درگاہ حضرت حسین شاہ ولی ؒ کی اراضی کے مقدمہ کی سماعت

حکومت اور لینکو کے وکلا کی خواہش پر سماعت 8 ہفتوں کیلئے ملتوی ۔ کپل سبل لینکو کے وکیل
حیدرآباد۔/28فبروری، ( سیاست نیوز) سپریم کورٹ میں آج درگاہ حضرت حسین شاہ ولی ؒ کی وقف اراضی کے مقدمہ کی سماعت ہوئی تاہم تلنگانہ حکومت اور لینکو ہلز کے وکلاء کی خواہش پر سماعت کو 8 ہفتوں کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کی قطعی سماعت کیلئے آج کی تاریخ مقرر کی تھی۔ جسٹس پرفل کمار پنت اور جسٹس رمنا پر مشتمل ڈیویژن بنچ پر مقدمہ کی سماعت کے آغاز کے ساتھ ہی تلنگانہ حکومت اور لینکو ہلز کے وکلاء نے بعض تکنیکی وجوہات کا اظہار کرتے ہوئے عدالت سے وقت مانگا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ کانگریس سے تعلق رکھنے والے سابق مرکزی وزیر اور قانون داں کپل سبل لینکو ہلز کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوئے۔ ان کے علاوہ دیگر نامور وکلاء کی خدمات لینکو ہلز کی جانب سے حاصل کی گئی تھیں۔ تلنگانہ انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن کے وکلاء نے بھی کارپوریشن کی عدم تقسیم اور مقدمہ میں آندھرا پردیش انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن کے نام کی عدم تبدیلی تکنیکی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے آئندہ سماعت کیلئے وقت طلب کیا۔ واضح رہے کہ کانگریس دور حکومت میں لینکو ہلز کو وقف اراضی الاٹ کی گئی تھی جبکہ تلگودیشم دور حکومت میں مختلف اداروں کو اراضی الاٹ کی گئی۔ کانگریس ایک طرف ٹی آر ایس حکومت سے اوقافی اراضی وقف بورڈ کو حوالے کرنے کا مطالبہ کررہی ہے تو دوسری طرف اسی پارٹی کے سابق مرکزی وزیر لینکو ہلز کی تائید میں سپریم کورٹ میں پیروی کررہے ہیں۔ سماعت کے آغاز پر جب عدالت سے وقت طلب کیا گیا تو وقف بورڈ کے وکلاء راجیو دھون، کے وشواناتھن اور دوسروں نے اس کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کو مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے فریقین کے دلائل سننے چاہیئے۔ ڈیویژن بنچ نے مقدمہ کی سماعت کو 8 ہفتوں کیلئے ملتوی کردیا۔ اس طرح وقف بورڈ کو اس اہم مقدمہ کی عاجلانہ یکسوئی کے سلسلہ میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ چیف ایکزیکیٹو آفیسر وقف بورڈ محمد اسد اللہ جو مقدمہ کی سماعت کے سلسلہ میں نئی دہلی میں تھے آج رات حیدرآباد واپس ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سماعت کی تاریخ تک وقف بورڈ پوری تیاری کے ساتھ دوبارہ پیش ہوگا۔ واضح رہے کہ اس مقدمہ کے سلسلہ میں وقف بورڈ کو لاکھوں روپئے خرچ کرنے پڑ رہے ہیں اور مقدمہ کی سماعت کے بغیر ہی ابھی تک بورڈ نے بتایا جاتا ہے کہ وکلا کو 15 لاکھ روپئے ادا کردیئے ہیں اور مزید کچھ ادائیگی ابھی باقی ہے۔ اگر حکومت وعدہ کے مطابق وقف اراضی پر دعویداری سے دستبرداری اختیار کرتی ہے تو نہ صرف وقف بورڈ کے لاکھوں روپئے بچ سکتے ہیں بلکہ 1654 ایکر قیمتی اراضی وقف بورڈ کی تحویل میں آجائیگی۔