درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی…

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
چیف منسٹر تلنگانہ کی حیثیت سے کے چندرشیکھر راؤ کا حق ہے کہ وہ صحافیوں اور دانشوروں کا احتساب کریں مگر تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں کا بھی یہ استحقاق ہے کہ وہ حکمرانوں سے سوال و جواب کریں۔ چندرشیکھر راؤ نے نئی ریاست کے حصول میں کامیاب ہونے کے بعد عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کیلئے حکمرانی کے فرائض انجام دینے لگے تو اپوزیشن پارٹیوں نے ان کی پالیسیوں میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجہ میں آج کئی مسائل جوں کے توں ہیں۔ شہر حیدرآباد کا مسئلہ ہو یا اضلاع کو بہترین نظم و نسق دینے کا معاملہ یہ تمام کھٹائی کا شکار ہیں۔ جب کبھی پریس کانفرنسوں اور ذاتی ملاقاتوں میں کے سی آر اور ان کی کابینہ کے وزراء کی کارکردگی کے خلاف یہی حق کا استعمال کیا جاتا ہے تو جبین اقتدار شکن آلودہ دکھائی دیتی ہے۔ ان کی تقاریر پُرکشش اور دل فریب ہوتی ہیں البتہ ان کے اندر عوام کی خدمت کرنے کا احساس شدت سے پایا جاتا ہے۔ ان کے بیانات کے ایک ایک جملے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ عوام کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر فنڈس کی قلت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ سرکاری فنڈس کی کمی کے باعث ان کے احساس و درد و سوز میں ڈوبی ہوئی ان کی باتیں اکثر عوام کے دل میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔

شائد ایسے ہی حکمرانوں کے لئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری‘‘ لیکن کے سی آر کی باتوں اور منصوبوں سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ ’’یہ حکمراں‘‘ یا سلطان عیار نہیں ہے۔ صاحب احساس ہے مگر وقت اور حالات کے علاوہ سرکاری فنڈس کی کمی نے اس سلطان کے عیار ہونے کا اظہار ہورہا ہے۔ سوائن فلو پر قابو پانے میں ناکام کے سی آر کی حکومت عوام الناس کو بہتر بلدی نظم و نسق فراہم کرنے سے بھی قاصر ہے۔ اس لئے ان کی حکومت نے دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے لئے بنایا گیا گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کو منقسم کرکے ہر ایک شہر کے لئے علیحدہ بلدیہ بنانے پر غور کرنے کے لئے مجبور کررہا ہے۔ آئندہ سکندرآباد و حیدرآباد کے لئے دو علیحدہ بلدیات ہوں گے جن کے تحت 100، 100 بلدی حلقے آئیں گے۔ اب گریٹر حیدرآباد میں 150 بلدی حلقے ہیں۔ آئندہ دو علیحدہ بلدیات بلکہ سائبرآباد کے لئے بھی علیحدہ بلدی ادارہ قائم کیا جائے گا تو گریٹر حیدرآباد کو 3 بلدیات کا نظم و نسق ملے گا۔ عوام الناس کو اس سے اچھا نظم و نسق دستیاب ہوگا۔ حکومت اپنے منصوبے کو بروئے کار لانے سے زیادہ سے زیادہ بلدی حلقے قائم کرکے پارٹی کے کارپوریٹرس کو فنڈس کے بیجا استعمال کرنے کا موقع دینا ہے تو پھر عوام الناس کے وہی مسائل برقرار رہیں۔ آنے والے دنوں میں بلدی حلقوں کا مسئلہ کیا ہوگا یہ دیکھا جائے گا۔ فی الحال کے سی آر کو جی ایچ ایم سی کے انتخابات کی تیاریوں سے قبل اپنی پارٹی کی رکنیت سازی مہم کو پورا کرکے کارپوریٹرس کے لئے راہ ہموار کرنی ہے۔ جی ایچ ایم سی کے انتخابات قریب ہیں اور تلنگانہ کے چیف منسٹر کو حیدرآباد میں مقیم آندھرائی باشندوں اور دیگر غیر مقامی خاندانوں کے ساتھ دوستی و محبت کا اظہار کرتے دیکھا جارہا ہے۔ کل تک وہ حیدرآباد میں مقیم آندھرائی اور دیگر غیر مقیم افراد کے خلاف مہم چلانے کی بات کرتے تھے اب اُنھوں نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ حیدرآباد میں کوئی بھی غیر مقیم شہری نہیں ہے بلکہ ہر ایک شہری تلنگانہ کا سپوت ہے۔ کے سی آر کہتے ہیں کہ میری حکومت ان شہریوں کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتے گی۔ علاقہ واری خطوط پر کسی کے ساتھ اگر امتیاز نہیں برتا جاتا ہے تو پھر شہر کے کئی محلوں میں خاص کر کوکٹ پلی میں جہاں زیادہ تر آندھراپردیش سے تعلق رکھنے والے عوام مقیم ہیں، کے سی آر کی موجودگی میں ٹی آر ایس میں شامل ہورہے ہیں۔ بلدی انتخابات میں کامیابی کے لئے یہ آندھرائی شہری ہی ٹی آر ایس کو زیادہ سے زیادہ نشستیں دیں گے۔

