس طرح قربانی میں گائے ، بیل ، اونٹ دے سکتے ہیں اسی طرح ان بڑے جانور کے ذریعہ عقیقہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم بچے کا عقیقہ دو بکروں سے کرنا چاہئے ۔ اگر دو کی قدرت نہ ہو تو ایک بھی کافی ہے۔ اس لئے بڑے جانور کے ذریعہ عقیقہ میں دو حصے بچے یا آدمی کے لئے مختص کرنے چاہئے اور اگر گنجائش نہ ہو تو ایک حصہ بھی کافی ہوجاتا ہے ۔

مساجد پر خاص متبرک و مقدس موقعوں پر روشنی لگانا
سوال : اگر رمضان المبارک ، شب معراج ، شب برأت اور شب قدر کے مبارک موقعوں پر مساجد پر رو شنی کرنا یا میلاد النبیؐ کے موقع پر ثواب کی خاطر کھانا کھلانا کیا جواز رکھتے ہیں ؟
محمد عبدالستار، ونستھلی پورم، ضلع رنگا ریڈی
جواب : کھانا کھلانا بہر صورت ثواب کا باعث ہے۔ البتہ متبرک راتوں میں روشنی لگانے کا قرونِ اولی میں ثبوت نہیں۔ تاہم روشنی کا اہتمام کیا جائے تو مضائقہ نہیں، لیکن کسی صورت میں اسراف کی اجازت نہیں۔

وتر کی قضاء
سوال : احادیث کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی کہ رات کی آخری نماز (نماز وتر) ہے۔ نیز وتر کی نماز تہجد کی نماز کی ادائیگی کے بعد پڑھنا بہتر ہے ۔ وغیرہ وغیرہ۔ زید ا لحمد و للہ ان روایات کے علم میں آنے کے بعد نماز وتر ’’ نماز تہجد کے بعد ادا کرنے کی ممکنہ کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں مزید چند ضروری معلومات کی ضرورت آپ کی طرف رجوع ہونے کی وجہ بنی ۔ امید کہ تشفی بخش معلومات فراہم کی جاکر مشکور فرمائیں گے۔
– 1 اگر نیند سے بیدار نہ ہو اور فجر کی اذاں ہوجائے تو کیا نماز وتر کی قضاء ادا کرنا ہوگا ۔ یعنی کیا نماز وتر کی قضاء ہے ؟
– 2 نماز وتر کی ادائیگی کے دوران فجر کی اذاں سنائی دے تو کیا نماز وتر ادا ہوجائے گی ؟
– 3 دوران رمضان تراویح کے بعد مساجد میں نماز وتر باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ کیا زید کو سابق کی طرح نماز تہجد کے بعد ہی نماز وتر ادا کرنا چاہئے یا نماز تراویح کے بعد باجماعت نماز وتر ادا کرنی چاہئے ؟ کونسا عمل افضل ہوگا ؟
محمد وسیم ، ملک پیٹ
جواب : فرض نماز یا واجب نماز ترک ہوجائے تو اس کی قضاء لازم ہے اور واجب الوتر کا وقت عشاء کا وقت ہے، اس لئے فجر کے وقت میں کوئی وتر ادا کرے یا وتر فوت ہوجائے تو اس کی قضاء لازم ہے۔ رمضان المبارک میں تنہا واجب الوتر پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ باجماعت ادا کی جائے تاکہ جماعت کا ثواب بھی حاصل ہوجائے۔

متولی کے شرائط
سوال : – 1 کسی قبرستان یا مسجد کیلئے متولی کا اہل ارشاد (سجادہ) ہونا لازمی ہے یا کوئی بھی عاقل بالغ مسلمان متولی بن سکتا ہے ؟
نام ندارد
جواب : تولیت کیلئے اہلیت شرط ہے، اہل ارشاد سے ہونا ضروری نہیں۔ متولی کے شروط یہ ہیںکہ وہ متدین ، امانت دار ، عاقل و بالغ اور کام کی قابلیت رکھنے والا ہو، فاسق ، فاجر اور اسراف کرنے والا پیسوں کو ضائع کرنے والا نہ ہو ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 3 کتاب الوقت میں ہے : و ینزع وجوبا و لوالواقف غیر مامون او عاجز اوظھر بہ فسق کشرب الخمر و نحوہ۔ رد المحتار میں ہے : قال فی الاسعاف ولا یولی الا امین قادر بنفسہ او بنائبہ لان الو لایۃ مقیدۃ بشرط النظر ولیس من النظر تولیۃ الخائن لانہ یخل بالمقصود و کذا تولیۃ العاجز لان المقصود لا یحصل بہ۔