ان کی موجودگی اور ان کے ووٹ کی اہمیت کو دیکھ کر ہی کے سی آر نے ان کے ساتھ دوستی اور محبت کا مظاہرہ شروع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حیدرآباد کے شہری بازآبادکار نہیں ہیں بلکہ وہ تلنگانہ کے ہی سپوت ہیں۔ اُنھوں نے ان لوگوں سے یہ بھی کہا ہے کہ آپ کے آبا و اجداد آندھرا سے آئے تھے اب حیدرآباد ہی ان کا مسکن ہے یعنی وہ بھی حیدرآبادی ہی ہیں تو پھر آندھراپردیش کے چیف منسٹر چندرابابو نائیڈو کے تعلق سے ان کا خیال مختلف کیوں ہوسکتا ہے۔ آندھرائی عوام کے غلبہ والے محلوں میں کے سی آر نے کئی انفراسٹرکچر کی سہولتیں دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان محلوں میں عوام سے ملاقات کرتے ہوئے ان کی تکالیف کی سماعت کی جارہی ہے۔ کے سی آر خود بھی حیدرآباد کے شہری نہیں ہیں۔ ان کا آبائی وطن سدی پیٹ ضلع میدک ہے۔ تاہم ان کے پوترے یہ فخر سے کہیں گے کہ وہ حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ چیف منسٹر کی سوچ اور احساس میں یہ تبدیلی محض بلدی انتخابات میں پارٹی کو زیادہ سے زیادہ نشستوں پر کامیاب بنانے کے لئے ہے۔ اگر ان کی پارٹی بلدی انتخابات میں کامیابی بھی حاصل کرلی تو فنڈس کے بغیر عوامی مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہوں گے۔ وقتی طور پر خود غرضی کی سیاست کرنے کی وجہ سے آگے چل کر کئی مسائل پیدا ہوں گے۔ تلنگانہ بھر میں سب سے زیادہ مسائل سرکاری اسکولوں کی ابتر حالت کے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں بچوں کی تعداد کم اس لئے ہے کیوں کہ یہاں انفراسٹرکچر کی سہولت نہیں ہے، طلباء کو بیٹھنے کے لئے فرنیچر نہیں ہے۔ کئی اسکولوں میں بیت الخلا نہیں ہیں۔

ایک اندازہ کے مطابق تلنگانہ کے اضلاع کے علاوہ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں 6000 سرکاری اسکولس ایسے ہیں جہاں بنیادی سہولتیں نہیں ہیں۔ تلنگانہ حکومت ریاست میں اسکولی تعلیم کو مضبوط بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ کے جی تا پی جی مفت تعلیم کی پالیسی کے آئنہ میں جب طلباء کو سرکاری اسکولوں میں بیت الخلاء کی سہولت نہیں ہے تو ان کی پالیسی پر لوگوں کو شبہ ہونا یقینی ہے۔ محکمہ تعلیم کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ 6000 سرکاری اسکولوں میں 8315 بیت الخلاؤں کی ضرورت ہے۔ ان میں سے 5745 بیت الخلاء لڑکوں کے لئے اور 2570 بیت الخلاء لڑکیوں کے لئے تعمیر کئے جانے ہیں۔ اس کے لئے حکومت کو 103.43 کروڑ روپئے درکار ہیں۔ جن اسکولوں میں یہ سہولتیں موجود ہیں وہاں صاف صفائی کا ناقص انتظام ہونے سے طلباء کے لئے حفظان صحت کا مسئلہ سنگین بنتا جارہا ہے۔ جب حکومت کے پاس فنڈس ہی نہیں ہیں تو وہ طلباء کو صاف صفائی کے ساتھ ایک صحت بخش اسکولی ماحول کس طرح فراہم کرے گی اور کے جی تا پی جی مفت تعلیم کا منصوبہ کس طرح پورا ہوگا۔ تلنگانہ کے قیام کا ایک سال پورا ہورہا ہے۔ آج ہی کے دن ایک سال قبل پارلیمنٹ میں تاریخی تلنگانہ بِل کو منظوری دی گئی تھی۔ ندائی ووٹ سے تلنگانہ بل کو منظوری ملنے کے بعد تلنگانہ کے 4 کروڑ عوام کو ان کی اپنی نئی ریاست حاصل ہوئی تھی اور ساحل آندھرا و رائلسیما کے 6 کروڑ عوام کی آنکھوں میں آنسو لاکر تلنگانہ حاصل کرنے والے کے سی آر نے تلنگانہ عوام کو وقتی خوشی سے سرشار کیا تھا۔ اب نئی ریاست تلنگانہ پہلے سے زیادہ بھیانک مسائل سے دوچار ہورہی ہے۔

اس حقیقت کے باوجود تلنگانہ عوام نئی ریاست میں ترقی کی اُمید کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ لوگ ہر روز اپنی اس ’’خوش فہمی‘‘ کا اعادہ کرتے جارہے ہیں کہ ان کی کے سی آر حکومت اپنی ذمہ داری سے غافل نہیں ہے۔ تلنگانہ کے مستقبل کے لئے عوام نے بھی اُمید کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔ ہر روز بُری خبریں سننے والے عوام کو آنے والے گرما میں برقی کی شدید قلت اور پانی کے سنگین مسئلہ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ مہاراشٹرا اور آندھرا کے ساتھ آبی تنازعات کی یکسوئی کے لئے بات چیت کرنے والے چیف منسٹر کو اپنے عوام کے مسائل کی یکسوئی کے لئے کٹھن حالات سے گزرنا پڑے گا۔ آنے والے مہینوں میں گرمی، پانی کی قلت، پانی کے مسئلہ کے ساتھ طلباء کو نصابی کتابوں کی قلت اور مہنگی کتابوں کے حصول کے لئے مجبور ہونا پڑے گا کیونکہ حکومت تلنگانہ نے نصابی کتابوں کی طباعت کے لئے دیئے جانے والے کنٹراکٹس کو منسوخ کیا تو نئے ٹنڈرس کے ذریعہ نئے شراکت دار ہوں گے اور اس سے کتابوں کی اشاعت پر آنے والے مصارف کا بوجھ بالآخر اولیائے طلباء کی جیب سے نکالا جائے گا۔ پھر نئی ریاست تلنگانہ کے حصول کا کچھ نہ کچھ صدمہ اور خسارہ تو اُٹھانا ہی پڑے گا۔